لگائیں فتویٰ؟
یہ کہانی نویں صدی عیسوی کی ہے جب دنیا پر دو بڑی سلطنتوں کا طوطی بولتا تھا۔ عباسیوں کے زیر سایہ عرب ریاست مشرق وسطیٰ اور افریقا تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس ریاست کا پایہ تخت بغداد تھا جو اس زمانے میں معاشی، معاشرتی اور سماجی ترقی کا نمائندہ شہر تصور کیا جاتا تھا۔
عباسیوں کی عرب ریاست کے مدمقابل اگر کسی حکومت کو قرار دیا جا سکتا تھا تو وہ تھی امویوں کے زیرِ سایہ یورپ میں واقع اندلس کی ریاست۔ اس حکومت کا پایہ تخت قرطبہ شہر تھا اور یہ شہر بھی اپنی شہری ترقی میں اپنی مثال آپ تھا۔
یہاں باغات، حمام، بازار، محل، کتب خانے اور دیگر شہری سہولیات بغداد کے پائے کی تھیں۔ قرطبہ کے علاوہ بھی غرناطہ، ٹولیڈو اور بلد الزہراء جیسے شہر اس زمانے کی سماجیات کے مطابق تہذیب یافتہ اور دانشگاہی علوم کے مراکز تھے۔
ہماری کہانی کے مرکزی کردار ابو الحسن علی بن النافع زریاب کا تعلق بھی اسی عہد سے ہے اور وہ بغداد میں پیدا ہوا ہے۔ اس کی تربیت اور پرورش بغداد کے مشہور استاد ابو اسحاق الموصلی کے ہاتھوں ہوئی ہے جسے خلیفہ مامون کے دربار میں وزیر ثقافت کا عہدہ ملا ہوا ہے۔
ابو اسحاق موسیقی کا نامور استاد ہے۔ دنیا بھر میں اس کے چاہنے والے موجود ہیں۔ خود خلیفہ اس کی موسیقی کے از حد دلدادہ ہیں۔
زریاب اپنے استاد کا سب سے لائق اور ہونہار شاگرد ہے۔ استاد کو فخر ہے کہ اسے زریاب جیسا نابغہ میسر ہے جو اب اس کا نام تا روزِ قیامت زندہ رکھے گا۔
عرب و افریقی والدین کی اولاد کردوں کے درمیان پل کر جوان ہونے والے زریاب نے موسیقی میں استاد کی سطح کا مقام حاصل کر لیا ہے اور اب بغداد میں جتنے اچھے کن سنیئے موجود ہیں، وہ ابو اسحاق کے ساتھ ساتھ زریاب کو بھی پسند کرنے لگے ہیں۔
مگر پہلے تعریفیں کرنے والے استاد کے لیے یہ امر کسی قدر پریشانی کا باعث بھی ہے کیونکہ پیشہ ورانہ رقابت حائل ہوتی جاتی ہے۔
زریاب نے موسیقی کا ایک نیا آلہ ایجاد کر لیا ہے جس میں تانبے کی تاریں ہیں جو ایک لکڑی کے بلے نما کھوکھلے بھونپو پر لگی ہوئی ہیں۔ زریاب ان تاروں کو بجاتا ہے اور پل بھر میں ہی محفل جھوم اٹھتی ہے۔ یار لوگ آج کل اس ساز کو گٹار کہتے ہیں۔
ہاں تو ہمارا مرکزی کردار زریاب بغداد کی شاموں کا شہزادہ بنا پھر رہا ہے کئی پری وش اس کی موسیقی کی دلدادہ ہیں کئی مصاحبین و خواص اس کی آواز پر فریفتہ ہیں۔
استاد ابو اسحاق بھی اس ساری صورتحال سے بے خبر نہیں ہیں۔ بالاآخر ایک روز استاد اپنے اس ہونہار بروا کو بلوا لیتے ہیں اور تخلیے میں یوں گویا ہوتے ہیں۔
''بیٹا زریاب! تم جواں بخت ہو۔ تمہارے مقدر کا ستارہ بہت چمکے گا اور تم آخر دنیا تک نام کماؤ گے/ کیا خبر ایک روز میں تمہارے نام کی نسبت پہچانا جاؤں؟ میری التجا مانو اور بغداد چھوڑ دو۔ خدارا قرطبہ چلے جاؤ۔ وہاں کا بادشاہ بھی عرب ہے اور اسے بھی موسیقی کا از حد شوق ہے۔ تم جوان ہو تمہارے اعضاء طاقتور ہیں، تمہارے لیے عباسیوں کے مخبروں کو چکمہ دے کر سمندر پار کر جانا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔
اگر تم قرطبہ پہنچ گئے تو تمہیں دربار تک رسائی میں کوئی مشکل نہیں آئے گی۔ تمہارے جانے کی خبر تمہارے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی پھیل چکی ہوگی۔ خدارا میری بوڑھی ہڈیوں پر ترس کھاؤ۔ خلیفہ مامون اب تمہاری تعریفوں میں مگن رہتا ہے مجھے شک ہے کہ وہ جلد ہی مجھے میرے عہدے سے سبکدوش کر دے گا۔ میں بڑھاپے میں گم نامی کی ذلت سہہ نہیں سکوں گا تم مجھ پر احسان کرو خدا تم پر احسان کرے گا۔''
زریاب کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ ساری عمر جس استاد کی جوتیاں سیدھی کرکے اسے فیض ملا ہے اسی کو غمزدہ دیکھ کر اس سے رہا نہیں جا رہا۔ وہ جھک کر استاد کے ہاتھ چومتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر اسے محفوظ سفر کا یقین ہو جائے تو وہ رات میں ہی بغداد چھوڑ جائے گا۔
ابو اسحاق الموصلی اپنے کچھ دوستوں کی مدد سے زریاب کو بغداد شہر کی فصیل سے پار پہنچا دیتا ہے۔ اور یوں چند دنوں اور راتوں کی مسافت کے بعد چشم فلک ایک سیاہ پوش نوجوان کو نمکین سمندری گھاٹی کے پاس دیکھتی ہے جہاں افریقہ کے ساحل سے سامان اور مسافر سمندر پار کر کے جبل الطارق جا رہے ہوتے ہیں ۔
ناکتوس نامی ایک یونانی ملاح اس سیاہ پوش نوجوان کو چاندی کے چند سکوں کے عوض سمندر پار لے جانے کی حامی بھر لیتا ہے اور یہ مسافر اس ملاح کی بادبانوں کی کشتی میں سوار ہو جاتا ہے ۔
سمندر کے سفر کے دوران ہی یہ نوجوان مسافر اپنی گڈری سے موسیقی کا ایک آلہ نکالتا ہے اور قدیم عربی ساز بجانا شروع کر دیتا ہے۔ ہنسوں کی ایک ڈار کشتی کے اوپر آکر اڑنے لگتی ہے گویا اس موسیقار کی دھن پر فدا ہوچکی ہوں۔
ناکتوس یہ سارا منظر دیکھ رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں خوشگوار حیرت ہے۔ وہ نوجوان سے پوچھتا ہے کہ وہ کون ہے اور اس نے یہ ساز اور دھن کہاں سے سیکھی ہے۔
نوجوان بتاتا ہے کہ اس کا نام ابو الحسن علی بن النافع ہے، لوگ اسے زریاب کے نام سے جانتے ہیں اور وہ ابو اسحاق الموصلی جیسے فاضل موسیقار کا شاگرد ہے۔
ناکتوس بے ساختہ بولتا ہے، ''زریاب! تم ایک روز وہ مرتبہ پاؤ گے جو چند ہی لوگوں کا نصیب ہوتا ہے۔''
قرطبہ شہر میں زریاب کی آمد ایک جھیل میں پتھر کی مانند ہے۔ جب کہیں زریاب نے ساز چھیڑا وہیں محفل سج گئی۔ صبح ہو کہ رات، دوپہر ہو کہ شام، بازار ہو یا کسی حمام کا آنگن، لوگ دیوانہ وار اس کو سننے چلے آتے ہیں۔
بالآخر خلیفہ کے کانوں تک اس کی خبر پہنچ جاتی ہے۔ دربار سے بلاوا آتا ہے اور خلیفہ عبدالرحمن دوئم اسے اپنے ہاں وزیرِ ثقافت کا مقام اور بڑی شان و شوکت عطا کرتا ہے۔
لیجیے صاحبان! زریاب کو لوگ اس کی سیاہ رنگت کے سبب سیاہ پرندہ کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ نابغہ ایسا شعلہ بن کے بھڑکتا ہے کہ تیس سال تک اندلس کا فخر بن کر رہتا ہے۔ پہلا بیوٹی پارلر بناتا ہے۔ اس کے پہناوے رواج بن جاتے ہیں۔ اس کی حجامت فیشن بن جاتی ہے۔ اس کے کھانے کے آداب پوری یورپی اقوام کے اشرافیہ کا رواج بن جاتے ہیں۔
یہی ہے وہ شخص جس نے کھڑے ہو کر کھانے کا رواج دیا۔ یہی ہے وہ شخص جس نے گٹار بنایا۔ یہی ہے وہ شخص جس نے موجودہ پینٹ کوٹ ٹائی کی بنیاد رکھی اور نجانے کتنی بدعات کا سہرہ اس کے سر ہے۔ تین کورس پر مشتمل کھانوں کا بانی بھی تو یہی ہے۔
تو کیا خیال ہے؟ لگائیں اس پر بھی ایک فتویٰ؟
تبصرے (1) بند ہیں