پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری کا ایک منظر۔ تصویر راحیل قریشی
پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری کا ایک منظر۔ تصویر راحیل قریشی

اسلام آباد: پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری ( پی ایم این ایچ) ایک مچھلی کی چالس انواع دریافت کی ہیں جو پانی کے بغیر بھی زندہ رہ سکتی ہیں۔ ان مچھلیوں کو تحقیق اور شناخت کیلئے میوزیم کے متعلقہ شعبے کی جانب بھیج دیا گیا ہے۔

یہ مچھلی نوشہرہ، صوبہ خیبر پختونخواہ کے بوٹانیکل ( نباتاتی) گارڈن کے پودوں کی حفاظت کے سینٹر کی نالیوں سے سالانہ صفائی اور کھدائی کے دوران ملی ہیں۔

ایسی مچھلیاں اس سے قبل پاکستان میں رپورٹ نہیں ہوئی ہیں۔

پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے ماہرین ڈاکٹر محمد رفیق، رفاقت مسرور اور شبیر علی عامر کے علاوہ پشاور یونیورسٹی کے ڈاکٹر ضیغم حسن، ڈاکٹر باسط، قیصر جمال، سویرا اور بصیرت نے بوٹانیکل گارڈن کا دورہ کیا اور ایک نالے کے خشک حصے سے دریافت ہونے والی اس مچھلی کو معمہ حل کرنے کی کوشش کی۔

ٹیم نے ڈاکٹر محمد رفیق کی سربراہی میں مچھلی کا اہم ڈیٹا حاصل کرنے اور لیب کے کام کا آغاز کردیا ہے۔

اے پی پی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد رفقی نے کہا کہ احتیاط اور تفصیلی تحقیق کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مچھلیاں کوبیٹیدائی فیملی سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا عام نام ' اورینٹل ویدر لوک' ہے۔

یہ مچھلی جس جگہ رہتی ہے وہاں اس کے رہنے کی جگہ اکثر خشک ہوجاتی ہے ، الجی اُگ آتی ہے اور آکسیجن کم ہوجاتی ہے۔

' اس طرح کے حالات میں اس اقسام کی مچھلیاں اپنی آنت کے اگلے حصے اور جلد سے سانس لینے کا کام کرتی ہیں۔ یہ اکثر سطح پر تیزی سے رینگتی ہیں فضا سے ہوا نگل سکے اور اسی کے ساتھ آنتوں سے گیس خارج کرتی رہتی ہے۔ ان کی بعض اقسام گیلی اور چکنی مٹی میں پانی کے بغیر ریکارڈ مدت تک زندہ رہ سکتی ہیں۔

ڈاکٹر محمد رفیق کے مطابق یہ مچھلی سائبیریا ،  کوریا، جاپان، چین، شمالی ویت نام اور ممکنہ طور پر لاؤس میں پائی جاتی ہیں۔ جبکہ ان کی آبادیوں کو جرمنی ، سپین ، اٹلی ، امریکہ، کینیڈا اور قازقستان وغیرہ میں متعارف کرایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مچھلی غیر معمولی طور پر سخت جان ہے اور کئی طرح کے غذائی اور ماحولیاتی اتار چڑھاؤ کو جھیل سکتی ہے۔ اسی لئے انہیں ایلین اقسام بھی کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر رفیق نے کہا کہ تیزی سے اپنی تعداد بڑھانے کی وجہ سے اسے حملہ آور ( انویزو) مچھلی قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ ماحولیاتی اور معاشی طور پر نقصان دہ ہے یا نہیں اس کیلئے اس کی آبادی، بایولوجی اور دیگر پہلوؤں پر تحقیق کرنا ہوگی۔ اب تک یہ معلوم نہیں چل سکا کہ آیا یہ مقامی مچھلیوں پر کوئی مضر اثرات مرتب کرسکتی ہے یا نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں