لاہور دھماکا: ’حملہ آور ایک سے زائد تھے‘

اپ ڈیٹ 14 فروری 2017
دھماکے کے مقام سے اب بھی شواہد جمع کیے جا رہے ہیں—فوٹو: اے ایف پی
دھماکے کے مقام سے اب بھی شواہد جمع کیے جا رہے ہیں—فوٹو: اے ایف پی

لاہور: پنجاب کے وزیر قانون نے لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے خودکش حملے میں ملوث افراد کی تعداد بتاتے ہوئے اسے پولیس پر حملہ قرار دے دیا۔

ڈان نیوز سے گفتگو میں صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں لگے کیمروں کی فوٹیج میں حملے کے مقام پر 2 مشتبہ لوگوں کو آتے دیکھا گیا۔

رانا ثناءاللہ کے مطابق یہ '2 مشتبہ افراد پیدل چلتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ سے مال روڈ کی جانب آئے، دو افراد میں ایک شخص 30 سے 35 سال کی درمیانی عمر کا ہے جو شاید اس حملے میں ہینڈلر ہوسکتا ہے جبکہ دوسرے مشتبہ شخص کی عمر 15 سے 17 سال کے لگ بھگ ہے جو کہ مبینہ خودکش بمبار ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'کیمرے میں دونوں حملہ آوروں کے چہرے قابل شناخت ہیں'۔

رانا ثناءاللہ کا یہ بھی بتایا کہ حملے سے قبل مال روڈ کے ایک جانب ڈی آئی جی پولیس اور ایس ایس پی آپریشنز دیگر اہلکاروں کے ہمراہ موجود تھے جبکہ ان کی دوسری جانب مظاہرین کا ہجوم تھا، حملہ آوروں کا نشانہ پولیس تھی لہذا انہوں نے پولیس کی سمت میں بڑھ کر خود کو دھماکے سے اڑالیا۔

وزیر قانون کے مطابق ابتدائی طور پر سامنے آنے والے ان تمام شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے ادارے تحقیقات کو آگے بڑھا رہے ہیں، تاہم 'جیو فیسنگ اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کو آن ایئر کرنا تحقیقاتی کام کو متاثر کرسکتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: خون، لاشوں اور آگ سے لت پت لاہور

اس سوال کے جواب میں کہ کیا کیمرے کی فوٹیج میں دکھائی دینے والا مشتبہ ہینڈلر موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، رانا ثناءاللہ کا بتانا تھا کہ '35 سالہ اس مشتبہ ہینڈلر نے خودکش بمبار کو دھماکے سے متعلق ہدایات جاری کیں اور خود فاصلے پر کھڑا رہا'۔

دھماکے کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان میں لوگوں کا اعتماد بحال ہورہا تھا، اسٹاک ایکسچینج اوپر جارہا تھا، پی ایس ایل فائنل لاہور میں منعقد ہونے والا تھا، ملک میں باہر سے لوگ آرہے تھے اور ابھی کچھ دنوں پہلے ہی کئی ممالک کے سفیر پاکستان میں موجود تھے، یہ دھماکا ان تمام چیزوں کو متاثر کرنے کی سازش ہے'۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے خود کش حملے میں 13 افراد ہلاک اور 85 زخمی ہوگئے تھے جبکہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر

دوسری جانب ایس ایچ او سول لائنز تھانے کی مدعیت میں دھماکے کا مقدمہ سی ٹی ڈی تھانےمیں درج کرلیا گیا، مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق چیئرنگ کراس پر ہونے والے خود کش حملے میں 4 دہشت گرد ملوث تھے جن میں سے ایک نے خود کو دھماکے سے اڑالیا اور باقی 3 دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی اداروں کو جائے وقوع سے انسانی ہاتھ کی انگلیاں، جبڑا اور ٹانگ ملی ہے جس کا تعلق حملہ آور سے ہونے کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

وزیر اعلیٰ کو رپورٹ ارسال

علاوہ ازیں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو روانہ کی گئی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں حملہ آور کی عمر بیس سال بتائی گئی۔

ابتدائی رپورٹ میں خودکش دھماکے میں 6 سے 8 کلو بارودی مواد کے استعمال کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ زیادہ تر اموات کی وجہ بارودی مواد کے ساتھ موجود بال بیئرنگ کو قرار دیا گیا ہے۔

نماز جنازہ کی ادائیگی

خودکش دھماکے کے نتیجے میں ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن (ر) احمد مبین اور ایس ایس پی آپریشنز زاہد گوندل سمیت ہلاک ہونے والے 7 پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ بیدیاں ٹریننگ اسکول میں ادا کردی گئی.

نماز جنازہ میں گورنر پنجاب رفیق رجوانہ، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیرقانون رانا ثناءاللہ سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی.

مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی کے سامنے خودکش دھماکا،ڈی آئی جی ٹریفک سمیت 13 ہلاک

نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد شہداء کی میتوں کو تدفین کے لیے ان کے آبائی علاقوں کی جانب روانہ کردیا گیا۔

دھماکے میں ہلاک ہونے والے ایس ایس پی زاہد اقبال گوندل کی تدفین منڈی بہاؤالدین میں ان کے آبائی گاؤں میں کرنے کے انتظامات کیے گئے۔

سرکاری یوم سوگ

شہباز شریف کی جانب سے ایک روزہ سوگ کے اعلان کے بعد پنجاب کی تمام اہم عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں اور لاہور شہر میں کاروباری سرگرمیاں معطل رہیں.

پرائیوٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے اعلان کے بعد صوبے کے نجی اسکولز بھی بند رہے.

گنگا رام ہسپتال کا دورہ

دن کے آغاز پر وزیراعلیٰ پنجاب نے گنگا رام ہسپتال کا دورہ کیا اور وہاں موجود دھماکے کے زخمیوں کی عیادت کی اورپھول پیش کیے.

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ معصوم پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے اپنے عبرتناک انجام سے بچ نہیں سکتے، قوم اس کا بدلہ ضرور لے گی.

واضح رہے کہ گذشتہ رات دھماکے کے بعد زخمیوں اور میتوں اور گنگا رام میو، اور سروسز ہسپتال روانہ کیا گیا تھا، گنگا رام ہسپتال انتظامیہ کے مطابق وہاں لائے جانے والے مریضوں کی تعداد 72 تھی.

تبصرے (0) بند ہیں