واشنگٹن: امریکا نے پاکستان اور ہندوستان کو خبردار کیا ہے کہ ایٹمی ریاستیں کسی بھی تنازع میں ایک دوسرے کو جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی نہ دیں۔

دوسری جانب امریکی حکومت نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ 18 ستمبر کو اوڑی میں ہندوستان کے فوجی مرکز پر حملہ دہشت گردی کی کارروائی تھی۔

امریکا کی جانب سے جوہری تنازع سے بچنے کی یہ وارننگ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب عالمی میڈیا میں اس حوالے سے رپورٹس سامنے آئیں کہ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کے حالیہ بیانات سے ایک دوسرے کے خلاف جوہری فوجی اقدامات کے امکان کا اشارہ مل رہا ہے۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان جون کربی نے اس حوالے سے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا، 'ایٹمی طاقت کی حامل ریاستوں کو جوہری ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی کے استعمال کے سلسلے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے'۔

لائن آف کنٹرول کی صورتحال کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا تھا، 'یہ بات واضح ہے کہ اوڑی میں ہندوستانی فوجی مرکز پر حملہ دہشت گردی کی ایک کارروائی تھی اور ہم اس کی شدید مذمت کرچکے ہیں'۔

مزید پڑھیں:پاکستان کا اوڑی حملے کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ

آزاد کشمیر میں ہندوستان کے سرجیکل اسٹرائیکس کے دعووں کی تصدیق یا تردید کیے بغیر امریکی عہدیدار نے کہا، 'ہم نے رپورٹس دیکھی ہیں اور صورتحال کا نہایت قریب سے جائزہ لیا جارہا ہے'۔

ان کا کہنا تھا، 'ہم دونوں ممالک پر تحمل اور پرسکون رہنے پر زور دیتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی اور ہندوستانی افواج آپس میں رابطے میں ہیں اور ہمارا ماننا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی اس تناؤ کو ختم کیا جاسکتا ہے'۔

ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا مزید کہنا تھا، 'ہم متعدد مرتبہ سرحد پار دہشت گردی سے خطے کو لاحق خطرات کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں۔'

انھوں نے کہا، 'ہم لشکر طیبہ، حقانی نیٹ ورک اور جیش محمد جیسے دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے پر بھی زور دیتے ہیں'۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ 'امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج سے منگل 27 ستمبر کو رابطہ کیا اور اوڑی حملے کی مذمت کی، انھوں نے ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کی اور کشیدگی بڑھانے کے حوالے سے خبردار کیا'۔

یہ بھی پڑھیں:اوڑی حملے سے اقوام متحدہ میں ’کشمیر مہم‘ متاثر

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا تھا،' مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کا تعین پاکستان اور ہندوستان کو کرنا ہے اور ہم اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تمام مثبت اقدامات کی حمایت کرتے ہیں'۔

اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی اوڑی حملے کو سرحد پار دہشت گردی کا واقعہ قرار دیتے ہوئے اسلام آباد پر زور دیا گیا تھا کہ وہ لشکر طیبہ، جیش محمد اور ان سے منسلک دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے۔

دوسری جانب امریکی قومی سلامتی کی مشیر سوزین رائس نے بھی اپنے ہندوستانی ہم منصب اجیت دووال کو ٹیلیفون کرکے اوڑی حملے کی مذمت کی۔

یاد رہے کہ رواں ماہ 18 ستمبر کو جموں و کشمیر کے ضلع بارہ مولا کے سیکٹر اوڑی میں ہندوستان کے فوجی مرکز پر حملے کے نتیجے میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد ہندوستان نے بغیر تحقیقات اور ثبوت کے اس کا الزام پاکستان پر عائد کردیا تھا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں:اوڑی حملہ:’ہندوستان الزام لگانے سے قبل خود کو بھی دیکھے‘

حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے ہندوستان میں جاری حالیہ کشیدگی اور مظاہروں کے نتیجے میں 100 سے زائد کشمیری ہلاک، سیکڑوں نابینا اور ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

امریکا کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان نیڈ پرائس نے اپنے بیان میں بتایا کہ اجیت دووال سے رابطے میں سوزین رائس نے اوڑی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کیا۔

ترجمان کے مطابق سوزین رائس نے یقین دلایا کہ صدر براک اوباما پوری دنیا میں دہشت گردی پھیلانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہیں۔

سرحد پار دہشت گردی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اپنے بیان میں نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ پاکستان نے لشکرطیبہ،جیش محمد اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف موثر کارروائیاں کی ہیں۔

یہ خبر 30 ستمبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں