اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو کرپٹ افسران کی جانب سے رضاکارانہ رقم واپسی کے اختیار (Voluntarily Return) کے استعمال سے روک دیا۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے رضاکارانہ رقم واپسی کے قانون پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے رضاکارانہ رقم کی واپسی کے حوالے سے نیب پر برہمی کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 'عدالت سے بچنے کے لیے نیب کے پاس جا کر مک مکا کیا جاتا ہے، نیب ملزمان کو کرپشن کی رقم واپس کرنے میں قسطوں کی سہولت بھی دیتا ہے اور انھیں کہا جاتا ہے پہلی قسط ادا کرو، پھر کماؤ اور دیتے رہو'۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ رضاکارانہ رقم واپس کرنے والے افسران عہدوں پر برقرار رہتے ہیں۔

واضح رہے کہ رضاکارانہ رقم واپس کرنے والوں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سمیت اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران شامل ہیں۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ 'نیب خود ملزمان کو خط لکھ کر رقم کی رضاکارانہ واپسی کا کہتا ہے'۔

سماعت کے دوران جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ 10 کروڑ روپے کی کرپشن کے ملزم سے 2 کروڑ لے کر باقی چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ نیب آرڈیننس کا سیکشن 25 اے کرپشن ختم کرنے کے لیے تھا بڑھانے کے لیے نہیں۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نیب قوانین میں ترمیم کا کام جاری ہے، جس پر شیخ عظمت سعید نے کہا کہ عدالت کیس جاری رکھے گی، آپ جب چاہیں ترمیم کر لیں۔

بعدازاں عدالت نے نیب سے 10 سال کے دوران رضاکارانہ رقم واپسی کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 7 نومبر تک ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں