لاہور: آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ دھاگہ بنانے کی صنعت کو مدد فراہم کرنے کے لیے کپاس کی درآمدات پر عائد 5 فیصد سیلز ٹیکس اور 4 فیصد کے کسٹمز ٹیکس کو فوری طور پر ختم کریں۔

دوسری جانب پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (پرگمیا) نے دنیا کے دیگر ممالک سے سوتی دھاگے کی درآمدات پر عائد 10 فیصد ریگولیڑی ٹیکس، کسٹمز ٹیکس اور دیگر ٹیکسز کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اپٹما کے چیئرمین طارق سعود نے ایک جاری بیان میں کہا کہ حکومت نے ریگولیٹری ٹیکس اس لیے عائد کی تھی کیونکہ ہندوستانی ملز سوتی دھاگے کو پاکستان میں منتقل کررہی تھیں، اور پاکستانی صنعت کے تحفظ کیلئے یہ واحد راستہ تھا۔

انھوں نے کہا کہ مذکورہ پالیسی انتہائی کامیاب رہی اور گارمنٹس کی برآمدات میں 5 فیصد کا اضافہ ہوا، لیکن دوسری جانب ہندوستان نے پاکستانی سوتی دھاگے کی درآمدات پر 26 فیصد درآمدی ٹیکس لگادیا، 'جب تک ہمیں دیگر مارکیٹس تک رسائی حاصل نہ ہوجائے اس وقت تک دھاگے کی برآمدات پر ریگولیڑی ٹیکس کو نافذ کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں'۔

انھوں نے مزید کہا کہ گذشتہ مالی سال 16-2015 کے پہلے 11 ماہ میں سوتی دھاگے کی برآمدات میں 32 فیصد کمی آئی ہے جس کی وجہ کپاس کی کمی ہے جو 35 فیصد کمی کا شکار ہے، جبکہ 4 فیصد کی درآمدی محصولات اور درآمدات پر 5 فیصد سلیز ٹیکس بھی اس کی اہم وجہ ہیں۔

دوسری جانب پرگمیا کے چیف کوآرڈینیٹر اعجاز کھوکھر نے کہا کہ ملبوسات بنانے کی صنعت کو ایسے موقع پر سوتی دھاگے کی کمی کا سامنا ہے، جب بین الاقوامی خریدار کرسمس کے لیے آرڈر دینے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ مقامی گارمنٹس کی صنعت اس موقع پر بین الاقوامی مارکیٹ کے آرڈر مکمل نہیں کرسکتی جس کی وجہ قیمتوں میں اضافہ ہے اور خاص طور پر سوتی دھاگے کی مصنوعی کمی جو دھاگا بنانے والی صنعتوں کی جانب سے ممکنہ طور پر قیمتوں میں اضافے کے باعث پیدا کی گئی ہے۔

انھوں نے موجودہ حالات میں ملک میں جاری گارمنٹس کی تجارت دیگر ممالک میں منتقل ہونے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی صنعت پر 11 فیصد ٹیکس عائد ہے جبکہ انھیں موجودہ حالات میں بین الاقوامی مارکیٹ میں رہنے کے لیے 15 فیصد خصوصی رعایت کی ضرورت ہے۔

انھوں نے وزیراعظم نواز شریف نے مطالبہ کیا کہ وہ متعلقہ وزارت کو ہدایات جاری کریں کہ اس اہم صنعت پر خاص توجہ دیں اور مذکورہ صنعت کو بچانے کے لیے ٹھوس حکمت عملی ترتیب دی جائے۔

یہ رپورٹ 22 جولائی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں