وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ ملک کے معتبر اخبار ڈان کے صحافی سیرل المیڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنا مجبوری تھی۔

اسلام ۤباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ جوکچھ ہے وہ سامنے ۤجانا چاہیے، کم از کم مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں، میں نے اس معاملے پر سی اپی این ای اور اے پی این ایس کے ذمہ داران کو کل ملاقات کی دعوت دی ہے، جس میں ان کا موقف بھی سنایا جائے گا اور انہیں حکومتی موقف سے بھی آگاہ کیا جائے گا، جبکہ صحافی کا نام ای سی ایل میں کیوں ڈالا یہ کل ذمہ داروں کو بتاؤں گا۔

انہوں نے کہا کہ 'خبر شائع ہونے کے بعد ایک ہائی سیکیورٹی میٹنگ ہوئی جس میں دیگر ایشوز زیر بحث آئے، اس میں یہ ایشو بھی زیر بحث آیا جس سے متعلق فیصلہ کیا گیا کہ کس نے خبر لیک کی اس سے متعلق تحقیقات کی جائے گی اور جس نے خبر لیک کی اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔'

یہ بھی پڑھیں: ’شدت پسندوں کے خلاف کارروائی یا بین الاقوامی تنہائی‘

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ 'صحافی اپنی خبر میں لکھ رہا ہے کہ سب نے اس خبر کی تردید کی، سب نے جھوٹی خبر کی تردید کی تو پھر خبر کیوں شائع ہوئی، معاملہ ختم ہوجانا چاہیے تھا لیکن صحافی نے کہا کہ وہ اپنی خبر قائم ہے جس کے بعد معاملے کی تحقیقات ضروری ہے۔'

انہوں نے کہا کہ یہ (ن) لیگ یا فوج کا نہیں سب کا مشترکہ مسئلہ ہے، خبر کی وجہ سے پوری دنیا کو پاکستان کو چارج شیٹ کرنے کا موقع ملا، بھارتی اخبارات اور چینلز نے اس معاملے کو اچھالا اور بھارتی میڈیا نے کہا کہ بھارت جو کہتا تھا وہ صحیح ثابت ہوگیا، جبکہ نان اسٹیٹ ایکٹر کے بارے میں دشمنوں کے مؤقف کی تشہیر ہوئی۔

سیرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے چوہدری نثار نے کہا کہ صحافی کا نام ای سی ایل میں ڈالنا مجبوری تھی، ہمیں پتہ چلا تھا کہ صحافی ملک چھوڑ کر جانا چاہتا ہے جبکہ اگر ایسا ہوجاتا تو سارا الزام مسلم لیگ (ن) اور حکومت پر آجاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ای سی ایل وزارت داخلہ کی اتھارٹی ہے، جس میں صحافی کا نام ڈالنے کا قانون کے مطابق فیصلہ کیا، ہمارے پاس کچھ شواہد ہیں ان کی تصدیق سیرل سے کریں گے، دو تین غیر ملکی صحافی بھی اس انکوائری کا حصہ ہیں، جبکہ یہ انکوائری تین چار دن میں ختم ہوجائے گی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم آفس نے ڈان کی خبر ایک بار پھر مسترد کردی

خبر اور اس کا ردعمل

یاد رہے کہ سیرل المیڈا کا نام چند روز قبل سول اور ملٹری قیادت کے اجلاس کے دوران ہونے والی بحث کی خبر کے بعد ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔

وزیر اعظم ہاؤس نے 6 اکتوبر کو شائع ہونے والی اس خبر کی تین بار تردید کی۔

ڈان نے خبر کے حوالے سے کچھ باتوں کی وضاحت کی اور کچھ چیزوں کو ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھا۔

ڈان نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جس اسٹوری کو من گھڑت قرار دے کر مسترد کیا گیا، ڈان نے اس کی تصدیق کی، کراس چیک کیا اور اس میں موجود حقائق کو جانچا تھا۔

ڈان کی جانب سے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان میں سے بیشتر امور سے واقف سینئر عہدیداران اور اجلاس میں شریک افراد سے ڈان اخبار نے معلومات لینے کے لیے رابطہ کیا اور ان میں سے ایک سے زائد ذرائع نے تفصیلات کی تصدیق اور توثیق کی۔

یہ بھی پڑھیں: انسانی حقوق کمیشن کا سیرل المیڈا سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ

سیرل المیڈا کی نقل و حرکت پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کے لیے انسانی حقوق کے کمیشن (ایچ آر سی پی)، ایمنسٹی انٹرنیشنل، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈان کے اسٹاف ممبر پر عائد کی گئی تمام پابندیوں کو فوری طور پر ہٹائے۔

کئی ٹی وی چینلز نے بھی حکومت کے اس اقدام کے خلاف رپورٹس اور پروگرامز شائع کیے اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

’آن لائن پاسپورٹ سروس کا افتتاح‘

وزیر داخلہ چوہدری نثار کا الیکٹرونک پاسپورٹ کے اجرا کے حوالے سے کہنا تھا کہ آن لائن پاسپورٹ کا افتتاح کردیا ہے، سروس ابتدائی طور پر بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے شروع کی گئی ہے، جبکہ آئندہ جون سے پاکستان میں ای پاسپورٹ سروس شروع کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ای پاسپورٹ کی میعاد 10 سال ہوگی، 2 سال میں ای پاسپورٹ کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلادیں گے، جبکہ اس سے ہیرا پھیری ختم ہوجائے گی۔

نئے پاسپورٹ آفس کے قیام کے حوالے سے وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ایک سال میں 72 نئے پاسپورٹ آفسز قائم کرنے کا ہدف ہے جو فروری میں حاصل کرلیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں