اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے تشدد کی شکار کم سن ملازمہ طیبہ کو پاکستان سویٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے طیبہ تشدد پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

اسلام آباد پولیس نے طیبہ پر تشدد سے متعلق میڈیکل رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں پیش کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بچی کی حالت بہتر ہوئی ہے۔

اس موقع پر بچی کے والدین محمد اعظم اور نصرت بی بی بھی عدالت میں پیش ہوئے، طیبہ کے والد محمد اعظم نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ تحصیل جڑانوالہ کے رہائشی ہیں اور ان کے تین بچے ہیں، جن میں 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے۔

طیبہ کے والد نے بتایا کہ 14 اگست 2016 کو انھوں نے ملازمت کی خاطر طیبہ کو اپنی پڑوسن نادرہ کے حوالے کیا، جس نے انھیں بتایا کہ طیبہ کو فیصل آباد کے اندر ہی ملازمت دی جائے گی جبکہ 3 ہزار ماہانہ تنخواہ اور 18 ہزار روپے ایڈوانس بھی دیئے گئے تاہم کچھ ماہ بعد پتہ چلا کہ بچی اسلام آباد چلی گئی ہے۔

طیبہ کے والد نے بتایا کہ نادرہ بی بی طیبہ کو فیصل آباد سے اسلام آباد لے گئیں اور انہیں ٹی وی کے ذریعے پتہ چلا کہ طیبہ پر تشدد ہوا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ہم فیصل آباد سے زمیندار رائے عثمان خان کھرل کی گاڑی میں اسلام آباد پہنچے، جہاں ظہور نامی وکیل نے انھیں 5 روز تک اپنے گھر میں بند رکھا، ان کا موبائل لے کر سم نکال لی گئی اور ان سے ایک کاغذ پر زبردستی دستخط کروا کے 'صلح نامہ' کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ملازمہ پر تشدد: بچی کے والد نے جج کو 'معاف' کردیا

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ نے کس کو معاف کیا ہے، جس پر طیبہ کے والد نے بتایا کہ انہیں نہیں پتہ کہ انھوں نے کسے معاف کیا ہے، تاہم انہوں نے اپنی بچی طیبہ کو حاصل کرنے کے لیے اسے معاف کیا۔

چیف جسٹس نے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) اسلام آباد پولیس کاشف اعلم کو تحقیقات کی ذمہ داری سونپتے ہوئے صاف اور شفاف تحقیقات کرکے سچائی کی تہہ تک پہنچنے کی ہدایات دیں۔

جسٹس ثاقب نثار نے میڈیکل بورڈ سے مزید وضاحتیں لینے کی ہدایت کرتے ہوئے حکم دیا کہ 10 روز میں تحقیقاتی رپورٹ پیش کی جائے۔

ڈی آئی جی اسلام آباد کی جانب سے تحقیقات کے لیے دو ہفتوں کی مہلت مانگی گئی تاہم عدالت نے استدعا مسترد کردی۔

یہ بھی پڑھیں:طیبہ کے 'والدین' کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ سے بھی سوشل میڈیا کے حوالے سے مدد لی جائے۔

چیف جسٹس نے اسلام آباد پولیس کو ہدایت کی کہ ڈی این اے رپورٹ آنے کے بعد اسی روز عدالت میں جمع کروائیں جبکہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے طیبہ کے والدین کے حوالے سے مدد لی جائے۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ملزمہ ماہین ظفر کی ضمانت قبل ازگرفتاری سمیت کیس کا جامع ریکارڈ بھی آج جمع کروایا جائے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ بتایا جائے طیبہ کو کون سی محفوظ جگہ رکھا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: 'کمسن ملازمہ طیبہ اسلام آباد سے بازیاب'

وقفے کے دوران سول سوسائٹی کے نمائندوں اور وکلاء نے مشاورت کی جس میں اتفاق کیا گیا کہ بچی کو پاکستان سویٹ ہوم میں رکھا جائے گا۔

وقفے کے بعد چیف جسٹس کو اس مشاورت سے آگاہ کیا گیا جس کے بعد سپریم کورٹ نے طیبہ کو پاکستان سویٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تاحکم ثانی کمسن ملازمہ پاکستان سویٹ ہوم میں رہے گی، چیف جسٹس نے کہا کہ امید ہے پولیس شفافیت اور ایمانداری کی اعلیٰ مثال قائم کرے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی پتہ چلایا جائے کہ بچوں کو اغوا کرکے ملازمتوں پر رکھنے کا کوئی گینگ تو کام نہیں کر رہا جبکہ دعویدار والدین کو طیبہ کے ساتھ نہ رکھا جائے، سپریم کورٹ نے انسانی حقوق کمیشن کو طیبہ سے تحقیقات کرنے سے بھی روک دیا۔

واضح رہے کہ انسانی حقوق کمیشن نے تحقیقات کے لیے طیبہ کو آج بلایا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ جو کچھ بھی ہوگا پولیس کے ذریعے ہوگا۔

تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کے تبادلے کی سفارش

دوسری جانب آئی جی اسلام آباد نے طیبہ تشدد کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کاشف عالم کا تبادلہ کرنے کی سفارش کردی۔

تبدیلی کی سفارش آئی جی اسلام آباد طارق مسعود یاسین کی جانب سے کی گئی ہے اور کاشف عالم کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حوالے کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

انسپکٹر جنرل آف پولیس اسلام آباد کے دفتر سے جاری ہونے والے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اے آئی جی کاشف عالم کی گریڈ20 میں ترقی ہوچکی ہے اب اسلام آباد میں ان کی خدمات درکار نہیں۔

مراسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 'اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کاشف عالم کی خدمات واپس لے'۔

اس کے ساتھ ہی آئی جی طارق مسعود نے گریڈ 20 میں ترقی پانے والے محمد سلیم کی تعیناتی کی سفارش کردی ہے۔

یاد رہے کہ محمد سلیم ملتان میں تعینات ہے اور حال ہی میں اس کی گریڈ 20 میں ترقی ہوئی ہے۔

طیبہ تشدد کیس—کب کیا ہوا؟

کمسن ملازمہ پر تشدد کا معاملہ اُس وقت منظرعام پر آیا تھا جب تشدد زدہ بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

ویڈیو دیکھیں: گھریلو ملازمہ پرتشدد کا مقدمہ،ایڈیشنل سیشن جج پر الزام

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

عدالت میں پیشی کے موقع پر بچی کے مبینہ والد کا کہنا تھا کہ انہیں عدالت کی جانب سے ملزم جج اور ان کی اہلیہ کو ضمانت دینے پر کوئی 'اعتراض' نہیں۔

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی اور اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں