مجھے کس قانون کے تحت نظربند کیا گیا،عمران خان کا سوال

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2016
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پریس کانفرنس کرتے ہوئے—۔ڈان نیوز
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پریس کانفرنس کرتے ہوئے—۔ڈان نیوز

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ جب اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ تھا کہ کوئی رکاوٹیں نہیں ڈالنی تو میں پوچھتا ہوں کہ بنی گالہ کیوں بند کیا گیا اور مجھے کس قانون کے تحت گھر میں تقریباً نظر بند کردیا گیا۔

بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ میں پھر سے نواز شریف کی حکومت سے سوال پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بادشاہت ہے یا جہموریت؟

اس موقع پر ان کے ہمراہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین سمیت پی ٹی آئی کے دیگر رہنما اور کارکن بھی موجود تھے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کی پولیس غیر سیاسی ہے اور قانون پر چلتی ہے، پنجاب پولیس کو کے پی پولیس سے سبق سیکھنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: 2 نومبرکو کنٹینر لگے گا، نہ سڑکیں بند ہوں گی، اسلام آباد ہائیکورٹ

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح پنجاب پولیس نے کل خواتین پر ڈنڈے چلائے، انھیں اس پر شرم آنی چاہیے، ساتھ ہی انھوں نے پنجاب پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ شریف خاندان کے نوکر نہیں ہیں، آپ کو تنخواہ پاکستانی عوام کے ٹیکس سے ملتی ہے۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ 2 نومبر کو اسلام آباد میں بتائیں گے کہ عوام کی طاقت کیا ہوتی ہے۔

ساتھ ہی انھوں نے ایک مرتبہ وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'نواز شریف سن لو، احتساب سے پیچھے نہیں ہٹوں گا'۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضلعی انتطامیہ کو 2 نومبر کو کنٹینرز لگاکر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دھرنوں سے شہر بند کرنے سے روکنے دیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے تھے کہ کسی کو سڑکیں بند کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، چیف کمشنر یقین دہانی کروائیں کہ کوئی سٹرک بند نہیں ہوگی، کوئی ہسپتال بند نہیں ہوگا، کوئی اسکول بند نہیں ہوگا، نہ ہی امتحانات کا شیڈول تبدیل ہوگا اور حکومت کنٹینرز لگا کر سڑکیں بند نہیں کر ے گی۔

یہاں پڑھیں:اسلام آباد دھرنا: پی ٹی آئی اور حکومت کی 'تیاریاں'

معزز جج نے حکم دیا تھا کہ احتجاج کے لیے کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے جگہ مختص کی گئی ہے، لہذا سیاسی جماعتیں وہاں احتجاج کریں۔

یاد رہے کہ 2014 میں سی ڈی اے نے اسلام آباد میں سیاسی سرگرمیوں اور دھرنوں کے لیے ایک جگہ مختص کی تھی، جسے 'ڈیموکریسی پارک اینڈ اسپیچ کارنر' کہا جاتا ہے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کے اعلان کے بعد عمران خان کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے بھی احتجاج میں تیزی آئی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے مظاہروں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے اقدامات میں بھی تیزی آگئی ہے۔

عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے راولپنڈی میں جلسے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم انتظامیہ کی جانب سے یہ جلسہ منعقد ہونے سے روکنے کے لیے شیخ رشید کی رہائش گاہ کے باہر کنٹیر لگاکر علاقے کو سیل کردیا گیا تھا جبکہ نماز جمعہ کے بعد لال حویلی کی طرف مارچ کرنے والے کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سےآنسو گیس کی شیلنگ بھی کی گئی۔

دوسری جانب عمران خان کو بھی شیخ رشید کے جلسے میں جانے سے روک دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:راولپنڈی احتجاج: شیخ رشید کی بائیک پر آمد، پولیس کا لاٹھی چارج

تاہم عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اپنے اعلان کے مطابق کمیٹی چوک پہنچے، انہوں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے گلیوں سے موٹرسائیکل پر سواری کی، اور کمیٹی چوک پہنچنے پر نجی چینل کی ڈی ایس این جی وین پر چڑھ کر خطاب کیا اور پھر فوراً ہی موٹرسائیکل پر سوار ہوکر نامعلوم مقام کی جانب روانہ ہوگئے۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی اگلے ماہ 2 نومبر کو پاناما لیکس اور کرپشن کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دینے جارہی ہے اور عمران خان کا مطالبہ کہ وزیراعظم نواز شریف یا تو استعفیٰ دیں یا پھر خود کو احتساب کے سامنے پیش کردیں۔

تبصرے (0) بند ہیں