گجرات: مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کی گئی پاکستانی نژاد برطانوی خاتون سامعہ شاہد کے دوسرے شوہر سید مختار کاظم نے پاکستانی اور برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی اہلیہ کے کیس میں انصاف دلایا جائے۔

28 سالہ بیوٹی تھراپسٹ سامعہ شاہد—۔فوٹو/ بشکریہ دی گارجین
28 سالہ بیوٹی تھراپسٹ سامعہ شاہد—۔فوٹو/ بشکریہ دی گارجین

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق مختار کاظم نے راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی اہلیہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میڈیا کے سامنے پیش کی، جس کے مطابق ان کی گردن پر زخم کا نشان تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا گلا دبایا گیا۔

مختار کاظم نے پاکستانی اور برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کی اہلیہ کے کیس میں انصاف دلایا جائے۔

مزید پڑھیں:برطانوی خاتون کو پاکستان میں 'غیرت' کے نام پر قتل کرنے کا دعوٰی

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ سامعہ کے پہلے شوہر چوہدری شکیل نے منگلا پولیس کو تفتیش کے دوران اپنا بیان ریکارڈ کروایا، جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ 'سامعہ اپنی موت تک ان کی بیوی تھیں اورانھوں نے طلاق لیے بغیر دوسری شادی کی'۔

شکیل، جو سامعہ کے کزن بھی ہیں، نے ان کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات سے انکار کردیا، تاہم منگلا پولیس کے ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ شکیل نے صرف جہلم کے ایڈیشنل سیشن جج سے حاصل کی گئی اپنی عبوری ضمانت کے کاغذات جمع کروائے ہیں، انھوں نے کوئی تحریری بیان جمع نہیں کروایا۔

کیس کے دیگر 2 ملزمان سامعہ کے والد چوہدی شاہد اور ان کے کزن مبین پہلے ہی پولیس کو ریکارڈ کروائے گئے اپنے بیان میں قتل کے الزامات کو یکسر مسترد کرچکے ہیں۔

جبکہ ذرائع کے مطابق خاتون کی والدہ امتیاز بی بی اور بہن مدیحہ شاہد نے ابھی تک بیان ریکارڈ نہیں کروایا، جو چند دن قبل ہی برطانیہ سے پاکستان واپس آئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:سامعہ کی گردن پر زخم کا نشان تھا، پوسٹ مارٹم رپورٹ

والدین کے مطابق سامعہ کی موت پنجاب میں واقع ان کے آبائی گاؤں پندوری میں 20 جولائی کو دل کے دورے کے باعث ہوئی، تاہم ان کے دوسرے شوہر سید مختار کاظم نے سامعہ کے والدین، ایک بہن، ایک کزن اور سابق شوہر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروا رکھا ہے۔

سید مختار کاظم کے مطابق سامعہ نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف ان سے شادی کی تھی، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ان کی اہلیہ شادی سے قبل اہل تشیع ہوگئی تھیں۔

تحقیقاتی ٹیم کی تفصیلات

علاوہ ازیں منگلا پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) عقیل عباس نے ڈان کو فون پر بتایا کہ مبینہ طور پر غیرت کے نام پر سامعہ شاہد کے قتل کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے جہلم پولیس سے کیس کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

وزیراعلیٰ کی جانب سے ایک اعلیٰ سطح کمیٹی تشکیل دیئے جانے سے قبل اس کیس کی تحقیقات جہلم صدر سرکل پولیس کر رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی خاتون کا غیرت کے نام پر 'قتل': والدین پر مقدمہ

وزیراعلیٰ شہباز شریف کی جانب سے قائم کی گئی کمیٹی کے سربراہ شیخوپورہ میں فاروق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر کے کمانڈنٹ ڈی آئی جی ابو بکر خدا بخش ہیں جبکہ دیگر اراکین میں سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) انویسٹی گیشن عبدالرب، ایس پی انوسٹی گیشن جہلم اور ایس پی گجرانوالہ شامل ہیں۔

سرکاری ذرائع کے مطابق اگرچہ وزیراعلیٰ نے ایس پی جہلم کو انکوائری ٹیم کے تیسرے رکن کے طور پر منتخب کیا تھا، تاہم چونکہ ایس پی جہلم کی نشست کافی عرصے سے خالی ہے، لہذایہ واضح نہیں ہوسکا کہ ڈی پی او جہلم مجاہد اکبر خان، جو ضلع کے ایس پی انویسٹی گیشن کا عہدہ بھی سنبھال رہے ہیں، اس کمیٹی کے اراکین میں شامل ہیں یا نہیں۔

سامعہ شاہد کیس: کب کیا ہوا؟

بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والی بیوٹی تھراپسٹ سامعہ کی پہلی شادی ان کے کزن شکیل سے ہوئی تھی تاہم دونوں کے درمیان مئی 2014 میں طلاق ہوگئی تھی، بعدازاں خاتون نے ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والے سید مختار کاظم سے ستمبر 2014 میں شادی کی اور دونوں نے دبئی میں رہائش اختیار کرلی۔

رواں ماہ 20 جولائی کو سامعہ کے شوہر مختار کو فون پر اطلاع ملی کہ ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا ہے۔

28 سالہ سامعہ شاہد کے شوہر سید مختار کاظم نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کی اہلیہ کو ان کے خاندان والوں نے اپنی پسند سے شادی کرنے پر نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا۔

کاظم کا کہنا تھا کہ ان کی ساس نے 11 جولائی کو سامعہ کو فون پر کہا کہ وہ پاکستان آجائے کیونکہ اس کے والد بیمار ہیں، جس کے بعد سامعہ 14 جولائی کو اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سامعہ نے فون پر بتایا کہ ان کے والد بالکل ٹھیک ہیں اور اب وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔

کاظم کے مطابق 20 جولائی کو سامعہ کا فون سوئچ آف ملا، جس پر انھوں نے ان کے کزن مبین کو فون کیا، جس نے بتایا کہ سامعہ کو دل کا دورہ پڑا ہے۔

مختار کاظم نے رواں ماہ 23 جولائی کو سامعہ کے والد چوہدری شاہد، والدہ امتیاز بی بی، بہن مدیحہ شاہد، کزن مبین اور خاتون کے سابق شوہر چوہدری شکیل کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 اور 109 کے تحت ایف آئی آر درج کروائی تھی۔

دوسری جانب دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق سامعہ کے والدین نے مختار کاظم کے دعووں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کاظم کی جانب سے ان پر 'جھوٹے اور بے بنیاد' الزامات لگائے جارہے ہیں۔

سامعہ کے والد چوہدری شاہد کا کہنا تھا کہ 'اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں اور اگر میں قصوروار پایا گیا تو میں ہر قسم کی سزا کے لیے تیار ہوں'۔

والد کا مزید کہنا تھا کہ 'ان کی بیٹی ایک خوشگوار زنگی بسر کر رہی تھی، جو خود سے پاکستان آئی اور اس پر خاندان کی جانب سے کسی قسم کا دباؤ نہیں تھا'۔

واقعے کے بعد برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا کہ سامعہ کی قبرکشائی کرکے ان کا غیر جانبدار پوسٹ مارٹم کروایا جائے۔

ناز شاہ نے اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کو لکھے گئے خط میں کہا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں جو کہ 'غیرت' کے نام پر قتل کا ایک کیس ہے اور ہمیں بتایا جائے کہ سامعہ کے ساتھ انصاف ہوا اور اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی جائے کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں