’کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور ہے‘

اپ ڈیٹ 09 فروری 2016
پی ایس کو تمام تر کوششیں بروئے کار لاتے ہوئے میدانوں کو بھرنے کی کوششیں کرنی چاہئیں۔
پی ایس کو تمام تر کوششیں بروئے کار لاتے ہوئے میدانوں کو بھرنے کی کوششیں کرنی چاہئیں۔

اس سال اتنی کرکٹ ہو رہی ہے کہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ کہیں کرکٹ کا ایک عام شائق کھیل سے بیزار اور تنگ ہی نہ آ جائے۔ 24 گھنٹوں کے دوران مختلف چینلز پر ہر طرز کی کرکٹ براہ راست یا پھر ریکارڈنگ کی صورت میں دکھائی جا رہی ہے۔

تمام دس مستقل رکن ممالک ایکشن میں ہیں جہاں ساتھ ساتھ مستقل بہتری کی جانب گامزن ایسوسی ایٹ ملک جیسے افغانستان اور آئرلینڈ کے ساتھ ساتھ نمیبیا، پاپوا نیو گنی، نیدرلینڈ اور متحدہ عرب امارات بھی کھیل رہے ہیں ۔۔۔۔ میں مزید ٹیموں کا تذکرہ بھی کر سکتا ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کرکٹ کی دنیا میں کیا چل رہا ہے۔ یہاں ٹیسٹ میچز، ایک روزہ کرکٹ کے ساتھ ساتھ ٹی ٹوئنٹی میچز بھی ہو رہے ہیں۔ آئی سی سی کے زیر انتظام انڈر19 ٹورنامنٹ جاری ہے۔ خواتین کرکٹرز بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں جہاں ان کا سال بھی انتہائی مصروف گزر رہا ہے اور نابینا کھلاڑیوں بھی کرکٹ کی وجہ سے کافی مصروف ہیں۔ یہ تمام تر کرکٹ چاہے دو طرفہ ہو یا بین الملکی، سب آئی سی سی کے زیر انتظام آتی ہے۔

تاہم اس کے ساتھ کرکٹ کی ایک طرز بھی ابھر رہی ہے جس کی حیثیت میرے نزدیک انتہائی مبہم ہے۔ وہ ہیں ٹی ٹوئنٹی لیگ اور بیشز۔

ان میں سے کچھ ڈومیسٹک ہیں جیسے انڈین پریمیئر لیگ(آئی پی ایل)، بنگلہ دیش پریمیئر لیگ(بی بی ایل)، سری لنکن لیگ، آسٹریلین بگ بیش، کیریبیئن پریمیئر لیگ اور امریکا میں کھیلی گئی وارن ٹنڈولکر کی لیگ شامل ہے۔ شاید کچھ اور بھی ہوں جس کے نام ابھی میرے دماغ میں نہیں آرہے۔ تاہم سوائے آخری کے بقیہ تمام لیگ ملکوں کے بورڈز کے زیر انتظام چل رہی ہیں، یہ کسی حد تک آئی سی سی کے دائرہ اختیار میں بھی ہے۔

اس سب میں آئی سی سی کا کیا کردار ہے، مجھے اس بات کا علم نہیں اور میں اس معاملے میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ عموماً آئی سی سی کھیل کے ضابطوں پر نظر رکھتی ہے تاکہ کوئی چیز خلاف قانون نہ ہو۔ آئی سی سی اپنے آفیشلز، ایمپائرز اور ریفریز کو تمام تر چیزوں پر نظر رکھنے کی اجازت دیتی ہے اور آئی سی سی ایونٹس میں کھیل پر لاگو ہونے والے قوانین کا یہاں بھی نفاذ ہوتا ہے۔

کچھ سالوں سے پاکستان اپنی لیگ کے انعقاد کے تصور پر کام کر رہا تھا جسے پاکستان سپر لیگ(پی ایس ایل) کا نام دیا گیا۔ مختصراً کہا جائے تو اس سب کا آغاز انتہائی شوروغل کے ساتھ کیا گیا اور کیونکہ متحدہ عرب امارات ایک عرصے سے کرکٹ کیلئے ہمارا گھر بنا ہوا ہے تو اس لیگ کے بھی وہیں انعقاد کی تجویز پیش کی گئی۔ پیسہ لگایا گیا اور آئی سی سی کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر اور سابق سینئر بینکر جیسے نام نہاد ماہر کو ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔ لیکن پی سی بی کے اندرون خانہ مسائل کے سبب یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا یا مزید مختصراً کہا جائے تو غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردیا گیا۔ میرے خیال میں کچھ وقت کیلئے یہ منصوبہ پوشیدہ طور پر فعال رہا جہاں ایک طرف پی سی بی اس تواتر کے ساتھ چیئرمین بدل رہا جتنا شدید گرمی میں کوئی شخص قمیض تبدیل کرتا ہے۔

بالآخر پی ایس ایل شروع ہو گئی لیکن کیا یہ محفوظ ہے؟

ذکا اشرف کا قصہ تمام ہونے کے بعد ترقی پسند اور متحرک نجم سیٹھی کی بورڈ میں آمد کے ساتھ صورتحال نے ایک مختلف موڑ لیا۔ نجم سیٹھی اور شہریار خان کے درمیان چیئرمین کے عہدے کے لیے ایک عرصے تک جاری چپلقش اور میوزیکل چیئر کے ایک اور راؤنڈ کے بعد بالآخر اس بات کا فیصلہ ہو گیا کہ شہریار پی سیبی کے چیئرمین ہوں گے جبکہ سیٹھی تمام ایگزیکٹو کمیٹیوں کے چیئرمین ہوں گے۔ سیٹھی نے پی ایس ایل کے منصوبے کو دوبارہ شروع کرتے ہوئے اسے متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں شروع کرنے کا اعلان کیا۔ شہریار خان نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے رد کردیا لیکن اس سے قبل وہ یہ الفاظ ختم کرتے ، انہوں نے اپنے الفاظ سے دستبردار ہوتے ہوئے حسب معمول جانے پہنچانے انداز میں موقف تبدیل کر لیا۔

میں ضرور کہوں گا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پی سی بی کو بیش بہا مسائل کاسامنا کرنا پڑا جن میں سے اکثر اس کے خود پیدا کردہ تھے جیسے کہ ہندوستان کے پیچھے ’ہوم‘ سیریز کیلئے بھاگنا۔ اس کی مالیت 20 ملین ڈالر تھی ۔۔۔۔ کم از کم ہمیں تو یہی بتایا گیا تھا۔ اس وقت یہ بھی کہا جانے لگا کہ پی ایس ایل کے انعقاد کا انحصار ہندوستان پاکستان سیریز کے انعقاد پر منحصر ہے۔

پی سی بی کی اس بڑی غلطی سے قطعہ نظر کچھ دیگر چھوٹے موٹے مسائل بھی تھے جیسے محمد عامر کا مسئلہ(محمد آصف اور سلمان بٹ کا بھی جبکہ کچھ نے تو کہا کہ پھر دانش کنیریا کیوں نہیں؟) ابھی یہ سب کچھ کم تھا کہ پاکستانی باؤلنگ کے اہم ترین رکن یاسر شاہ کو مثبت ڈوپنگ ٹیسٹ کے سبب معطل کردیا گیا۔ پی سی بی چیئرمین کیلئے مثل بالکل درست بیٹھتی ہے کہ برائی ایک کے بعد ایک ٓتی ہی چلی جاتی ہے۔

ان تمام تر ’چھوٹے موٹے‘ مسئلوں سے نجم سیٹھی کا عزم متزلزل نہ ہوا اور انہوں نے پی ایس ایل کے قطر یا متحدہ عرب امارات میں انعقاد کا فیصلہ کیے بغیر ہی اس کا ڈھانچہ تیار کر لیا۔

میں یہاں اس بات کا ادراک کرنا چاہوں گا کہ پی ایس ایل میں کھلاڑیوں کی ڈرافٹنگ کے عمل کے بارے میں کچھ پتہ نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ اس حوالے سے مراعات لینے اور دینے والوں کو اعدادوشمار کا یقیناً علم ہو گا۔ ڈرافٹ کے عمل میں کچھ باتیں جو ابھی تک یقیناً بہت ’پراسرار‘ ہیں جیسے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی فرنچائز نے اسلام آباد کی جانب سے شاہد آفریدی پر بولی نہ لگانے پر کرشماتی آل راؤنڈر اور تمام فارمیٹ میں پاکستان کی قیادت کرنے کا تجربہ رکھنے والے کھلاڑی کی بولی کیوں نہیں دی؟ اور لاہور کو بالکل آخری لمحات پر پاکستان کی ایک روزہ ٹیم کے کپتان اظہر کو لینے کا خیال کیوں آیا۔ بلاشبہ اسکواڈ میں شامل کھلاڑیوں میں انہیں سب سے کم رقم دی جا رہی ہے(خصوصاً اگر کرس گیل کی فیس سے ان کا موازنہ کیا جائے)، اب وہ ان کے کپتان ہیں۔ میں ’ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں‘ کا مطلب سمجھنے میں بھی ناکام رہا۔

اگر ہمارے پاس پانچ ٹیمیں ہیں تو ہر ٹیم میں ایک پاکستانی آئکن کھلاڑی ضرور ہونا چاہیے تھا(جس کی میچ فیس سب سے زیادہ مہنگے کھلاڑی کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ ہونی چاہیے تھی)۔ شعیب ملک، یونس خان، مصباح الحق، شاہد آفریدی، محمد حفیظ اور سعید اجمل میں سے ان کا انتخاب ہو سکتا تھا۔ اگر میری یادداشت صحیح کام کر رہی ہے تو یاد دہانی کراتا چلوں کہ انڈین پریمیئر لیگ کے پہلے ایڈیشن میں عظیم کھلاڑیوں سچن ٹنڈولکر، سارو گنگولی، یوراج سنگھ وی وی ایس لکشمن، راہول ڈراوڈ اور وریندو سہواگ کو آئکن کھلاڑیوں کا درجہ دیا گیا تھا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعد میں لکشمن اس منصب سے دستبردار ہو گئے تھے تاکہ رقم کو بچایا جا سکے اور ان کی ٹیم دکن چارجرز اس کو دیگر کھلاڑیوں کو خریدنے کیلئے استعمال کر سکے۔

ہم سب کی نظریں پی ایس ایل کی کامیابی پر مرکوز ہیں اور مجھے یقین ہے کہ جس پیشہ ورانہ انداز میں فرنچائز کو رکھا گیا ہے اس سے یہ ضرور کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ندیم عمر ایک ماہر صنعتکار اور کرکٹ کلب کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ کھیل کا بہت شوق رکھتے ہیں۔ پشاور زلمی کو جاوید آفریدی نے خریدا ہے جنہیں راؤ ہاشم کی پیشہ ورانہ خدمات حاصل ہیں اور کراچی کنگز کو ٹی وی چینل کا فائدہ حاصل ہے اور ٹیم کے مالک سلمان اقبال، حاجی اقبال کے بیٹے اور مرحوم عبدالرزاق یعقوب کے بھتیجے ہیں اور گزشتہ تین دہائیوں سے کرکٹ کے بڑے مداحوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

میں یہاں لاہور اور اسلام آباد کے مالکان کے حوالے سے زیادہ معلومات نہ ہونے کا ادراک ضرور کرنا چاہوں گا۔ لاہور قلندرز نے اپنے نام میں دراصل سندھ اور پنجاب کو یکجا کر دیا ہے جو ایک اچھا شگون ہے اور ٹیم کو مضبوط کرے گا۔

لیکن جیسے ہیملیٹ میں کہا ہے کہ ’کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور ہے‘ کے مصداق نام نہاد ماسٹرز چیمپیئنز لیگ(میں نے نام نہاد کا لفظ اس لیے استعمال کیا کیونکہ مجھے پاکستانی نژاد آئرش ظفر شاہ اور ایک کامیاب کاروباری شخصیت کی لیگ میں کوئی چیمپیئن نظر نہیں آیا)۔ ان کے ہندوستان سے روابط ایم سی ایل کی افتتاحی تقریب میں ان کی تقریر کے اختتام میں اس وقت عیاں ہو گئے تھے جب انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام لفظ ’جے ہند‘ پر کیا تھا۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ بی سی سی آئی اور آئی پی ایل کبھی بھی پی ایس ایل کو عظیم الشان کامیابی حاصل کرتے اور ان سے مدمقابل آتے نہیں دیکھنا چاہیں گے۔ پی ایس ایل کی مارکیٹنگ، انتظامیہ، فرنچائزز کو شدید انتھک محنت کرنا ہو گی اور مجھے یقین ہے کہ انہوں نے لیگ کیلئے جو مشہور و معروف سفیر مقرر کیے ہیں وہ لیگ کو کامیاب بنانے کیلئے دن رات کام کریں گے۔

ماسٹرز چیمپیئنز لیگ نے اپنے جانتے پاکستان سپر لیگ کو نقصان پہنچانے کی ہرممکن کوشش کی۔ ایک بار پھر پی سی بی سوتی ہوئی پکڑی گئی۔ جب ظفر شاہ نے طاقت کا استعمال کیا تو پاکستان نے متحدہ عرب امارات کے متبادل کے طور پر قطر کا انتخاب کیا گیا۔ ایک مرتبہ نجم سیٹھی پی سی بی کے بچاؤ کیلئے میدان میں کودے اور کچھ وقت کے بعد دوبارہ امارات کا ہی انتخاب کیا گیا۔ کیسے؟ یہ تو بہت بنیادی سا سوال ہے یار ۔۔۔۔ ایم سی ایل نے اپنی تاریخوں میں تبدیلی کی اور اس میں دوبارہ سے ردوبدل کی، کیوں۔ میدانوں میں ایم سی ایل کیلئے شارجہ اور پی ایس ایل کیلئے ابو ظہبی کا نام شامل نہیں تھا، اب پی ایس ایل اور ایم سی ایل دونوں کے میچز دبئی اور شارجہ میں ہوں گے۔ آخر کیوں؟ صبر سے کام لیں، اصل کہانی جلد منظر عام پر آجائے گی۔ پی سی بی اور پی ایس ایل کو تیزی سے کام کرنا ہو گا۔ شاید یہ ایک ایسی چیز ہو جس کے ذریعے وہ ملک میں عالمی کرکٹ کو واپس لا سکیں۔

ایم سی ایل کے ابتدائی میچز میں زیادہ شائقین نے میدانوں کا رخ نہیں کیا، پی ایس ایل کو اس سے سبق سیکھتے ہوئے مارکیٹنگ کے شعبے میں سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر ہمیں خالی اسٹینڈز دیکھنے کو ملیں گے۔ پی ایس ایل کو تمام تر کوششیں بروئے کار لاتے ہوئے میدانوں کو بھرنے کی کوششیں کرنی چاہئیں۔ شائقین کو مفت ٹرانسپورٹ، چائے، کولڈ ڈرنک اور بسکٹ وغیرہ جیسی سہولیات فراہم کر کے اس کی شروعات کی جا سکتی ہیں۔ (میرا ماننا ہے کہ اگر ایک آئس کریم کمپنی کسی فرنچائز کو اسپانسر کر رہی ہوتی، سردیوں میں پاکستان میں آئس کریم کی فروخت بہت زیادہ نہیں ہوتی لہٰذا پی ایس ایل دیکھتے ہوئے کرکٹ شائقین کیلئے مفت آئس کریم ایک اچھی حکمت عملی ثابت ہو سکتی ہے)۔

آخر میں امید اور دعا کرتا ہوں کہ جیسا کہ میڈیا اور ماہرین پیش گوئی کر رہے ہیں، پاکستان کے سب سے اعلیٰ معیار کے اس مقابلے ساتھ کچھ غلط نہ ہو اور یہ کامیابیوں سے ہمکنار ہو۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

حافظ Feb 09, 2016 11:57pm
ان کے ہندوستان سے روابط ایم سی ایل کی افتتاحی تقریب میں ان کی تقریر کے اختتام میں اس وقت عیاں ہو گئے تھے جب انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام لفظ ’جے ہند‘ پر کیا تھا۔ آپ کے خیال میں انھیں پاکستان زندہ باد کہنا چاہیے تھا؟ اور میچز کی آمدنی سٹینڈ بھرنے سے نہیں ہوتی یہ ساٹھ ستر کی دھا ئی نہیں ہے چشتی صاحب۔