پشاور: بینک آف خیبر نے خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ مظفر سید کے خلاف مختلف الزامات کا اشتہار شائع کروا دیا، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے بینک آف خیبر کے اس اقدام کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔

بینک آف خیبر کی جانب سے اردو اور انگریزی روزناموں میں اشتہار شائع کروائے گئے ہیں۔

ڈان نیوز کے مطابق مذکورہ اشتہار میں خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ مظفر سید پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں، جس پر جماعت اسلامی نے خیبرپختونخوا حکومت سے علیحدگی پرغور شروع کردیا۔

جماعت اسلامی کی صوبائی مجلس عاملہ نے ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے، جس میں بینک آف خیبر کی جانب سے لگائےگئے سنگین الزامات پر غور کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں اور انھیں سراج الحق کے پارٹی کے امیر مقرر کئے جانے کے بعد وزیر خزانہ مقرر کیا گیا تھا۔

جماعت اسلامی کا مؤقف

جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مشتاق احمد نے بینک آف خیبر کے منیجنگ ڈائریکٹر کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بینک کی نجکاری کی مذمت کی تھی، جس کی سزا مل رہی ہے۔

خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ مظفر سید — فائل فوٹو .
خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ مظفر سید — فائل فوٹو .

ان کا کہنا تھا کہ کوئی ڈرامہ نہیں چلے گا، بینک آف خیبر کے ایم ڈی نے اختیارات سے تجاوز کیا،جس پر ہم نے انہیں قانونی نوٹس دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے عدالت سے جلد رجوع کریں گے۔

امیر مشتاق کا کہنا تھا کہ اشتہارات تحریک انصاف اورجماعت اسلامی میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش ہے۔

صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید نے بینک آف کے خیبر کے الزامات کے جواب پر کہا کہ بینک کی بہتری کے لیے کام جاری ہے۔

ان کاکہنا تھا کہ اندورنی کرپشن کو چھپانے کے لیے ڈرامہ رچایا گیا، اشتہار کی مد میں سرکاری پیسہ خرچ کیا گیا ہے جس کی انکوائری کی جائے گی۔

وزیراعلیٰ کا اشتہار پر انکوئری کا حکم

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے بینک آف خیبر کی صوبائی وزیر خزانہ کے خلاف اشتہاری مہم کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔

وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری کردہ ایک بیان میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ بینک آف خیبر کا اشتہار اختیارات سے تجاوز ہے، اشتہار میں صوبائی وزیر خزانہ کی کردار کشی کی گئی جبکہ وزیر خزانہ مظفر سید ایک ایماندار شخص ہیں اور ان پر مکمل اعتماد ہے۔

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اشتہار کا اجراء غیر قانونی اور اختیارات سے تجاوز کے مترادف ہے۔

اے این پی کا استعفے کا مطالبہ

ادھر عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء اور سینیٹر زاہد خان نے سرکاری بینک کے انکشافات کو خیبر لیکس قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ اور وزیر خزانہ خیبرپختونخوا سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے۔

اے این پی کے رہنماء سینیٹر زاہد خان کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والے خیبر لیکس کا کیا کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کی مرضی کے بغیر کوئی وزیر بدعنوانی نہیں کرسکتا۔

بینک آف خیبر کے الزامات

بینک آف خیبر نے اپنے اشتہار میں کہا ہے کہ صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید بینک کے نگران نہیں ہیں اور اسی لیے وہ بینک کی نجکاری سے قبل بینک ملازمین کے لیے رضاکارانہ علیحدگی اسکیم وی ایس ایس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے۔

اشتہار میں مزید کہا گیا ہے کہ بینک کے پرانے ملازمین کی جگہ نئے 450 ملازمین بھرتی کیے جارہے ہیں جبکہ نئی بھرتیاں بورڈ آف ڈائریکٹرز کے منظورہ شدہ بجٹ کے مطابق ہوتی ہیں۔

بینک کا کہنا تھا کہ نئی بھرتیاں شفاف طریقے سے بینک قوانین کے تحت کی گئی ہیں، اس کے علاوہ بینک نے 2015 میں 180 آسامیوں پر بھرتیاں منظور کی تھیں تاہم 131 افراد کو بھرتی کیا گیا تھا اس طرح بینک پر 450 افراد کی بھرتی کا الزام درست نہیں ہے۔

بینک آف خیبر کی جانب سے دیئے گئے اشتہار کا عکس — ڈان نیوز: اسکرین شاٹ .
بینک آف خیبر کی جانب سے دیئے گئے اشتہار کا عکس — ڈان نیوز: اسکرین شاٹ .

بینک آف خیبر کے اشتہار میں صوبائی وزیر خزانہ مظفر سید پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ بینک میں سیاسی بھرتیوں اور رشتہ داروں کی تقرریوں سمیت اپنی مرضی سے بینک ملازمین کے تبادلے اور تقرری بھی چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ بینک حال میں اپنی شاخوں میں مزید اضافے کا خواہشمند ہے اور مذکورہ اشتہار میں صوبائی وزیر خزانہ پر یہ بھی الزام لگایا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کررہے تھے اور بیبنک کے میرٹ کے خلاف سیاسی بھرتیاں اور بینک کی برانچز کھولنا چاہتے تھے۔

بینک آف خیبر نے صوبائی وزیر خزانہ پر الزام لگایا کہ انھوں نے بینک کے خرچ پر جلسے اور تقریبات کا انعقاد کیا جبکہ بینک کے وسائل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

اس کے علاوہ بورڈ اور دیگر کارپوریٹ امور میں مداخلت، سیاسی وابستگیوں کی بدولت بھرتیاں کروانے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

بینک نے اشتہار کے ذریعے خیبرپختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو سراہا جبکہ صوبائی وزیر خزانہ کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کے فیصلے کا انکشاف بھی کیا ہے۔

بینک کے اشتہار میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ مذکورہ بینک کے 70 فیصد حصص حکومت کی ملکیت ہیں۔

خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ کے الزامات

یہ بھی یاد رہے کہ گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ نے ایک مقامی انگریزی اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے بینک آف خیبر پر الزام لگایا تھا کہ بینک نے وی ایس ایس اسکیم کیلئے صوبائی حکومت سے مشاورت نہیں کی جبکہ بینک کی میجنمنٹ ایسا کرنے کی پابند ہے۔

انھون ںے مزید کہا تھا کہ وہ مذکورہ اسکیم کی حمایت نہیں کرتے اور نہ ہی صوبائی حکومت ایسی کسی اسکیم کی حمایت کرے گی جس سے بینک کے ملازمین بے روز گار ہوجائیں۔

بینک آف خیبر آفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر حیدر علی کے الزامات

دوسری جانب بینک آف خیبر آفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر حیدر علی نے مذکورہ انگریزی اخبار کو بتایا کہ 'ہم نے اسکیم کو مسترد کردیا ہے'، انھوں نے بینک کی موجودہ پالیسی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ بینک نے حال ہی میں 450 ملازمین کو بھرتی کیا ہے۔

انھوں ںے الزام لگایا تھا کہ بینک کی نجکاری پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے پہلے سے طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے، 'ہم نے ماضی میں اس قسم کی اسکیموں پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا اور مستقبل میں بھی ایسا ہونے نہیں دیں گے'۔

انھوں ںے دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ اسکیم کے تحت بینک میں 1991 سے منسلک ملازمین کو نکالنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے پہلے ہی ایک کیس قومی احتساب بیورو (نیب) میں دائر کرچکے ہیں، جس کی تحقیقات بینک کے مینجنگ ڈائریکٹر اور بورڈ آف ڈائریکٹریٹ کے خلاف جاری ہیں، اس کے علاوہ چیف سیکریٹری اور فنانس کے سیکریٹری کے خلاف بھی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بینک کے ملازمین کو انتظامیہ کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ایسوسی ایشن کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں