پاناما لیکس مسلم لیگ کیلئے پریشان کن نہیں

اپ ڈیٹ 19 اپريل 2017
پاناما پیپرز شریف خاندان یا دیگر لوگوں کے کسی غیر قانونی کام میں ملوث ہونے کو ثابت نہیں کرسکے.—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی
پاناما پیپرز شریف خاندان یا دیگر لوگوں کے کسی غیر قانونی کام میں ملوث ہونے کو ثابت نہیں کرسکے.—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

اسلام آباد: پاناما پیپیرز نے جہاں دنیا بھر کے امیر اور طاقتور افراد کی مالیاتی سرگرمیوں کو عیاں کیا ہے وہیں کہا جارہا ہے کہ ان انکشافات سے پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے لیے زیادہ مسائل پیدا نہیں ہوں گے.

بے شک، قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ ان انکشافات کے باجود بھی پاناما پیپرز شریف خاندان یا دیگر لوگوں کے کسی غیر قانونی کام میں ملوث ہونے کو ثابت نہیں کرسکے.

پاناما لیکس کے ذریعے جن افراد کی معلومات افشاء ہوئیں، ان میں کم از کم 200 پاکستانی بھی شامل ہیں، جن میں وزیراعظم نواز شریف کا خاندان، مرحومہ بینظیر بھٹو، رحمٰن ملک اور دیگر مشہور پاکستانی سیاستدان اور بزنس مین سرِ فہرست ہیں.

مزید پڑھیں:شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیشن جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی جانب سے شائع کی گئی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وزیراعظم کی صاحبزادی مریم صفدر اور صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

ڈیٹا میں مریم کو برٹش ورجن آئس لینڈ میں موجود آف شور کمپنیوں نیسکول لمیٹڈ (1993) اور نیلسن انٹرپرائزز لمیٹڈ (1994) کا مالک ظاہر کیا گیا ہے۔

آئی ایس آئی جے کی جاری دستاویزات میں نیلسن انٹرپرائزز کا پتہ جدہ میں سرور پیلس بتایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:’آف شور‘ اکاؤنٹس کیا ہیں؟

آف شور(بیرون ملک) بینک اکاؤنٹس کسی دوسرے ملک میں عام طور پر ٹیکسوں اور مالی جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کوئی بھی انفرادی شخص یا کمپنی اس مقصد کے لیے اکثر و بیشتر شیل (غیر فعال) کمپنیوں کا استعمال کرتی ہے جن کے ذریعے ملکیت اور فنڈز سے متعلق معلومات کو چھپایا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حسنین ابراہیم کاظمی کے مطابق آف شور کمپنیاں بنانا ایک معمول کی بات ہے اور مختلف بزنس مین آف شور کمپنیاں اسی لیے قائم کرتے ہیں تاکہ وہ دنیا کے کچھ مخصوص حصوں میں ٹیکس کی وصولی سے بچ سکیں۔

مثال کے طور پر خیبر پختونخواہ میں ہتر اور بلوچستان میں گوادر ٹیکس فری زون بنائے گئے ہیں جوغیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ کسی جگہ کو 'ٹیکس فری' کرنا بزنس بڑھانے کے لیے ہوتا ہے. برطانوی حکومت نے ورجن آئس لینڈ کو ٹیکس فری کہا ہے تاکہ یہاں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جاسکے.

عالمی قوانین کے ماہر، احمر بلال صوفی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آف شور کمپنی رجسٹر کرنا جرم نہیں ہے بلکہ یہ ایک قانونی طریقہ ہے، جبکہ مسئلہ وہاں آتا ہے کہ یہ کمپنیاں کیسے کام کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما پیپرز میں پاکستانیوں کے متعلق انکشافات

اُنہوں نے کہا کہ، 'اگر ان کے لین دین میں کہیں جرائم کی موجودگی کا سراغ ملتا ہے، تو وہاں قانون اپنی کاروائی آگے بڑھائے گا' اور اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں گی.

احمر بلال صوفی کے مطابق یہ انکشافات وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے لیے کچھ تشویش کا باعث ہوسکتے ہیں اور یہ بے یقینی کی صورتحال اُس وقت تک رہے گی جب تک تحقیقاتی ادارے شریف خاندان کی ملکیت ان آف شور کمپنیوں کو کلین چٹ نہیں دے دیتے.

فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ پاکستان کا تقریباً ہر بزنس مین ٹیکس سے فرار چاہتا ہے اور اسی لیے ایک ٹیکس فری زون میں آف شور کمپنی بنا کر ٹیکس سے راہِ فرار اختیار کرنے کا یہی قانونی طریقہ موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما لیکس میں مزید بڑے ناموں کا انکشاف

انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ آف شور کمپنی کے ذریعے کالے دھن کو سفید دھن میں بدلنا ایک جرم ہے۔

مذکورہ عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ سابق صدر آصف علی زرداری بھی اسی قسم کے الزامات پر نیب ریفرنس کا سامنا کرچکے ہیں.

ساتھ ہی انھوں نے تجویز دی کہ سب سے پہلے اس بات کی تصدیق کی جانی چاہیے کہ کیا یہ آف شور کمپنیاں غیر قانونی طور پر قائم کی گئیں اور کیا پاکستان سے بھی کوئی ٹرانسیکشن کی جاچکی ہے.

دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ان تمام الزمات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ شریف خاندان نے کوئی رقم کبھی باہر نہیں بھیجی ماسوائے اس وقت کہ جب وہ 1999 کی فوجی بغاوت کے بعد جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے.

یہ خبر 5 اپریل، 2016 کے ڈان اخبار سے لی گئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں