اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان کا اہم اجلاس وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہوا، جس کے دوران تمام جماعتوں نے مسئلہ کشمیر پر حکومتی موقف کی حمایت کی۔

وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی اور کشمیر کی صورتحال کے تناظر میں پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا تھا تاکہ دنیا کو واضح پیغام دیا جاسکے۔

اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے رہنماؤں کا استقبال وزیر اعظم نواز شریف نے بذات خود کیا۔

اجلاس کے بعد تیار ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر میں بھارتی مظالم اور کنٹرول لائن پر ہندوستان کی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی اور کشمیر کے عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی مدد جاری رکھنے کا عزم دہرایا گیا۔

مشترکہ اعلامیے کے چند اہم نکات یہ ہیں:

  • پاکستان، اس کے عوام، تمام سیاسی جماعتیں اور مسلح افواج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے متحد ہیں۔

  • قرارداد میں معصوم کشمیریوں کی مسلسل ہلاکت کو انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دے کر شدید مذمت کی گئی۔

  • قرارداد میں اعتراف کیا گیا کہ گذشتہ 87 دن میں قابض ہندوستانی فوج نے وادی کشمیر میں خواتین اور بچوں سمیت 110 سے زیادہ معصوم کشمیریوں کو قتل اور پیلٹ گنوں سے 700 سے زیادہ کشمیریوں کو اندھا کردیا۔

  • قرارداد میں تنبیہ کی گئی ہے کہ ہندوستان کی حالیہ بلا اشتعال اور جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں علاقے میں امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

  • قرارداد میں کشمیریوں کی جدوجہد اور اسے کچلنے کے لیے سرحد پار سے دہشت گردی کے ہندوستانی جھوٹے دعووں کی مذمت کی گئی ہے۔

  • قرارداد میں مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے حق خود ارادیت کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کا حوالہ دے کر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

  • قرارداد کے ذریعہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت کی جدوجہد میں سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

  • قرارداد کے ذریعہ کشمیر میں کالے قوانین کے استعمال، مسلسل کرفیو کے نفاذ، ہندوستان کے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔

  • اجلاس میں وزیر اعظم سے بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے قومی اتحاد قائم کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

  • اجلاس میں گذشتہ کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیہ کے مطابق نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کا عزم دہرایا گیا ہے۔

کشمیر کے معاملے پر وزیراعظم کے ساتھ ہیں، بلاول

آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نمائندگی کرنے والے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’حکومت کے ساتھ کئی معاملات پر اختلافات ہونے کے باوجود ہم کشمیر کے معاملے اور کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کے خلاف وزیراعظم کے ساتھ ہیں‘۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا مزید کہنا تھا کہ ہم وزیراعظم کی حمایت کریں گے کیونکہ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات میں یہ ایک اہم موڑ ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ متحد پاکستان بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرسکتا ہے اور ہم اپنے قومی سلامتی کے اہداف ساتھ مل کر ہی حاصل کرسکتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں اور مسئلہ کشمیر پر پوری پاکستانی قوم متحد ہے۔

پانی کے معاملے پر ہندوستانی رویہ 'جارحانہ اقدام': شاہ محمود قریشی

اجلاس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کرنے والے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آج کے اجلاس میں ہندوستان کے جارحانہ رویئے اور کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور مشترکہ اعلامیے میں کشمیریوں کے ساتھ ظلم و بربریت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے اقوام متحدہ کے خطاب میں جو چیزیں رہ گئیں تھیں، وہ بھی مشترکہ اعلامیے میں شامل کی گئی ہیں، مثلاً بلوچستان میں ہندوستانی مداخلت اور انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیانات، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ کس طرح ہندوستان بلوچستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پانی کے معاملے پر ہندوستان نے جو رویہ اپنا رکھا ہے اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی کوشش کی ہے، اس کو 'جارحانہ اقدام' تصور کیا جائے گا۔

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ اجلاس کے دوران کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اظہار ہمدردی کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ ہمیں دنیا کے سامنے ایک متفقہ موقف پیش کرنا ہے کہ اگر پاکستان کی سلامتی کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو ہم بالکل ایک ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ اجلاس میں پاناما لیکس کا معاملہ بھی زیر غور آیا اور محسوس کیا گیا کہ یہ مسئلہ تقسیم کا ذریعہ بن رہا ہے اور اس پر بھی ایک قومی اتفاق رائے پیدا کیا جاسکتا ہے، لہذا تجویز پیش کی گئی کہ سینیٹ میں مشترکہ اپوزیشن نے جو پروپوزل دیا ہے اسے منظور کرکے اس پر پیش رفت کی جاسکتی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 'میں نے وزیراعظم کو بتایا کہ سارک اجلاس کے حوالے سے جس طرح ہندوستان نے دیگر ممالک کو قائل کیا کہ وہ اس میں حصہ نہ لیں، اس طرح پاکستان کو نقصان ہوا، لہذا ہمیں سفارتی طور پر خود کو مضبوط کرنا چاہیے۔'

انھوں نے مزید بتایا کہ قومی سلامتی سے متعلق ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

مسئلہ کشمیر پر اتحاد، اتفاق اور یکجہتی غیر متزلزل: فاروق ستار

اجلاس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما فاروق ستار کا کہنا تھا کہ آل پارٹیز کانفرنس بلانا ایک نہایت خوش آئند قدم ہے اور کشمیر کے معاملے پر ہمارا اتحاد، اتفاق اور یک جہتی غیر متزلزل ہے۔

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ہمارا موقف تھا کہ بھارت اگر اپنی ریاستی دہشت گردی، پانی کو لے کر دہشت گردی اور اپنے جارحانہ جنگی عزائم سے ہمیں آزمانا چاہتا ہے تو وہ یہ سوچ لے کہ وہ خود ہی منہ کی کھائے گا اور اسے اپنی عوام اور دنیا کے سامنے ندامت کا سامنا کرنا ہڑے گا۔

ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ ضرروت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی سفارتی کوششوں کو زیادہ بہتر اوربروقت استعمال کریں تاکہ جو کمی بیش رہ جائے، اسے دور کیا جاسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں امن کو مضبوط اور مستحکم بنانا اور اقتصادی استحکام کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے اور ان معاملات پر بھی بھرپور توجہ دی جانی چاہیے۔

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ انھوں نے اجلاس کے دوران اس بات کو اٹھایا کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جانا چاہیے اور ہمیں ایک قومی ایجنڈے پرکام کرنا چاہیے۔

ہندوستانی مظالم کو عیاں کرنے کا عزم

اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے قائدین نے فیصلہ کیا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں وفود بھیجے جائیں جو کشمیر میں بھارتی مظالم سے ان ممالک کو آگاہ کریں۔

سیاسی جماعتوں نے سلامتی کمیٹی کے قیام کا بھی مطالبہ کیا جبکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کو بھی وادی کشمیر میں ہندوستان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا جائے اور اقوام متحدہ کا ایک وفد کشمیر بھیجا جائے جو وہاں زمینی حقائق کا جائزہ لے۔

اس موقع پر سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے شرکاء کو کشمیر کی موجودہ صورتحال اور کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت پر بریفنگ دی۔

انہوں نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں خاص طور پر عورتوں اور بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم سے بھی آگاہ کیا۔

سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ ’مسئلہ کشمیر انتہائی گھمبیر ہوچکا ہے، پاکستان امن چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ کشمیر اور دیگر باہمی امور پر بھارت کے ساتھ مذاکرات ہوں‘۔

اعزاز چوہدری نے ہندوستان کی جانب سے آزاد کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ بھی مسترد کیا اور اڑی حملے کے بعد پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کو بھی بے بنیاد قرار دیا۔

اجلاس میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ کی تمام جماعتوں کے سربراہوں کو دعوت نامے بھیجے گئے تھے تاہم قومی اسمبلی میں عوامی مسلم لیگ کے کے واحد رکن شیخ رشید احمد اجلاس میں نظر نہیں آئے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ خورشید شاہ، شیری رحمٰن اور حنا ربانی شامل تھیں جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری نے اجلاس میں شرکت کی۔

اس کے علاوہ سینیٹر اعتزاز احسن، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمان اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود اچکزئی سمیت دیگر رہنما بھی شریک ہوئے۔

اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر دفاع خواجہ آصف بھی شریک تھے۔

مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ، مشیر خارجہ سرتاج عزیز بھی اجلاس میں موجود تھے جبکہ غلام بلور ، آفتاب شيرپاؤ، اعجاز الحق اور حاصل بزنجوکو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

اجلاس میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو مدعو کیا گیا تھا، جس کے دوران سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو کشمیر اور ایل او سی کی صورتحال پر اعتماد میں لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان کا اجلاس طلب

اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر عالمی رہنماؤں سے ہونے والی ملاقاتوں اور اس دوران زیر بحث آنے والے معاملات پر بھی شرکاء کو بریفنگ دی گئی۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے بھی ایک اجلاس طلب کررکھا ہے جس میں عسکری قیادت کے علاوہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شرکت کریں گے۔

وزیر اعظم نواز شریف ہندوستانی جارحیت کے پیش نظر 4 اکتوبر کو قومی سلامتی کا اجلاس بھی طلب کرچکے ہیں۔

اجلاس میں مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے علاوہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر خزانہ اسحٰق ڈار بھی شریک ہوں گے اور اجلاس کو اپنی متعلقہ وزارتوں کی کارکردگی پر بریفنگ دیں گے۔

دوسری جانب صدر مملکت ممنون حسین نے بدھ 5 اکتوبر کو شام ساڑھے 4 بجے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی طلب کررکھا ہے جس میں لائن آف کنٹرول پر ہندوستان کی بلا اشتعال فائرنگ اور کشمیر کی صورتحال پر غور کیا جائے گا۔

ہندوستانی جارحیت—کب کیا ہوا

واضح رہے کہ 29 ستمبر کو بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے کنٹرول لائن کے اطراف پاکستانی علاقے میں دہشت گردوں کے لانچ پیڈز پر سرجیکل اسٹرائیکس کیں جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔

مزید پڑھیں:ہندوستان کی جانب سے سیز فائر کی پھر خلاف ورزی

پاکستان نے ہندوستان کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیکس کے دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کنٹرول لائن پر سیز فائر کی خلاف ورزی کا واقعہ تھا جس کے نتیجے میں اس کے دو فوجی جاں بحق ہوئے۔

بعد ازاں یہ رپورٹس بھی سامنے آئیں کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے ایک ہندوستانی فوجی کو پکڑا بھی گیا ہے جبکہ بھرپور جوابی کارراوئی میں کئی انڈین فوجی ہلاک بھی ہوئے۔

ہندوستان کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیکس کا دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب کشمیر کی موجودہ صورتحال پر دونوں ملکوں کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ تھے اور اس واقعے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

18 ستمبر کو کشمیر کے اڑی فوجی کیمپ میں ہونے والے حملے کے بعد جس میں 18 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے، ہندوستان نے اس کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے اسے عالمی سطح پر تنہا کرنے کی سفارتی کوششوں کا آغاز کیا تھا تاہم پاکستان نے اس الزام کو یکسر مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’کشیدگی بڑھانا کسی کے مفاد میں نہیں‘

8 جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی انڈین فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں صورتحال کشیدہ ہے اور پولیس سے جھڑپوں اور مظاہروں میں اب تک 100 سے زائد کشمیری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں جبکہ چھرے لگنے سے 150 سے زائد کشمیری بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔

گزشتہ دنوں ہندوستان نے نومبر میں پاکستان میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں بھی شرکت سے انکار کردیا تھا جس کے بعد دیگر ممالک نے بھی بھارت کی پیروی کی اور بالآخر سارک کانفرس کو ملتوی کرنا پڑا۔


تبصرے (0) بند ہیں