بنگلہ دیش: جماعت اسلامی کے رہنما کی سزا برقرار

05 مئ 2016
جماعت اسلامی کے رہنما مطیع الرحمٰن نظامی کی سزائے موت برقرار رکھنے کا حکم — فائل فوٹو/ اے ایف پی
جماعت اسلامی کے رہنما مطیع الرحمٰن نظامی کی سزائے موت برقرار رکھنے کا حکم — فائل فوٹو/ اے ایف پی

ڈھاکا: بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت، جماعت اسلامی کے رہنما کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے، جس پر آئندہ چند روز میں عمل درآمد کروائے جانے کا امکان ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مطیع الرحمٰن نظامی کو 1971 کی جنگ آزادی کے موقع پر قتل، ریپ اور ملک کے دانشوروں کے قتل کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

ان کا مقدمہ متنازع ٹرائل کورٹ میں چلایا گیا تھا، مذکورہ ٹرائل کورٹ بنگلہ دیش کی موجود حکمران جماعت حسینہ واجد کی انتظامیہ نے تشکیل دیں تھی۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: جماعت اسلامی اور بی این پی رہنماؤں کو پھانسی

ان ٹرائل کورٹس کے حوالے سے جماعت اسلامی اور اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی (بی این پی) کا کہنا تھا کہ یہ اقدام ان کے قیادت کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔

اٹارنی جنرل محبوب الرحمٰن عالم کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی کاپی موصول ہونے پر جیل انتظامیہ مطیع الرحمٰن نظامی کی سزائے موت کی تیاریوں کا آغاز کردے گی۔

انھوں ںے سپریم کورٹ کی جانب سے 73 سالہ مطیع الرحمٰن نظامی کی اپیل کو مسترد کیے جانے پر بتایا کہ 'ہم اس فیصلے سے مطمئن ہیں، اب ان کی سزائے موت پر عمل درآمد کروانے میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ صدر سے معافی مانگ لیں اور صدر ان کو معاف کردیں'۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش: جماعت اسلامی کے رہنما کو پھانسی

جماعت اسلامی کا سپریم کورٹ کے مذکورہ بیان پر کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کے سابق وزیر پر لگائے جانے والے الزامات درست نہیں ہیں اور ان کو پھانسی دینے کا مقصد جماعت اسلامی کی قیادت کو ختم کرنا ہے۔

واضح رہے کہ دسمبر 2013 سے جاری متنازع ٹرائل کے بعد سے اب تک جماعت اسلامی کے تین اور بی این پی کے ایک رہنما کو پھانسی دی جاچکی ہے۔

حسینہ واجد کی حکومت کا کہنا ہے کہ 1971 میں تحریک آزادی کی جنگ میں پاکستانی فورسز اور جماعت رہنماؤں کی زیر قیادت ان کے حامیوں کے ہاتھوں 30 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے لیکن آزاد ذرائع کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد تین سے پانچ لاکھ تھی۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: ملا کی پھانسی کے بعد پرتشدد مظاہروں میں چار ہلاک

جنوری 2010 میں پانچ سابق فوجی افسران کو ملک کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمان اور حسینہ کے والد کے قتل کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی۔

خیال رہے کہ جماعت اسلامی کے رہنما کی اپیل مسترد ہونے کے بعد دارالحکومت ڈھاکا میں سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی ہے، جو پہلے ہی مبینہ دہشت گردوں کے ہاتھوں سیکولر، لبرل اور اقلیتی افراد کے قتل کے باعث انتہائی سخت تھی۔

گذشتہ دو ہفتوں میں مبینہ دہشت گردوں نے بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے دو رضا کاروں، ایک لبرل پروفیسر اور ایک ہندو درزی کو گستاخانہ جملے کہنے پر قتل کردیا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Muhammad Bashir Chaudhry May 06, 2016 03:35pm
وہ جن کا جرم پاکستان سے محبت تھا ۔۔۔۔ اور افسوس اس قوم کو اور نئی نسل کو اپنے ان مُحسنوں کے بارے میں علم تک نہیں ۔۔۔۔
Muhammad Bashir Chaudhry May 06, 2016 03:40pm
میں انقلاب پسندوں کے اک قبیل سے ہوں جو حق پہ ڈٹ گیا اس لشکر قلیل سے ہوں میں یوں ہی دست و گریباں نہیں زمانے سے میں جس جگہ پہ کھڑا ہوں کسی دلیل سے ہوں