جعلی خبر پر 5 سال سزا ہوگی، کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا، فروغ نسیم

اپ ڈیٹ 20 فروری 2022
فروغ نسیم نے کہا کہ تننقید کا آئینی حق سب کو حاصل ہے، لیکن جھوٹی خبریں نہیں ہونی چاہیے— فوٹو: ڈان نیوز
فروغ نسیم نے کہا کہ تننقید کا آئینی حق سب کو حاصل ہے، لیکن جھوٹی خبریں نہیں ہونی چاہیے— فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ میڈیا تنقید کرنا چاہتا ہے تو بالکل کرے لیکن جعلی خبر نہیں ہونی چاہیے، پیکا آرڈیننس کے تحت جعلی خبر دینے والے کی ضمانت نہیں ہوگی اور کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔

فروغ نسیم نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جعلی خبروں کا قلع قمع کرنے کے لیے قانون بڑا ضرروی ہے، اس لیے اب فیک نیوز پھیلانے والوں کو 3 سال کی جگہ 5 سال سزا ہوگی، یہ جرم قابل ضمانت نہیں ہوگا اور اس میں بغیر وارنٹ گرفتاری ممکن ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پیکا قانون سب کے لیے ہوگا، معروف شخصیات سے متعلق جھوٹی خبروں کے خلاف شکایت کنندہ کوئی عام شہری بھی ہوسکتا ہے، حکومت پہلی بار جرنلسٹس پروٹیکشن بل لائی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صحافیوں کے تحفظ کا بل، نیب ترمیمی آرڈیننس سینیٹ سے بھی منظور، اپوزیشن کا احتجاج

ان کا کہنا تھا کہ اس آرڈیننس کے تحت 6 مہینے کے اندر اس کیس کا ٹرائل مکمل کرنا ہوگا، اگر 6 مہینے کے اندر ٹرائل مکمل نہ ہوا تو ہائی کورٹ متعلقہ جج سے تاخیر سے متعلق سوال کرے گی، اگر جج تسلی بخش جواب نہ دے سکا تو جج کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ممکن ہوگی۔

فروغ نسیم نے کہا کہ اس آرڈیننس کی مدد سے جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف ہتک عزت کا کیس کیا جاسکے گا اور کرمنل جرم کے تحت کارروائی بھی کی جاسکے گی جسے 6 مہینوں میں نمٹانا لازمی ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ 6 مہینے کی مدت اسی لیے رکھی ہے تاکہ عوام کا عدالتی نظام پر اعتماد رہے، غیر ضروری وجوہات کی بنیاد پر تاخیر کی گئی تو متعلقہ جج پر لازم ہوگا کہ چیف جسٹس کو خط لکھ کر وجوہات سے آگاہ کریں۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کی اہلیہ کے خلاف نازیبا گفتگو، مسلم لیگ (ن) کی گرفتار کارکن کی حمایت

وزیر قانون نے کہا کہ پیکا اور الیکشن ایکٹ آرڈیننس جاری ہو گیا ہے، پیکا والے قانون کی ڈرافٹنگ میں نے کی ہے جبکہ الیکشن کوڈ آف کنڈکٹ کا ایکٹ بابر اعوان نے بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرا آپ سب سے سوال ہے کہ کیا ہم نہیں چاہتے کہ فیک نیوز نہیں ہونی چاہیے؟ خبر معاشرے کی بنیادوں میں سے ایک ہوتی ہے اور اگر کسی معاشرے کی بنیاد جھوٹ پر رکھی جائے گی تو اس کا کیا بنے گا؟

ان کا کہنا تھا کہ اس قانون سے میڈیا کو کنٹرول کرنے کا ہرگز مقصد نہیں ہے، آپ تنقید کے لیے بالکل آزاد ہیں، لیکن اعتراض صرف یہ ہے کہ فیک نیوز نہیں ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیا اتھارٹی بل کی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھرپور مزاحمت کی جائے گی، سینیٹر عرفان صدیقی

وزیر قانون نے کہا کہ پیکا آرڈیننس میں سزا 3 سال سے 5 سال تک ہے، اس کا شکایت کنندہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ صحافی ہیں جو جعلی خبروں کے ذریعے معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔

’جھوٹی خبروں کے پیچھے بھارت ہے‘

فروغ نسیم نے کہا کہ ہمارے پڑوسی جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں، ڈس انفارمیشن لیب کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کے پیچھے بھارت تھا۔

انہوں نے کہا کہ حقیقی پاکستانی صحافی جھوٹی خبریں نہیں دیتا، یہ جھوٹی خبریں دینے والے محض وہ لوگ ہیں جن کا کوئی ذاتی ایجنڈا ہوتا ہے یا پھر ایسی خبروں کے ذریعے ہیجان پھیلانے کے پیچھے بھارت ہوتا ہے، اس سب کو روکنا انتہائی ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ آرڈیننس بڑا ضروری تھا، وزیراعظم نے مجھ سے، فواد چوہدری سے، اٹارنی جنرل سے اور شیخ رشید سے اس پر مشاورت کے جس کے بعد پیکا کی یہ ترامیم تیار کی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: میڈیا انڈسٹری کی نمائندہ تنظیموں نے پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو مسترد کردیا

ان کا کہنا تھا کہ پیمرا جیسا ادارہ اور پیکا کی طرح کے قوانین ہر مہذب معاشرے میں موجود ہیں، کوئی ایسی چیز نہیں کر رہے جو غیر قانونی ہے۔

وفاقی وزیر نے پیکا آرڈیننس کے تحت وزیراعظم کے خلاف بھی اپیل کا حق موجود ہونے کے سوال پر کہا کہ پیکا آرڈیننس کے تحت کسی کو بھی کارروائی سے استثنی حاصل نہیں ہوگا، یہ سب پر لاگو ہوگا، تنقید کا آئینی حق سب کو حاصل ہے لیکن جھوٹی خبریں نہیں ہونی چاہیے۔

آرڈیننس کے آرٹیکل 19 اور 19 'اے' آئین سے متصادم ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ آئین میں شامل کوئی ایک شق ایسی دکھا دیں جو یہ کہتا ہو کہ فیک نیوز پھیلانا آپ کا آئینی حق ہے، آئین کے مطابق ایسا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کی گئی، کسی مہذب معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا، اسی طرح خاتونِ اول اور عمران خان کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی گئیں کہ انہوں نے گھر چھوڑ دیا ہے، فرض کریں خدانخواستہ کسی صحافی کی طلاق سے متعلق ایسی من گھڑت خبریں چلا دی جائیں تو کیا ردعمل آئے گا؟

’ایچ آر سی پی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ جعلی خبر چلائیں اور سزا نہ ہو‘

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے اس قانون سے متعلق تحفظات پر وفاقی وزیر نے کہا کہ ایچ آر سی پی نے اگر درست طرح اس مجوزہ قانون کو پڑھا ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی رائے پر نظرثانی کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں مان ہی نہیں سکتا کہ ایچ آر سی پی یہ کہے کہ آپ فیک نیوز چلائیں اور اس پر سزا نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر نیب یا کوئی اور محکمہ کسی کے خلاف کوئی الزام لگاتا ہے اور وہ غلط ثابت ہوتا ہے تو بھی متاثرہ شخص عدالت میں جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بشریٰ بی بی کی کردارکشی میں ملوث لوگ اپنی گھناؤنی حرکتوں سے باز آجائیں، فرخ حبیب

فروغ نسیم نے کہا کہ آئین کے مطابق ایکٹ آف پارلیمنٹ بنانے کے 2 راستے ہیں، بل پیش کردیں یا آرڈیننس لے آئیں، آرڈیننس لانا اگر غلط تھا تو 18ویں ترمیم میں اسے حذف کیا جاتا، 73 کے آئین اور 56 کے آئین میں بھی یہ شامل تھا، اس لیے اسے غیر جمہوری نہیں کہا جا سکتا، غیر جمہوری وہ چیز ہوتی ہے جو قانون اور آئین میں نہ ہو، پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے دور میں بھی آرڈیننسز کی بھرمار تھی۔

کراچی میں امن و امان کی صورتحال سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اسٹریٹ کرائم میں کمی کے لیے بلدیاتی نظام کا فعال ہونا ضروری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں