الوداع آغا سلیم

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017
آغا سلیم کی سندھی ادب میں پہچان تو ایک ناول نگار کی ہی رہی ہے مگر وہ ایک ڈراما نویس، افسانہ نگار، صحافی اور ترجمہ نگار بھی تھے۔
آغا سلیم کی سندھی ادب میں پہچان تو ایک ناول نگار کی ہی رہی ہے مگر وہ ایک ڈراما نویس، افسانہ نگار، صحافی اور ترجمہ نگار بھی تھے۔

نائیجیریا کے شاعر اور ناول نگار بین اوکری نے کہا تھا کہ "کہانیاں خوف کو فتح کرتی ہیں اور حوصلہ بڑھاتی ہیں۔"

اسی طرح کسی بھی زبان کا ادب لوگوں کے دلوں میں چھپے ہوئے اس خوف پر فتح پا لیتا ہے جو صدیوں سے ان کے اندر کسی لاوے کی طرح ابل رہا ہوتا ہے، کیونکہ ادب کا اہم ترین مقصد معاشرے کے ان پہلوؤں کو سامنے لانا ہوتا ہے جو عام آدمی کی آنکھ سے پوشیدہ رہے ہوں۔

جب یہ تمام معاملات کسی ادبی صنف کے ذریعے لوگوں تک پہنچتے ہیں تو معاشرے میں بسنے والے لوگ سوچنا شروع کرتے ہیں، اور جب یہ لوگ سوچنا شروع کرتے ہیں، تو خوف کی فضا چھٹنے لگتی ہے اور امید و حوصلے کا سورج طلوع ہوتا ہے۔

سندھی زبان یوں تو نہایت قدیم ہے، مگر اس کے ادب کی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے۔ یہ لگ بھگ ایک صدی اور چند سالوں کا قصہ ہے۔

مگر سندھی ادب میں چند نام ایسے بھی ہیں جنہیں ہم کسی بھی طرح فراموش نہیں کر سکتے۔ ان کا سندھی ادب کی ترقی و ترویج میں اچھا خاصہ حصہ رہا ہے، جنہوں نے ادب کی آبیاری کے لیے نہ صرف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں، بلکہ ہمارے ملک میں آمریت کے جتنے بھی ادوار رہے ہیں، ان ادوار میں ان کی کتابوں پر بھی پابندیاں لگتی رہی ہیں۔

مگر سوچنے اور لکھنے کے عمل پر پہرے نہیں لگ سکتے۔ اسی طرح ادب کا یہ سلسلہ برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ اگرچہ آج بہت سی ادبی شخصیات ہم میں نہیں رہیں، لیکن انہوں نے اپنی تحریروں سے ایسے ان مٹ نشان چھوڑے ہیں جو صدیوں تک قائم رہیں گے۔

60 کی دہائی کے محمد ابراہیم جویو، شیخ ایاز، نجم عباسی، رسول بخش پلیجو اور امرجلیل ایسے نام ہیں جنہوں نے سندھی ادب کے لیے جی جان سے کام کیا، مگر انہی ناموں میں سے ایک نام ایسا بھی ہے جسے ہم آغا سلیم کے نام سے جانتے ہیں، جن کی زندگی کا چراغ منگل کے روز بادِ فنا بجھا گئی۔

آغا سلیم کی سندھی ادب میں پہچان تو ایک ناول نگار کی ہی رہی ہے مگر وہ ایک ڈراما نویس، افسانہ نگار، صحافی اور ترجمہ نگار بھی تھے۔

وہ ان تمام سندھی ادیبوں کے ہمعصر تھے جو سندھ میں ترقی پسند اور روشن خیال ادیب مانے جاتے ہیں۔ کسی زمانے میں سراج میمن نے سندھی زبان میں مزاحمتی ناول لکھنے کی روایت کی بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے اپنے کرداروں کو کسانوں اور مزدوروں کی صورت میں دکھایا ہے اور ارغونوں اور ترخانوں کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کو ناولوں میں بیان کیا ہے۔ سندھی میں پہلی بار طبع زاد ناول 1930 میں لکھے گئے، جس کے بعد ناول کا سلسلہ باقاعدہ سندھی ادب کا حصہ بن گیا، مگر آج بھی سندھی ادب میں معیاری ناول کا فقدان موجود ہے۔

سندھی ادب میں آغا سلیم کے لکھے ہوئے ناول "ہمہ اوست" اور "اونداہی دھرتی روشن ہتھ" (اندھیری دھرتی روشن ہاتھ) ایسے ناول ہیں جنہوں نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ ہمہ اوست ناول میں تصوف کے خیال کو پیش کیا گیا ہے جس کا مرکزی کردار سارنگ ہے۔ اس ناول کی کہانی نواب لطف علی خان کے کردار سے شروع ہو کر صوفی شاہ عنایت شہید پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔

وہ اپنی تحریر میں بے تحاشا تشبیہات اور استعاروں کا استعمال کرتے تھے۔ سندھ کے نامور دانشور اور وکیل رسول بخش پلیجو نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ آغا سلیم کی تشبیہات اتنی پراثر ہیں، اور وہ اس کمال کاریگری سے اتنے خوبصورت الفاظ کا استعمال کرتے ہیں کہ پڑھنے والا ان میں گم ہو جاتا ہے۔

تشبیہات اور استعاروں کے اس زبردست استعمال کی وجہ سے ان کی کہانیوں یا ناول میں جو منظر نگاری پڑھنے کو ملتی ہے، وہ سندھی ادب میں تقریباً ناپید ہے۔ وہ اپنے ناول ہمہ اوست میں لکھتے ہیں کہ:


"پچھلی تاریخوں کا ٹوٹا ہوا چاند آسمان پر لٹکا تھا، اور چاند کی پیلی اور نامکمل روشنی میں ساری کائنات پراسرار لگ رہی تھی۔ ہوا میں تھرتھراتے کشتی کے بادبان، اپنی مستی میں سرمست سندھو، لہروں سے ٹکراتے کشتیوں کے چپو، دوسرے کنارے پر کھڑے درخت، ماہی گیروں کی کشتیاں اور ٹمٹماتے دیے، سب نے مل کر منظر کو عجیب پراسراریت ہخشی تھی۔

"اب افق پر ہلکی ہلکی روشنی بکھرنے لگی تھی اور چاند کی روشنی ماند پڑنے لگی تھی۔ سامنے ٹھٹھہ کی بندرگاہ تھی۔ ٹھٹھہ! اس کے خوابوں کا شہر۔ شہر میں فانوس نے اس کی دل کی خواہش کی مانند رقص کیا۔ گھروں کے ہوا دان، مسجد کے گنبد اور مینار، مندر کے شکھر اسے خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے تھے۔"


ان کے لکھے ہوئے ناولوں کے بارے میں ان کے قارئین یہ اعتراض اکثر کرتے ہیں کہ وہ قرۃ العین حیدر سے متاثر تھے۔

ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ "میں چاہتا تھا کی سندھ کی تاریخ کے حوالے سے ایک ناول لکھوں"۔ جس کے بعد انہوں نے اونداہی دھرتی روشن ہتھ ناول لکھا، جس کا تصور انہوں نے قرۃ العین حیدر کے ناول "آگ کا دریا" سے لیا ہے۔ مگر ان کے جس ناول کو سب سے زیادہ ادبی حلقوں میں پذیرائی ملی وہ ہمہ اوست ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کی سندھ میں تاریخی حوالے سے ایسا ناول منظر عام پر نہیں آیا تھا جس میں ایک ہی وقت میں تاریخ کے ساتھ ساتھ رومان بھی شامل ہو۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ناول شاہ عبداللطیف بھٹائی کی زندگی پر لکھا گیا ہے۔

ان کی زندگی کے کئی پہلو ہیں۔ وہ صرف قلم کو کاغذ پر چلانے کے ہنر سے واقف نہیں تھے، بلکہ ایک براڈکاسٹر بھی تھے اور سندھی میں شائع ہونے والے اخبار روزنامہ 'سچ' کے مدیر بھی رہے۔ گوکہ انہوں نے ڈرامے بھی لکھے مگر ان کی حقیقی پہچان ایک ناول نگار اور افسانہ نگار کے طور پر ہی ہوئی۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو ترجمہ کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'شاہ لطیف میرا ورثہ ہے۔ میں نے اردو پڑھنے والوں کو یہ بتانا چاہا ہے کہ دیکھیں میرا شاہ سائیں کتنا بڑا شاعر ہے۔ اور یہ کہ میں نے شاہ سائیں کو دوبارہ دریافت کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے قبل انہیں کسی نے بھی اس طرح دریافت نہیں کیا ہے۔ شاہ صاحب کے پاس جو غم کا فلسفہ ہے وہ یہ ہے کہ غم آپ کو پاک کرتا ہے۔"

وہ شاہ لطیف کی شاعری کے ترجمے کو اپنی زندگی کا بہترین کام سجھتے تھے۔ شاہ جو رسالو اردو میں رساله شاهه عبداللطيف بھٹائي منظوم ترجمه جبکہ انگریزی میں Melodies of Shah Abdul Latif Vol. I, II, III کے عنوان سے چھپ چکے ہیں۔

ان کی دیگر تصانیف میں چاند کی تمنا، نامکمل انسان، لذتِ گناہ، درد کا شہر، اور بابا فرید کا ترجمہ 'صدیوں کی صدا' شامل ہیں۔

آغا سلیم سندھی ادب میں صرف ایک ادیب کا نام نہیں ہے بلکہ وہ سندھی ادب کے ان معماروں میں شمار ہوتے ہیں، جنہوں نے سندھی ادب کو سنوارا، سدھارا اور اپنے حصے کا کردار ہر حال میں ادا کرتے رہے۔

سندھی ادب کے حوالے سے جو کام بھی ان کے حصے میں آئے ہیں، انہوں نے وہ سب بخوبی نبھائے۔ ایک براڈکاسٹر سے لے کر ایک شاعر اور پھر ایک ناول نگار تک ان کا ادبی سفر 81 برس میں تمام ہوا۔ گو کہ آج وہ ہمارے بیچ نہیں، مگر ان کے لکھے ہوئے افسانے، ناول اور لاتعداد اشعار ہمیں یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ آغا سلیم سندھی ادب کے وہ ادیب تھے، جنہوں نے سندھ کو اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھا کہ اسے تحریر کیے بنا نہ رہ سکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (9) بند ہیں

گلشن لغاری Apr 13, 2016 02:43pm
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو ترجمہ کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'شاہ لطیف میرا ورثہ ہے۔ میں نے اردو پڑھنے والوں کو یہ بتانا چاہا ہے کہ دیکھیں میرا شاہ سائیں کتنا بڑا شاعر ہے۔ اور یہ کہ میں نے شاہ سائیں کو دوبارہ دریافت کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے قبل انہیں کسی نے بھی اس طرح دریافت نہیں کیا ہے۔ شاہ صاحب کے پاس جو غم کا فلسفہ ہے وہ یہ ہے کہ غم آپ کو پاک کرتا ہے۔"
عبدالعزیز کھوسو Apr 13, 2016 03:26pm
ماشاءاللہ. حفیظ صاحب بہت عمدہ تحریر لکھی ہے. آغا سلیم صاحب نے جو سندھی ادب کی خدمت کی ہے۔ وہ یقیناََ قابل ستائش ہے۔ اللہ مرحوم کو جزائے خیر سے نوازے آمین.اور اعلیٰ علیین میں جگہ دے آمین
غلام شبیر لغاری Apr 13, 2016 04:25pm
آغا سلیم سندھی ادب میں صرف ایک ادیب کا نام نہیں ہے بلکہ وہ سندھی ادب کے ان معماروں میں شمار ہوتے ہیں، جنہوں نے سندھی ادب کو سنوارا، سدھارا اور اپنے حصے کا کردار ہر حال میں ادا کرتے رہے۔ لکھاری اختر حفیظ نے خوبصورت الفاظوں میں آغا سلیم تحریر لکھی ھۓ، اختر حفیظ کا لکھنے کا انداز بہت پیارا ھۓ، تاریخی مقامات سے لیکر جس شخصیات پر لکھے گۓ اختر حفیظ کے آرٹیکل کا ایک حسن ہوتا ھۓ، آغا سلیم پر اچھی جامع تحریر۔
عثمان راھوکڑو Apr 13, 2016 07:39pm
اختر حفیظ نے سندھی ادب میں بڑے نثر نگار آغا سلیم کے حوالے سے اس کی زندگی اور تصنیفات پر اچھی تحریر لکھی ھۓ۔
Riaz Baloch Apr 13, 2016 10:30pm
آپ نے سندہی ادب کے مایہ ناز ناول نگار آغا سلیم کے بابت بہت اچھا لکھا ہے، لیکن سندہی ادب میں پہلا طبع زاد ناول 1950 سے بہت پہلے دلارام کے نام سے مرزا قلیچ بیگ نے لکھاجو 1880 اور 1890 کے درمیان شایع ہوا تہا۔ اںہون غلام فرید کے دوہوں کا ترجمہ فرید جا دوہا کے نام سے کیا تہا جبکہ اُنکی کتاب صدین جی صدا شیخ ایاز کے بابت لکھی گئی ہے۔
Sajjad Khalid Apr 14, 2016 12:49pm
ہم پنجابیوں کو سندھی ادب کے ایک نابغے کے چلے جانے کا دُکھ دینے والی یہ تحریر بجائے خود پُر تاثیر ہے۔ آغا سلیم کو میں عالمی ادب کا ایک محسن کہوں گا اس لئے کہ ہر مقامی بات آفاقی نہیں ہوتی لیکن ہر آفاقی بات مقامی ہوتی ہے۔
Nasrullah Jarwar Apr 14, 2016 07:55pm
اختر حفیظ سندھی اور اردو کا بہت بڑا لکھاری ہے اس نے جو آغا سلیم پے جو آرٹیکل لکھا ہے بہت اچھا آرٹیکل ہے آغا سلیم نے انداھی دھرتی اور روشن ھتھ ھم اوھست جیسے ناول لکھے اور شاہ لطیف کی شاعری کا ترجمہ اردو میں کیا اختر حفیظ کا یے آرٹیکل ہم سب کے درد کی آواز ہے وہ درد جو آغاسلیم کے بچھڑ جانے سے ہم سب کو ہے۔۔۔۔ نصراللہ جروار ٹنڈہ باگہ پاکستان
majid laghari Apr 15, 2016 12:57pm
انتهائي شاندار بلاگ لکيل آهي، جنهن کي هر هر پڙهڻ لاءِ چوندي رهي ٿي.
faqir mustafa hashmani Apr 18, 2016 05:20pm
سندھی ادب کے حوالے سے جو کام بھی ان کے حصے میں آئے ہیں، انہوں نے وہ سب بخوبی نبھائے۔ ایک براڈکاسٹر سے لے کر ایک شاعر اور پھر ایک ناول نگار تک ان کا ادبی سفر 81 برس میں تمام ہوا۔ گو کہ آج وہ ہمارے بیچ نہیں، مگر ان کے لکھے ہوئے افسانے، ناول اور لاتعداد اشعار ہمیں یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ آغا سلیم سندھی ادب کے وہ ادیب تھے، جنہوں نے سندھ کو اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھا کہ اسے تحریر کیے بنا نہ رہ سکے۔