استنبول: ترکی کے جنوب مشرق میں واقع صوبے سرنیک کے قصبے جزرے میں پولیس ہیڈکوارٹرز پر کار بم دھماکے کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک جبکہ 64 زخمی ہوگئے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق دھماکا شامی سرحد کے قریبی علاقے میں ہوا، جہاں کردوں کی اکثریت ہے۔

نقشہ بشکریہ بی بی سی—۔
نقشہ بشکریہ بی بی سی—۔

دھماکے کے فوراً بعد پولیس اور ریسکیو ٹیمیں جائے وقوع کی جانب روانہ ہوگئیں۔

اگرچہ دھماکے کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی، تاہم ترکی کے سرکاری میڈیا اور ٹی وی کے مطابق کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے باغیوں پر اس کا الزام عائد کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں:ترکی : 2 کار بم دھماکوں میں 6 افراد ہلاک

دھماکے کے نتیجے میں پولیس ہیڈکوارٹرز کو شدید نقصان پہنچا، جبکہ ٹی وی پر نشر ہونے والی فوٹیج میں عمارت سے کالے دھویں کے بادل اٹھتے ہوئے دکھائی دیئے۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 15 جولائی کو ترک صدر طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ہونے والی فوجی بغاوت میں ناکامی کے بعد سے ترکی میں ایمرجنسی نافذ ہے اور بغاوت کی سازش میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔

دوسری جانب کرد باغیوں کی جماعت کردستان ورکرز پارٹی(پی کے کے) کی جانب سے حملوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔

اس سے قبل 10 دن پہلے بھی دیار باقر میں پولیس اسٹیشن پر دھماکے کے نتیجے میں 5 پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:ترکی: شادی کی تقریب میں دھماکا، 50 افراد ہلاک

جبکہ رواں ماہ 21 اگست کو شامی سرحد کے قریب ترکی کے شہر غازی انتیپ میں ایک شادی کی تقریب میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 50 افراد ہلاک اور 94 زخمی ہوگئے، رپورٹس کے مطابق یہ دھماکا ممکنہ طور پر داعش کی جانب سے کیا گیا تھا کیوں کہ جس علاقے میں دھماکا ہوا، وہاں کردوں کی اکثریت تھی اور شادی میں بھی بڑی تعداد میں کرد کمیونٹی کے افراد شریک تھے۔

23 اگست کو ترکی میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ٹیم پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں 2 فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے، اس واقعے کا ذمہ دار بھی کرد باغیوں کو ہی ٹھہرایا گیا۔

واضح رہے کہ ترکی میں کرد باغیوں کی تنظیم پی کے کے کی جانب سے 1984 میں علیحدگی کی مسلح تحریک شروع کی گئی، بغاوت کی اس تحریک میں 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں دوسری جانب حکومت بغاوت کچلنے کے فوجی آپریشن کے ساتھ ساتھ اصلاحات کی پالیسی بھی اختیار کیے ہوئے ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں