کوئٹہ حملہ: 'دہشت گردوں نے خود کو فوجی اہلکار ظاہر کیا'

اپ ڈیٹ 26 اکتوبر 2016
ایک زخمی کیڈٹ کوئٹہ کے ہسپتال میں زیر علاج ہے—۔فوٹو/ اے ایف پی
ایک زخمی کیڈٹ کوئٹہ کے ہسپتال میں زیر علاج ہے—۔فوٹو/ اے ایف پی

کوئٹہ: عینی شاہدین کے مطابق کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج پر دھاوا بولنے والے مسلح حملہ آوروں نے چھپے ہوئے کیڈٹس سے کمروں کے بند دروازے کھلوانے کے لیے خود کو فوجی اہلکار ظاہر کیا۔

دہشت گردی کے اس المناک واقعے میں اب تک 60 سے زائد افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں، پیر 24 اکتوبر کی رات ہتھیاروں اور خودکش جیکٹس سے لیس 3 دہشت گردوں نے پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ کرکے سوئے ہوئے کیڈٹس کو نشانہ بنایا، جہاں عموماً 700 کے قریب کیڈٹس موجود ہوتے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فائرنگ اور خودکش دھماکے سے بچ نکلنے والے ایک نوجوان کیڈٹ حکمت اللہ نے بتایا، 'دہشت گرد ایک کے بعد دوسرے کمرے میں داخل ہوئے، پہلے وہ ایک کمرے میں گئے وہاں فائرنگ کی اور اس کے بعد دوسرے کمرے میں چلے گئے'۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ

حملے میں زخمی ایک اہلکار کوئٹہ کے ہسپتال میں زیر علاج ہے—۔فوٹو/ اے ایف پی
حملے میں زخمی ایک اہلکار کوئٹہ کے ہسپتال میں زیر علاج ہے—۔فوٹو/ اے ایف پی

حکمت اللہ اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہے جہاں اس کے بائیں کندھے پر لگنے والی گولی کے زخم کا علاج جاری ہے۔

22 سالہ کیڈٹ نے بتایا، 'دہشت گردوں نے ان کمروں کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا جو اندر سے بند تھے اور کیڈٹس کو بتایا کہ ان کا تعلق فوج سے ہے اور جب کیڈٹس نے دروازہ کھولا تو انھوں نے فائرنگ کردی، وہ اکیڈمی کی دیواریں پھلانگ کر آئے تھے جو بہت چھوٹی ہیں، میں اپنے کمرے سے بھاگا اور مجھے ایک گولی لگی لیکن اس کے باوجود بھی میں بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا'۔

عیی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں نے بھیس بدل رکھا تھا اور انھوں نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے، تاہم وہ یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ انھوں نے فوجی وردیاں پہن رکھی تھیں یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ حملہ: ‘دہشت گردوں نے ایک ایک کو گولیاں ماریں'

ایک اور کیڈٹ زبیر احمد نے بتایا، 'ہم 3 سے 4 لڑکے رات سوا 10 بجے کے قریب بیٹھے تھے اور سونے کے لیے جانے کا سوچ رہے تھے کہ اچانک فائرنگ کی آوازیں آئیں اور لوگوں نے بھاگنا شروع کردیا، ہر طرف چیخ و پکار مچی ہوئی تھی، کچھ لوگ کھڑکیوں سے چھلانگ لگا رہے تھے جبکہ دیگر لوگ درختوں پر چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے'۔

زبیر نے بتایا، ' میں نے ایک درخت کی مدد سے کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگائی اور میرا کندھا اور پاؤں زخمی ہوگیا، میں زمین پر زخمی حالت میں ایک گھنٹے تک پڑا رہا، جس کے بعد مجھے ریسکیو کیا گیا'۔

اگرچہ ٹریننگ سینٹر میں صحافیوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی تاہم ایک انٹیلی جنس آفیشل کی جانب سے بنائی گئی موبائل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا تھا کہ ہاسٹل کے ہال میں زیادہ تر چیزیں جلی ہوئی اور ان کی سیاہ راکھ موجود تھی۔

مزید پڑھیں:ٹوئٹر پر تبصرے: ’کوئٹہ حملے کا ذمہ دار ہندوستان‘

کمروں میں موجود بستر اور کیڈٹس کی اشیاء جل کر خاکستر ہوچکی تھیں جبکہ فرش پر ایک گہرا گڑھا موجود تھا جہاں ایک حملہ آور نے اپنی خودکش جیکٹ پھاڑی تھی۔

یہ حملہ رواں برس ملکی تاریخ کا تیسرا برا حملہ تھا، جو اس بات کو ظاہر کر رہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ میں ملنے والی تمام کامیابیوں کے باوجود دہشت گرد اب بھی ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ خبر 26 اکتوبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

irfan younas Oct 26, 2016 12:20pm
We should also get support from other countries to crack down the black listed organizations immediately to keep safe PAKISTAN.