کبھی کام مانگنے نہیں گیا: اوم پوری

اپ ڈیٹ 07 جنوری 2017
فوٹو / پبلسٹی
فوٹو / پبلسٹی

بولی وڈ اداکار اوم پوری کی پاکستان سے محبت اور قربت ان کی اکثر و بیشتر باتوں سے جھلکتی ہے اور حال ہی میں انہوں نے کراچی میں نیشنل اسکول آف آرٹس کی تقریب میں بھی شرکت کی۔

معروف ہندوستانی اداکار اوم پوری رواں برس کراچی تشریف لائے تھے اور انہوں نے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے طلبا سے ورکشاپ میں گفتگو بھی کی، ہر چند کہ وہ اپنی ایک زیرتکمیل فلم کی عکس بندی کی غرض سے کراچی میں موجود تھے، حسن اتفاق ان دنوں یہاں تھیٹر فیسٹیول بھی جاری تھا، تو ان کو بھی ورکشاپ میں طلبا سے مخاطب کرنے کی دعوت خالد احمد صاحب نے دی، جس کو انہوں نے قبول فرمایا۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے کریئر کی ایک ابتدائی اور اہم ترین فلم ’’سٹی آف جوائے‘‘ کے بھی کچھ مناظر دکھائے، جس کو انہوں نے پھر اپنی گفتگو کا حصہ بھی بنایا۔ مجھے اس موقع پر بھی ان سے مخاطب ہونے کا موقع ملا۔

اوم پوری پانچ مرتبہ پاکستان آچکے ہیں اور پہلی بار ’’کارا فلم فیسٹیول‘‘ کے سلسلے میں کراچی تشریف لائے تھے، انہوں نے پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں پاکستان آئے بغیر بھی گزشتہ کئی برس سے بیرون ملک پاکستانیوں سے ملتا رہا ہوں۔ دیار غیر میں جب کسی پاکستانی ریستوران کی تعریف سنی، تو کھانا کھانے چلے گئے، دوران سفر ٹیکسی میں بیٹھ گئے، یا کوئی اور ہی ایسا موقع بنا، تو اگر وہ پاکستانی ہیں، تو مجھے مہمان کا درجہ ملتا اور مجھ سے پیسے نہیں لیے جاتے تھے۔‘‘

فوٹو / پبلسٹی
فوٹو / پبلسٹی

’’مجھے یاد ہے ایک مرتبہ پیرس میں ایک بہت معروف سیاحتی مقام ہے، وہاں ایک بچہ جو فنکار تھا، وہ سیاحوں کے اسکیچ بناتا تھا، اس نے مجھ سے فرمائش کی، وہ میرا اسکیچ بنانا چاہتا تھا، میں نے کہا، ٹھیک ہے، اس نے پانچ منٹ میں ایک بہت اچھا اسکیچ بنادیا۔ جب اس کو پیسے دینے کی بات کی، تو اس نے کہا کہ یہ اسکیچ میری طرف سے آپ کے لیے تحفہ ہے۔ اس لیے اب میں کراچی میں موجود ہوں، تو میں صرف ہوٹل تک محدود نہیں رہا، بلکہ گھوما پھرا بھی ہوں، مگر مجھے ایک بھی آنکھ ایسی دکھائی نہیں دی جس نے مجھے ٹیڑھی نظر سے دیکھا ہو، تو یہ آپ لوگوں کی محبت ہے، جس کو میں جانتا ہوں۔‘‘

اوم پوری صاحب نے اس خطبے میں طلباء کو اپنی جدوجہد اور کسی بھی اداکار کی فنی ریاضت کو بیان کرنے کی غرض سے اپنی انگریزی فلم ’’سٹی آف جوائے‘‘ کے چند منظر دکھائے اور پھر اسی تناظر میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ فلم 1999 میں بنی۔ کلکتے میں 3 مہینے تک مسلسل گلیوں، سڑکوں اوربازاروں میں اس فلم کی عکس بندی ہوئی۔ مقامی حکومت نے فلم کی عکس بندی کرنے سے اجازت دینے سے منع کردیا تھا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس فلم کے ذریعے کلکتے کی غربت نمایاں ہوگی اوراچھا تاثر نہیں ملے گا‘‘۔

’’فلم کے ہدایت کار نے بڑی مشکل سے وفاقی حکومت سے فلم کی عکس بندی کلکتے میں کرنے کی اجازت حاصل کی۔ میں نے اس فلم میں نبھائے جانے والے کردار میں جان ڈالنے کے لیے حقیقی طور پر رکشہ چلانا سیکھا۔ ان دنوں میں حلیہ بدل کر کلکتے میں کئی کئی گھنٹے سائیکل رکشہ چلاتا اور صرف ایک کپ چائے پینے کا وقفہ لیا کرتا تھا، اسی حلیے میں ایک بار سیتاجیت رائے کے گھر پہنچا اور چوکیدار سے کہا، ان کو اطلاع کرو، میں آیا ہوں، وہ مجھے جانتے ہیں، انہوں نے مجھے بلایا ہے۔ اس پر چوکیدار نے مجھے ڈانٹ پلا کر بھگا دیا، کیونکہ اس کو لگا کہ میں تو سائیکل رکشہ چلانے والا ہوں، وہ مجھے کیسے جانتے ہوں گے، شاید میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ وہ بھی مجھے پہچان نہ سکا۔"

اوم پوری صاحب نے اداکاری کے شعبے کی طرف آنے اور زمانہ طالب علمی کے بارے میں دلچسپ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’میں جب اسکول میں پڑھتا تھا، تو اس وقت سے میری دلچسپیاں مختلف شعبوں میں تھیں، خاص طور پر کھیلوں میں بہت سرگرم تھا، کبڈی کا کھلاڑی تھا، ہاکی کا کھیل مجھے بہت پسند تھا۔ اسی عرصے میں اسکول میں بننے والے دو مختصر ڈراموں میں بھی مجھے اداکاری کرنے کا موقع ملا، جس سے اداکاری کی طرف رجحان ہوا۔ ایک مرتبہ یوتھ فیسٹیول ہورہا تھا، اس میں جو ججز تھے، ان میں سے ایک جج کا تعلق نیشنل اسکول آف ڈراما سے تھا۔‘‘

’’میں نے اس فیسٹیول میں پہلا انعام حاصل کیا تھا، اس جج نے مجھے نیشنل اسکول آف ڈراما میں آنے کی پیشکش کی، مگر میں نے انکار کردیا، وجہ یہ تھی کہ میں اس وقت پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کہیں ملازمت کرتا تھا۔ انہوں نے میری مالی معاونت کی اور یوں میں تھیٹر کی طرف آیا۔ یہ وہ وقت ہے جب تھیٹر میں دور دور تک بالخصوص پنجاب میں پیسے دینے کا رواج نہیں تھا، میں ہریانہ میں تھا، یہاں بھی وہی فضا تھی، مگر پھر راستہ بنتا چلا گیا۔ میں نے ترجمہ کیے ہوئے اور ماخوذ کردہ ڈراموں میں کام کیا، پنجابی ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ تھیٹر سے وابستگی ہوئی۔ ڈراموں میں کام کر کے میرے جذبات کی اخراج ہوتا تھا۔ ان ڈراموں سے ملنے والی داد مجھ میں نشے کی طرح سرایت کر گئی تھی، اسی لیے مستقل طور پر تھیٹر کی طرف لوٹ آیا، مجھے سرکاری نوکری بھی ملی، میں نے اس کو بھی چھوڑ دیا اور آخرکار وہیں پہنچا، جہاں کا خمیر تھا۔

فوٹو / پبلسٹی
فوٹو / پبلسٹی

ہندوستان میں ’نیشنل اکیڈمی آف ڈراما‘ تھیٹر کا ایک معتبر تعلیمی ادارہ ہے، وہاں کی یادوں اور فلم صنعت کی مختلف شخصیات سے دوستی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’میں نے نیشنل اکیڈمی آف ڈراما میں باقاعدہ تربیت حاصل کی۔ نصیرالدین شاہ میرے ہم جماعت تھے۔ ہم نے تھیٹر کی تربیت ایک ساتھ حاصل کی، آج بھی ہم بہترین دوست ہیں۔ شبانہ اعظمی نے میری اورنصیر کی ایک پرانی تصویر کو دیکھتے ہوئے ایک عرصے کے بعد مجھ سے کہا ’’تم دونوں کی ہمت کیسے ہوئی بمبئی آنے کی؟‘‘(قہقہہ) میں کبھی کسی پروڈیوسر سے کام مانگنے نہیں گیا، میں نے تین سال نیشنل اسکول آف ڈراما اور دو سال فلم انسٹیٹیوٹ میں پڑھا تھا،اسی بھروسے پر امید لگائی کہ کام ملے گا اور پھر مل بھی گیا۔

"لوگوں کو ایک عرصے تک تو یہ بھی نہیں پتہ تھا وہاں بمبئی میں کہ یہ اسکول آف ڈراما کیا ہے،جب ہم جیسے کچھ لوگ وہاں سے پڑھ کر نکلے تو فلمی حلقوں کو خبرہوئی کہ یہ بھی کوئی ادارہ ہے جہاں سے اداکار اتنی محنت سے کام سیکھ کر آتے ہیں۔اب تو کوئی بھی فلم بنائی جا رہی ہوتی ہے تو اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ اس میں اسکول آف نیشنل ڈراما سے بھی کسی اداکار کا تعلق ہو۔ میں نے اداکاری پڑھائی تو میری پہلی کلاس میں انیل کپور، گلشن گروور جیسے طالب علم تھے، انیل کپور بہت سوال پوچھتا تھا، میں بھی اس کو جوابات دیتا رہتا تھا،اس کا مجھے اس وقت یہ فائدہ ہوتا تھا کہ مجھے چائے کے پیسے نہیں دینے پڑتے تھے۔"

بولی وڈ میں آرٹ سینما کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’اب وہاں کے سپر اسٹارز بھی آرٹ فلموں میں کام کرنا پسند کرتے ہیں، کیوں کہ ان کو اندازہ ہو گیا ہے کہ کمرشل سینما میں کام کرنے والوں کو سنجیدگی سے اداکار نہیں سمجھا جاتا تو اس لیے وہ اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے آرٹ سینما میں کام کرنے کے خواہش مند ہیں اور اب خوشی سے کرتے ہیں، آپ ایک نظر بولی وڈ کے اداکاروں کو دیکھیں، تو سب میں یہ پہلو نمایاں دکھائی دے گا۔ بومن ایرانی، ونود چوپڑا، عامر خان اور دیگر ہیں، اچھی فلمیں بناتے ہیں اور اس طرح کا کام بھی کرنا پسند کرتے ہیں، حالانکہ اب کمرشل سینما میں بھی اچھی فلمیں بن رہی ہیں، مگر جیسے اب مضافاتی علاقوں میں رہنے والے لوگ ہیں ان کے لیے کوئی فلم نہیں بنا رہا، ایسے بہت سارے موضوعات ہیں، جن پر کام نہیں ہو رہا، آرٹ سینما اس کمی کو پورا کرتا تھا۔

’’علم اور معلومات وہ ہیں، جو آپ کے اندر اتر سکے، آپ بابا فرید، بابا بلھے شاہ کو پڑھتے ہو، یا کسی اور بڑے آدمی کی زندگی کے بارے میں پڑھتے ہیں، اگر اس معلومات کو اپنے اندر اتارتے نہیں، تو کیا فائدہ، میں نے دو طرح کے لوگ دیکھے ہیں، ایک وہ جن کے ہاں سارا علم عقل کے خانے میں پڑا رہتا ہے، دوسرے وہ جو اس علم کو اپنے اندر اتار لیتے ہیں، جذب کر لیتے ہیں۔ یہ دوسرا رویہ ہی زندگی میں اختیار کرنا چاہیے ورنہ سب بیکار ہے۔‘‘

اوم پوری نے آرٹ سینما کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ مشورے دیے اور اپنے تجربات بھی حاضرین کو بتائے کہ ’’ہندوستان میں نیشنل فلم ڈوویلپمنٹ کارپوریشن کے پاس کم از کم دس فلمیں بنی پڑی ہیں، جو آرٹ سینما کے زمرے میں آتی ہیں، آج کے حالات کی منظر کشی کرتی ہیں۔ میں نے ان سے کہا، ان فلموں کو آزاد ڈسٹری بیوٹر نہیں لے گا، مگر آپ کے پاس ایک ذریعہ ہے، وہ دور درشن پر دکھائی جاسکتی ہے، یہ واحد چینل ہے، جس کی پہنچ پورے ہندوستان میں ہے، حتیٰ کہ مختلف گاؤں میں بھی، جب میں اس ادارے کا چیرمین تھا، تو میں نے ان سے گزارش کی تھی کہ ان فلموں پر پیسہ خرچ ہوا مگر فائدہ کوئی نہیں ہوا، اگر وہ کسی تک پہنچی نہیں، تو اس کو دکھانا چاہیے‘‘۔


یہ مضمون اس سے پہلے ڈان کی ویب سائٹ پر اپریل 2016 میں شائع ہوچکا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں