اسلام آباد: پاکستان بحر ہند کی حدود (آئی او آر) میں کسی بھی پریشان کن پیش رفت پر بحری مفادات کو تحفظ دینے اور روایتی و نیم روایتی خطرات سے نبردآزماء ہونے کے پیش نظر بحری جنگی نظریئے میری ٹائم ڈاکٹرائن تشکیل دے رہا ہے۔

مجوزہ بحری جنگی نظریئے کو اپنانے سے قبل اس کے مسودے پر پاک بحریہ اور حکومت کی جانب سے مختلف سطحوں پر غور کیا جارہا ہے۔

پاکستان نیوی وار کالج کے سینئر ریسرچ فیلو اور مذکورہ نظریئے کے تخلیق کار ریٹائرڈ کمانڈر محمد اعظم خان ہیں۔

سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹجک اسٹڈیز (سی آئی ایس ایس) سے اپنے خطاب میں اعظم خان کا کہنا تھا کہ نظریئے کا مقصد پاک بحریہ کے اندر قول و فعل کی ہم آہنگی اور یکسانیت پیدا کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاک بحریہ کے پاکستان کی بری فوج، فضائیہ اور اتحادی ممالک کی بحریہ کے ساتھ تعاون کو بڑھانا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک بحریہ کا ’ضرب‘ میزائل کا کامیاب تجربہ

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ نظریہ پاکستان میں میری ٹائم ڈویلپمنٹ کے مبصرین اور اسٹیک ہولڈرز میں پائے جانے والے سیاقی ابہام کو دور کرنے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔

اعظم خان نے نظریئے کا عمومی جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ بحر ہند میں ابھرتے ہوئے خطرات اور تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر اس کی تشکیل ضروری تھی۔

انہوں نے کہا کہ بحر ہند کی علاقائی صورتحال غیریقینی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے خراب ہوچکی ہے اور ایسے میں پاکستان کیلئے اپنی سمندری حدود کا تحفظ یقینی بنانا ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس نظریئے کی تشکیل اس لیے بھی ضروری تھی تاکہ ہمیں اپنے سیکیورٹی مفادات کا ادارک ہو اور ہم اپنی بحری افواج کیلئے محتاط طریقے سے فرائض کا تعین کرسکیں۔

مزید پڑھیں: پاک بحریہ کے فلیٹ ٹینکر کا افتتاح

سیکیورٹی خطرات اور اتحادیوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے علاوہ اس نظریئے میں جہاز رانی، تجارتی مفادات کا تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی اور سطح سمندر کی بلندی جیسے چیلنجز سے نمٹنے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔

ریٹائرڈ نیول چیف ایڈمرل آصف سندھیلا نے اس حوالے سے کہا کہ پاکستان کی نظریاتی سوچ میں سمندروں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا جو اسٹریٹجک سیکیورٹی اور معاشی خوشحالی میں سمندروں کے اہم کردار کو فراموش کرنے کے مترادف ہے۔

ایڈمرل سندھیلا نے کہا کہ جب ہم بحری جنگی نظریئے کی بات کرتے ہیں تو دو شعبے ایسے ہیں جن پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلی چیز جسے ہر حال میں یقینی بنایا جانا چاہیے وہ بحریہ کی سیکنڈ اسٹرائیک قابلیت ہے جبکہ بحرانی حالات سے نمٹنے کیلئے اشتراکی میکانزم کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے حوالے سے تحقیقات کی بھی اشد ضرورت ہے۔

سی آئی ایس ایس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سرور نقوی نے کہا کہ پاکستان کا محل وقوع تذویراتی اعتبار سے انتہائی اہم ہے اور وہ کثیر الجہتی بحری فورس کا حامل ہے، پاکستان بحریہ کے ڈھانچے نے اسے بحر ہند کے خطے میں ایک تسلیم شدہ قوت بنایا۔

انہوں نے کہا کہ خطے کی تبدیل ہوتی ہوئی اسٹریٹجک صورتحال اس بات کی متقاضی تھی کہ پاک بحریہ چینلجز سے نمٹنے کیلئے اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرے۔


یہ خبر 6 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

SAEED Sep 07, 2016 09:16am
Obviously, it is dire need of time. especially,as after the extension of EEZ.