کراچی: کیل مہاسوں نے ماہر امراض جلد (ڈرموٹولوجسٹ) کے پاس پہلی دفعہ آنے والی سعدیہ کی شادی کی تیاریوں کو برباد کردیا تھا۔

صدر میں جلد کے امراض کے ہسپتال میں اپنی باری کا انتظار کرنے والی سعدیہ پریشان نظر آرہی تھیں اور چہرے پر اسی پریشانی کے واضح تاثرات کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے ہر صبح اس وقت جھٹکا لگتا ہے جب میں اپنا چہرا آئنے میں دیکھتی ہوں، میرے کیل مہاسے بدتر ہوتے جارہے ہیں، اور میں آئندہ ہفتے اپنی شادی کا سوچ کر انتہائی خوفزدہ ہوں۔‘

ڈاکٹر سے ان کی مشاورت کے بعد انکشاف ہوا کہ ان کے چہرے کا یہ حال طویل عرصے تک ’خوبصورت‘ بنانے والی کریم کے استعمال کا نتیجہ ہے۔

اپنی سہیلی کے مشورے پر کریم استعمال کرنے والی سعدیہ نے کہا کہ ’مجھے یقین نہیں آ رہا کہ یہ سب کریم کی وجہ سے ہوا ہے، شروعات میں اس نے اچھے نتائج دیئے اور میری رنگت میں بہتری آئی۔‘

اسی تکلیف دہ صورتحال سے 25 سالہ صدف کو بھی گزرنا پڑا۔ ان کا چہرہ داغ دھبوں اور کیل مہاسوں کی وجہ سے خراب ہوچکا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے بالکل اندازہ نہیں ہے کہ میرے چہرے کا یہ حال کیسے ہوا، لیکن ڈاکٹر کا اصرار ہے کہ یہ رنگ گورا کرنے والی کریم کے استعمال سے ہوا جو میں گزشتہ دو ماہ سے استعمال کر رہی ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیں: فیئرنس کریموں کے اشتہاروں سے نسلی امتیاز کا فروغ؟

سرکاری ہسپتالوں کے ماہر امراض جلد کا کہ اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’یہ چند کیسز نہیں ہیں بلکہ رنگ گورا کرنے والی کریم استعمال کرنے والی خواتین کی بڑی تعداد کیل مہاسوں، پِگمینٹیشن، جلد کا دُبلا پن، حساسیت نور اور بالوں کی ضرورت سے زیادہ نشوونما کی شکایات کرتی نظر آتی ہیں۔‘

سول ہسپتال کراچی کی سینئر ڈرموٹولوجسٹ ڈاکٹر حمیرا طلعت کا کہنا تھا کہ ’یہ خواتین کیل مہاسوں کی جس قسم کا شکار ہوتی ہیں اس سے اور ان کی کیسز کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹیرائڈ سے تیار ہونے والی کسی کریم کا استعمال کرتی رہی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اکثر ایسی مصنوعات بازاروں سے خریدی جاتی ہیں لیکن ایسے بھی مریض موجود ہیں جن کی جلد بیوٹی پارلر جانے کے بعد خراب ہوئی، کیونکہ رنگ گورا کرنے کے لیے بیوٹی پارلر سے فیشل کرانے والی خواتین کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ اس کے لیے کونسی کریمیں استعمال کی جارہی ہیں۔‘

صدر کے ’سندھ انسٹیٹیوٹ آف اسکن ڈیزیزز‘ کی ڈاکٹر مہوش نورانی کا کہنا تھا کہ وہ روزانہ تقریباً 200 سے زائد مریضوں کا معائنہ کرتی ہیں، جن میں سے 5 سے 12 مریض اس طرح کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ ’اسٹیرائڈ پر مبنی کریمیں میں خطرناک اجزا ہوتے ہیں، جبکہ مارکیٹ میں اس وقت موجود تمام رنگ گورا کرنے والی کریموں کا سائنسی تجزیہ ہونا چاہیے اور جن کریموں میں اسٹیرائڈ یا دیگر خطرناک اجزا موجود ہوں ان پر مکمل پابندی لگائی جانی چاہیے۔‘

انہوں نے بتایا کہ جن کریموں میں اسٹیرائڈ موجود ہو، ان کے چار یا اس سے زائد ہفتے استعمال سے متاثرہ حصہ سرخ ہوجاتا ہے اور کیل مہاسے اور پھوڑے نکل آتے ہیں جن میں خارش بھی ہوسکتی ہے۔‘

مزید پڑھیں: پاکستان میں گہری رنگت جرم کیوں؟

زیادہ قیمت

ڈاکٹروں کے مطابق جلد کے امراض کا شکار افراد، جن میں مرد بھی شامل ہیں تاہم ان کی تعداد خواتین کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے، ایسی کریموں کے لیے بھاری قیمت ادا کرتے ہیں جس کے بعد جلد کو پہنچنے والے نقصانات کا علاج ناصرف مہنگا ہے بلکہ مہاسوں کے علاج کے بعد رہنے والے نشانات بھی مستقل ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر مہوش نورانی نے کہا کہ ’اس طرح کی کریموں کے استعمال کے بعد کرائے جانے والے علاج میں جلد مزاحمت کرتی ہے جس کے باعث بہتری کے لیے طویل وقت درکار ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کیل مہاسوں کے علاج کے لیے مریضوں کو سب سے پہلے اس طرح کی کریموں کا استعمال فوری طور پر روکنے، خود کو دھوپ سے بچانے اور دوائیوں کے ساتھ اچھی کوالٹی کا سن بلاک استعمال کرنے کا کہا جاتا ہے۔‘

پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) کے فارماسیوٹیکل سینٹر کی سربراہ ڈاکٹر زہرا یقین نے کہا کہ آسانی سے دستیاب رنگ گورا کرنے والی کئی کریموں کا ان کے مرکز میں ٹیسٹ کیا گیا تھا اور ان کریموں میں ’کارٹیکوسٹیرائڈز‘ اور پارہ (مَرکری) کی بلند سطح پائی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: خوبصورتی اور بدصورتی

پی سی ایس آئی آر کی سینئر سائنٹیفک افسر ڈاکٹر شازیہ یاسمین نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ’رنگ گورا کرنے والی کریموں میں استعمال ہونے دیگر اجزا میں مرکری، ہائیڈرو کیونون، ایسکوربِک ایسڈ اور ٹریٹائنوئن شامل ہوتے ہیں، ان سب اجزا کے استعمال سے نقصانات ہوتے ہیں، جبکہ اسٹیرائڈز اور مرکری کے استعمال کا تو کاسمیٹکس میں استعمال کا بالکل مشورہ نہیں دیا جاتا۔‘

رابطہ کرنے پر پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) کے ڈائریکٹر جنرل محمد خالد صدیق کا کہنا تھا کہ ’رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کے خلاف شکایات کے بعد اتھارٹی نے کاسمیٹکس کے معیارات پر نظرثانی کی تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’نظرثانی کے بعد وزارت سائنس وٹیکنالوجی کو کاسمیٹکس کو تکنیکی ریگولیشن کی فہرست میں شامل کرنے کی درخواست کی ہے اور جیسے ہی اس کی منظوری ملے گی، اتھارٹی مارکیٹ میں ان کی فروخت کی چیکنگ کا آغاز کردے گی۔‘

پی ایس کیو سی اے کے نظرثانی معیارات کے مطابق کاسمیٹکس کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال میں لیڈ، آرسینک، ہائیڈروکیونین اور مرکری جیسے کارٹیکوسٹیرائڈز اور بھاری دھاتوں کا بالکل استعمال نہیں ہونا چاہیے۔


یہ خبر 5 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں