انقرہ: ترکی میں فوجی بغاوت کے مبینہ مرکزی کردار ترک ایئر فورس کے سابق سربراہ جنرل آکین اوزترک کے حوالے سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ 90 کی دہائی میں اسرائیل میں ترکی کی جانب سے ملٹری اتاشی کی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔

اسرائیلی میڈیا ہریٹز کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں ترکی میں صدر طیب اردگان کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کے الزام میں گرفتار 6 ترک جنرلز میں سے ایک جنرل آکین اوزترک کے 1990 میں اسرائیل کے ساتھ اچھے روابط تھے۔

رپورٹ میں ترک حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1998 سے 2000 کے درمیان اسرائیل میں تل ابیب میں ترک سفارت خانے میں ملٹری اتاشی کی خدمات انجام دینے والے 64 سالہ جنرل آکین اوزترک گذشتہ سال مستعفی ہوئے تاہم وہ ترکی کی سپریم ملٹری کونسل میں اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: امریکا گولن کو ہمارے حوالے کرے، ترک صدر

رپورٹ میں ترک پروسیکیوٹرز کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ جنرل آکین اور ان کے ساتھیوں کے خلاف غداری کے مقدمات چلائے جائیں گے، لیکن اس حوالے سے ترک وزیراعظم بن علی یلدرم اپنے عوامی خطاب کے دوران کہہ چکے ہیں کہ بغاوت میں ملوث افراد کو سزائے موت نہیں دی جائے گی، جیسا کہ ترکی کے آئین میں اسے کالعدم قرار دیا گیا ہے، تاہم انھوں نے یہ اعلان کیا کہ مستقبل میں ایسی بغاوت کے امکانات کو ختم کرنے کیلئے آئین میں ترامیم کی جائیں گی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بغاوت میں ملوث ترک فوجی افسران اور اہلکاروں کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ رواں سال اگست میں سپریم فوجی کونسل کے ہونے والے اجلاس میں ان کے مستقبل کا فیصلہ سنایا جائے گا اور انھیں ممکنہ طور پر عہدوں سے ہٹایا جاسکتا ہے، جس کے باعث انھوں نے بغاوت کا منصوبہ بنایا۔

ترک حکام کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے مطابق انھیں ملک کے دارالحکومت انقرہ کے تمام اہم سرکاری دفاتر پر قبضہ کرنا تھا جس میں گورنر ہاوس، پارلیمنٹ ہاوس اور انٹیلی جنس ایجنسز کے دفاتر شامل تھے، اس کے علاوہ دارالحکومت میں اہم سٹرکوں، پلوں اور مقامات پر قبضہ کرنا بھی ان کے منصوبے کا حصہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی میں فوجی بغاوت کے خلاف ہوں، فتح اللہ گولن

ادھر ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سال 2013 سے 2015 تک ترک فضائیہ کی سربراہی کرنے والے جنرل آکین اوزترک 1996 سے 1998 تک اسرائیل میں ملٹری اتاشی رہے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز ترکی میں فوج کے باغی گروپ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش اُس وقت ناکام بنادی گئی تھی جب صدر رجب طیب اردگان کی کال پر عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

عوامی طاقت کے سامنے بے بس فوجیوں نے مختلف مقامات پر ہتھیار ڈالے تھے جنہیں بعد ازاں پولیس نے گرفتار کرلیا تھا۔

ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اناتولو کے مطابق بغاوت میں ملوث 2839فوجیوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ ملک بھر میں ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 265ہوگئی ہے جبکہ 1154 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: ترکی بغاوت: 'بھائی کو بھائی کا خون نہیں بہانا چاہیے'

قبل ازیں ترکی کے قائم مقام چیف آف اسٹاف امیت دندار نے بتایا تھا کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 194 ہے جن میں 41 پولیس اہلکار، 47 عام شہری، 2 فوجی افسر اور فوجی بغاوت کرنے والے 104 افراد شامل ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ فوجی بغاوت میں ایئرفورس، ملٹری پولیس اور آرمر یونٹس کے زیادہ تر اہلکار شامل تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ترکی میں فوجی بغاوت کا باب ہمیشہ کیلئے بند کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ بغاوت کی کوشش میں 2 ہزار 745 ججز اور 2 ہزار 839 فوجیوں کو ملوث قرار دیا گیا ہے اور ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کردیے گئے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں