اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آر بنانے کے لیے مشترکہ کمیٹی بنانے کی تجویز دے دی۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا دامن صاف ہے، ہمیں کسی استثنیٰ کی ضرورت نہیں، ہم ہر طرح کے احتسابی عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہیں۔

وزیراعظم قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز۔
وزیراعظم قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'اپوزیشن کے ٹی او آرز صرف میرے ارد گرد گھومتے ہیں۔ ہمارا دامن صاف ہے ہمیں کسی استثنیٰ کی ضرورت نہیں، ہم ہر طرح کے احتسابی عمل سے گزرنے کے لیے تیار ہیں۔'

وزیراعظم نے کہا کہ پاناما لیکس کے بعد انہوں نے قوم سے خطاب میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن کا اعلان کیا تاہم بعد میں ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ یہ کمیشن نہ بن سکا۔

وزیراعظم نے کہا 'مجھے یقین تھا کہ مطالبات تسلیم کرنے کے بعد اپوزیشن تیار ہوجائے گی لیکن پھر ٹی او آرز کو متنازع بنادیا گیا۔'



محلات میں رہنے اور ہوائی جہازوں میں سفرکرنے والے بھی اپنے ذرائع آمدن قوم کوبتائیں۔

وزیراعظم نواز شریف

انھوں نے کہا کہ اربوں روپے کے قرضے معاف کرانےوالوں کی اصل کہانی بھی عوام کے سامنے آنی چاہیے.

'محلات میں رہنے اور ہوائی جہازوں میں سفرکرنے والے بھی اپنے ذرائع آمدن قوم کوبتائیں'

نواز شریف نے ایوان سے خطاب میں واضح کیا کہ لندن کے فلیٹوں کےلئے پاکستان سے ایک روپیہ بھی نہیں بھیجا۔

ایوان سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اپنے ٹیکس گوشوارے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خاندان کے کاروباری اداروں نے 3 سال میں تقریباً10ارب روپے ٹیکس دیا۔

اپوزیشن اراکین ایوان سے واک آؤٹ کررہے ہیں—ڈان نیوز۔
اپوزیشن اراکین ایوان سے واک آؤٹ کررہے ہیں—ڈان نیوز۔

وزیراعظم کی گفتگو کے بعد سات سوالات کے جواب نہ ملنے پر متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کردیا۔

قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی وضاحت نے سات سے 70 سوالات اور بڑھادیے ہیں۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن وزیراعظم کے خطاب سے مطمئن نہیں جبکہ اس حوالے سے مزید وقت ضائع نہیں کیا جاسکتا۔

وزیراعظم کے اظہار خیال سے قبل اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ اگر وزیراعظم نواز شریف اسمبلی کے اجلاس میں آئے تو وہ بھی اس میں شرکت کریں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم وزیراعظم کا خطاب پُرامن طریقے سے سننے گے اور اگر وہ سیشن میں شریک ہوئے تو احتجاج بھی نہیں کیا جائے گا'۔

خورشید شاہ نے کہا تھا کہ ہم نے انتہائی آسان اور ایمانداری سے سوالات کیے ہیں، اور اُمید ہے کہ وزیراعظم ہمارے تحفظات دور کریں گے۔

انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں آکر 1995 کے بعد سے اپنے اور اپنے خاندان کے اثاثوں کی تفصیلات بتائیں۔

خیال رہے کہ وزیراعظم نے گذشتہ جمعے کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرنا تھا تاہم ان کے بیرون ملک دورے کے باعث اسے ملتوی کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کاخطاب: اپوزیشن کی 'تعاون' کی یقین دہانی

وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی کے اراکین کو بتایا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے جمعے کے روز ایوان زیریں (قومی اسمبلی) کے اجلاس میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ اس موقع پر پاناما لیکس پر اپوزیشن جماعتوں کے سوالوں کے جوابات دیں گے۔

وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ 'نواز شریف جمعے کے دن قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے اور پاناما لیکش پر اپوزیشن کے سوالوں کا جواب بھی دیں گے'۔

یاد رہے کہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے اپوزیشن کے تیار کردہ ضابطہ کار (ٹی او آرز) کو مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن کو اس حوالے سے جوابی خط لکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پانامہ لیکس کی شفاف تحقیقات کے لیے تیار ہیں اور اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کی مثبت تجاویز کا خیرمقدم کیا جائے گا جبکہ حکومت پانامہ لیکس کی شفاف تحقیقات کو مکمل کرنا چاہتی ہے۔

دو ہفتے قبل پانامہ لیکس کے معاملے پر قائم ہونے والے کمیشن کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) مقرر کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے وزیراعظم نواز شریف کو باضابطہ طور پر خط لکھ تھا۔



وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ ان کو موقع فراہم کیا ہے!

اپوزیشن ٹی او آرز پیش کرتے ہوئے خورشید شاہ کا رد عمل

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس تحقیقات: 'اپوزیشن کے ٹی او آرز مسترد'

اپوزیشن کے ٹی او آرز

حزب اختلاف کی 9 جماعتوں کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے لیے 15 ٹی او آرز متفقہ طور پر منظور کیے گئے تھے۔

اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے وزیر اعظم سے استعفے کے مطالبے پر اتفاق کیا تھا تاہم قومی وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے اختلاف کے باعث وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ ٹی او آرز میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔

اپوزیشن کے ٹی او آرز میں کمیشن کی جانب سب سے پہلے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے احتساب کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ اس کے لیے 3 ماہ کی مدت مقرر کرنے کا بھی مطالبہ شامل تھا۔

پاناما لیکس میں سامنے آنے والے دیگر افراد کے حوالے سے یہ شق شامل کی گئی تھی کہ وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے احتساب کے بعد دیگر لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے جبکہ اس کی تحقیقات ایک سال میں مکمل کر لینی چاہیے۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو غلط ثابت کرنا ہوگا۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ خود کو تحقیقات کیلئے کمیشن کے سامنے پیش کریں۔

• نواز شریف 1985 سے 2016 تک جائیداد کی تفصیلات فراہم کریں۔

• وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے ذرائع آمدن کیا تھے، کن بینک اکاؤنٹس میں رقم رکھی گئی؟

• کیا اس آمدن پر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا جانا تھا؟

• بیرون ملک خریدی گئی جائیدادوں کیلئے رقم کن بینک اکاؤنٹس، کس تاریخ پر ادا کی گئی؟

• کمیشن کو آف شور اکاؤنٹس میں بھیجی گئی رقم کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔

• کیا وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ دسمبر 2000 کے بعد اسٹیٹ گیسٹ تھے؟

• خصوصی کمیشن عالمی فرانزک آڈٹ کیلئے ماہرین کی کمیٹی بھی مقرر کرسکے گا۔

• ماہرین کی کمیٹی آف شور کمپنیوں کیلئے رقم کی مکمل چھان بین کرے گی۔

• نیب اور ایف آئی اے سمیت تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔

حکومتی ٹی او آرز

اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے گئے ٹی او آرز حکومت پہلے ہی مسترد کرچکی ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اپوزیشن کے ٹی او آرز کو تماشا قرار دیا تھا۔

خیال رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے 22 اپریل کو قوم سے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ ان کے اہل خانہ پر پاناما پیپرز میں لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کیلئے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا گیا ہے۔

مذکورہ اعلان کے فوری بعد حکومت نے سیچوٹری ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) جاری کیا تھا جس میں پاکستان کمیشن آف انکوئری ایکٹ 1965 کے سیکشن 3 ون کے تحت کمیشن کیلئے 3 افراد کا نام دیا تھا۔

تاہم اپوزیشن نے حکومتی ٹی او آرز کو مسترد کردیا تھا۔

حکومت کی جانب سے کمیشن کے لیے مندرجہ ذیل ٹرمز آف ریفرنس مقررکیے گئے تھے۔

• کمیشن پاکستانی شہریوں، پاکستانی نژاد غیر ملکیوں اور اداروں سے پاناما یا کسی اور ملک میں آف شور کمپنیوں سے متعلق تحقیقات کرسکے گا۔

• کمیشن کو موجودہ یا پھر سابقہ عوامی عہدوں کے حامل افراد سے بھی تحقیقات کا اختیار ہوگا جنہوں نے سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے یا اہل خانہ کے قرضے معاف کرائے یا پھر کرپشن، کمیشن یا کک بیکس کے ذریعے کمائی گئی رقم ملک سے باہر بھجوائی۔

• انکوائری کمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ کیا پاناما لیکس کے الزامات کے مطابق کسی پاکستانی قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔

• انکوائری کمیشن کو ٹیکس ماہرین اور اکاونٹنٹ سمیت کسی بھی شخص کو طلب کرنے کا اختیار ہوگا۔ کمیشن کسی بھی قسم کی دستاویز طلب کرسکے گا۔

• انکوائری کمیشن کے سربراہ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ مجاز افسر کو کسی بھی عمارت یا مقام میں داخلے اور مطلوبہ ریکارڈ کے حصول کے احکامات دے سکے گا۔

• انکوائری کمیشن کی تمام کارروائی عدالتی کارروائی تصور ہوگی۔ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔

• تحقیقات کب اور کہاں ہوں گی اس کا فیصلہ انکوائری کمیشن خود کرے گا۔

• کابینہ ڈویژن انکوائری کمیشن کو دفتری خدمات فراہم کرے گا۔

پاناما لیکس

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ پاناما لیکس میں نواز شریف کے بچوں کے نام پر آف شور کمپنیاں ہونے کے معاملے کا انکشاف ہوا تھا، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کئی بڑی جماعتوں نے وزیراعظم سے استعفے اور ان کمپنیوں میں منتقل ہونے والی رقم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔

آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟


• کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

• کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔

تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔

ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں،اس ڈیٹا میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور ہولڈنگز کا ذکر بھی موجود ہے۔

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، وزیراعظم کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

مزید پڑھیں: 64فیصد پاکستانیوں نےکرپشن کی نشاندہی کردی

اس سلسلے میں وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا البتہ اس کمیشن کے ضابطہ کار پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔

ضروری نہیں افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں کیونکہ برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی اس معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا ہے۔

دستاویزات کے مطابق، وزیر اعظم نوازشریف کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کے علاوہ بے نظیر بھٹو، ان کےرشتہ دار حسن علی جعفری اور سابق وزیرداخلہ رحمان ملک پیٹرو فائن ایف زی سی کے مالکان تھے۔

خیال رہے کہ یو این کمیٹی نے 2005 میں انکشاف کیا تھا کہ یہ کمپنی عراق میں ’تیل کے بدلے خوراک‘ سکینڈل میں ملوث تھی۔

اسی طرح، پی پی پی رہنما آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی جاوید پاشا کا نام بھی کم از کم پانچ آف شورکمپنیوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'دہشت گردوں اور دھرنے والوں کا ایجنڈا ایک ہے'

میڈیا مینیجر پاشازی ٹی وی سمیت دوسرے انڈین چینلز سے کاروباری معاہدے کرتے رہے ہیں۔

دستاویزات کے مطابق، لکی مروت کا سیف اللہ خاندان ریکارڈ 34 ایسی کمپنیوں کے مالکان ہیں۔ ان میں سے عثمان سیف اللہ پی پی پی کی ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن ہیں۔

سابق جج ملک قیوم کا، جن کے بھائی پرویز ملک لاہور سے پی ایم ایل-ن کے رکن قومی اسمبلی ہیں، نام دستاویزات میں شامل ہے۔

لیکس میں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے کم ازکم دو قریبی ساتھی الیاس میراج (پہلی بیوی نصرت کے بھائی) اور ثمینہ درانی (دوسری بیوی تہمینہ درانی کی والدہ) کے نام بھی موجود ہیں۔

لیکس میں بتایا گیا کہ ثمینہ درانی کم از کم تین آف شور کمپنیوں Rainbow Ltd, Armani River Ltd and Star Precision Ltd جبکہ میراج Haylandale Ltd میں بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔

تاہم ،میڈیا رپورٹس کے مطابق،لیکس میں شامل تقریباً 200 پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری شخصیات ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں