کراچی: ہوٹل ریجنٹ پلازہ کے حکام کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ آتشزدگی کے واقعے کی اطلاع کے بعد فائر بریگیڈ نے پہنچنے میں تاخیر کی۔

ہوٹل انتظامیہ کی جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جب تک آگ بجھانے کا سامان موقع پر پہنچا آگ لگے ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ہوٹل اسٹاف نے رات 3 بجے ہی فائر بریگیڈ کو آگ لگنے سے متعلق آگاہ کردیا تھا، لیکن فائربریگیڈ کے پاس آگ بجھانے کے لیے ضروری اسنارکلز اور گیس ماسک موجود نہیں تھے۔

ان کے مطابق، جب تک ضروری آلات لائے گئے اس وقت تک ہوٹل کا عملہ اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیوں کا آغاز کرچکا تھا، اور 600 افراد کو عمارت سے باہر نکالا جاچکا تھا۔

ہوٹل انتظامیہ کا مزید کہنا ہے کہ ہوٹل میں قانون کے مطابق آگ کے بچاؤ کے تمام انتظامات موجود تھے، ہوٹل کی ہر منزل پر 3 فائر ایگزٹ موجود ہیں اور ہوٹل کے تمام کمروں میں اس سے متعلق معلومات موجود ہیں۔

دو روز قبل گراؤنڈ فلور پر موجود ہوٹل کے کچن سے شروع ہوکر دیگر منزلوں تک پھیلنے والی آگ کے نتیجے میں 5 ڈاکٹروں سمیت 12 افراد ہلاک جبکہ ہوٹل میں مقیم 80 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے، کئی افراد کی ہلاکت کی وجہ ایئر کنڈشننگ سسٹم کے ذریعے کمروں میں پہنچنے والا دھواں تھا، جس میں دم گھٹنے کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔

ایک جانب متعلقہ محکمے تاحال آگ لگنے کی اصل وجہ کی کھوج میں مصروف ہیں تو دوسری جانب ہوٹل کے انتظامی امور کے سربراہ میجر محمد سعد کا خیال ہے کہ آگ کچن میں موجود کسی فریزر میں ہونے والے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی۔

ریجنٹ پلازہ کو خستہ حال بجلی کے نظام سے خبردار کیا گیا تھا

ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں ہونے والی آتشزدگی کی وجہ ہوٹل انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت تھی یا نہیں، پولیس اس حوالے سے سول ڈیفنس اور فائر ڈپارٹمنٹ کی تحقیقاتی رپورٹس کے انتظار میں ہے، ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک نجی کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک سال قبل معائنے کے بعد مالکان کو ہوٹل کے غیرمحفوظ اور خستہ حال بجلی کے نظام کے حوالے سے خبردار کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: کراچی:ریجنٹ پلازہ میں آتشزدگی، 12 افراد ہلاک

برقی تحفظ اور آڈٹ اسیسمنٹ کے نجی ادارے الیکٹریکل انسپیکٹر پاکستان (ای آئی پی) جسے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کی جانب سے ملحقہ اداروں کے دوروں کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، نے اپنی ایک سال پرانی رپورٹ میں بھی ہوٹل مینجمنٹ میں سنگین خرابیوں کی نشاندہی کی تھی۔

ای آئی پی کے انجینئر ولی محمد راہموں کا کہنا تھا کہ کے سی سی آئی کو سونپی جانے والی ذمہ داری کے مطابق ہم نگرانی کا کام سرانجام دیتے ہیں، گذشتہ سال ہم نے 2 ہوٹلوں کا معائنہ کیا تھا جن میں سے ایک ریجنٹ پلازہ ہوٹل جبکہ دوسرا وزیراعلیٰ ہاؤس کے نزدیک واقع ہوٹل ہے اور ان دونوں ہی ہوٹلز کا برقی نظام خستہ حالی کا شکار تھا۔

انجینئر ولی محمد کا مزید کہنا تھا کہ ان کی ٹیم نے دونوں ہوٹلز کی انتظامیہ کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے مشورہ دیا تھا کہ اپنے بجلی کے نظام کو جتنا جلدی ہوسکے بہتر بنایا جائے۔

انھوں نے بتایا کہ خستہ حال برقی نظام کے ساتھ دونوں ہوٹلز نہ صرف مقامی اور بین الاقوامی معیار کی خلاف ورزی کررہے تھے بلکہ ساتھ ہی الیکٹرسٹی ایکٹ اور نیپرا ایکٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لوگوں کی جان کو شدید خطرے میں بھی ڈال رکھا تھا۔

انجینئر ولی محمد کے اس انکشاف پر ہوٹل انتظامیہ کا مؤقف حاصل نہیں کیا جاسکا۔

یہ بھی دیکھیں: 'آگ لگنے کے باوجود نہ فائر الارم بجا نہ ہنگامی راستے تھے'

اسی دوران، ایس ایس پی جنوبی ثاقب اسماعیل کا کہنا تھا کہ پولیس سول ڈیفنس اور فائر ڈپارٹمنٹ سے درخواست کرچکی ہے کہ یا تو مجرمانہ غفلت کے عنصر کو واضح کریں یا واقعے کو مکمل طور پر حادثہ قرار دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں محکموں سے درخواست کی گئی ہے کہ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کریں کہ تمام حفاظتی اقدامات موجود تھے یا نہیں اور اگر نہیں تھے تو کیا ہوٹل انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت سامنے آتی ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ یہ محکمے پولیس کو بنیادی تکنیکی معلومات جیسے کہ ایمرجنسی اخراج کی موجودگی، اِن ہاؤس الارم اور فائر فائٹنگ سسٹم کی فعالی اور متعلقہ اسٹاف کے ردعمل جیسی معلومات فراہم کریں گے۔

اس ایس پی کا کہنا تھا کہ اگر متعلقہ محکمے اسے مجرمانہ غفلت کا معاملہ قرار دیتے ہیں تو پولیس طے شدہ قوانین کے تحت باقاعدہ تفتیش کا آغاز کرے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں