لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔

دنیا کی موجودہ صورتحال شدید غیر مستحکم اور اسٹریٹجک لحاظ سے تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔

اگر سال 2023ء میں درپیش چیلنجز اور جغرافیائی سیاسی رجحانات پر نظر ڈالی جائے تو سب سے اہم پہلو ان کا غیر یقینی اور غیر متوقع ہونا ہے۔

یہ سب ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب عالمی سطح پر طاقت کا توازن تبدیل ہورہا ہے، بین الاقوامی نظام انتشار کا شکار ہورہا ہے اور کثیرالجہت تعلقات خطرات سے دوچار ہیں۔ بڑھتے ہوئے سیاسی جغرافیائی تناؤ اور عالمی معاشی اتار چڑھاؤ نے دنیا کو غیر مستحکم صورتحال میں ڈال دیا ہے۔

آنے والے سال میں اسٹریٹجک طور پر عالمی قوتوں کے درمیان تعلقات کا کردار سب سے اہم اور متحرک ہوگا۔ یوکرین جنگ کے تباہ کن معاشی اثرات عالمی اقتصادی بحالی کے عمل کو متاثر کریں گے جو پہلے سے ہی کورونا وبا کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہے۔

بین الاقوامی تھنک ٹینکس، سرمایہ کار کمپنیوں اور دیگر کی جانب سے کیے جانے والے سالانہ جائزوں میں 2023ء کے حوالے سے جن اہم رجحانات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں معاشی عدم استحکام کو ایک نئے معمول کے طور پر لیا گیا ہے۔

برطانوی میگزین دی اکونومسٹ کی دی ورلڈ اہیڈ 2023ء رپورٹ نے آج کی دنیا کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ ’یہ انتہائی غیر مستحکم، کورونا وبا کے آفٹر شاکس سے دوچار، معاشی طور پر بدحال، شدید درجہ حرارت کا شکار، سماجی اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے تیز تبدیلیوں اور عالمی قوتوں کی عداوت میں گھری ہے‘۔

ایک اہم جغرافیائی مسئلہ جو آنے والے سال پر غالب رہے گا وہ امریکا اور چین کے درمیان سنگین ہوتی مسابقت اور عالمی معیشت اور جغرافیائی سیاست پر پڑنے والے اس کے اثرات کا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان نومبر میں ہونے والی پہلی ذاتی باضابطہ ملاقات میں اس کشیدگی کو کم کرنے کا اعادہ کیا گیا۔

دونوں رہنماؤں نے ان تعلقات کو بہتر کرنے کا عہد کیا جو تاریخ میں کم ترین سطح پر ہیں اور جن کے باعث دنیا کو خدشہ ہے کہ کہیں ایک نئی سرد جنگ نہ چِھڑ جائے۔ لیکن اس ملاقات کے بعد بھی اہم معاملات پر دونوں ممالک کے درمیان موجود اختلافات اپنی جگہ برقرار ہیں۔ ان معاملات میں تائیوان، تجارتی تنازعات، ٹیکنالوجی کے شعبے میں پابندیاں اور عسکری طرزِ عمل شامل ہیں۔

مستقبل کے امکانات واضح نہیں ہیں، خاص طور پر چین کے حوالے سے امریکا کی پالیسی جو بائیڈن انتظامیہ کی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی میں بھی شامل ہے۔

چین کی جانب سے آنے والا ردِعمل ان دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید کشیدہ کردے گا۔ آنے والے دنوں میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں عدم تعاون بڑھے گا، عسکری مقابلے میں شدت آئے گی اور تائیوان تنازعہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے راستے میں رکاوٹ بنا رہے گا۔

کنٹرول رسک نامی ایک ادارے نے 2023ء میں چین-امریکا تعلقات کو جغرافیائی سیاست کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ دیگر جائزے اس تنازع کو مسترد کرتے ہیں لیکن ایشیا-پیسفک خطے میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک، چین-امریکا تصادم کے خدشے کے پیشِ نظر فکرمند ہیں۔

آنے والے سال میں یوکرین کی جنگ بھی توجہ کا مرکز رہے گی۔ یوکرین پر روسی حملے نے جغرافیائی سیاست میں ایک نئے تنازع کی نشاندہی کی ہے۔ لندن کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز نے اپنے سالانہ سروے میں کہا کہ اس تنازع کے سیاسی اور اقتصادی نتائج بھی ہیں جو عالمی منظرنامے کو نئی شکل دے رہے ہیں۔

اسی سروے میں مزید کہا گیا کہ یہ جنگ مغربی دنیا کی سلامتی کو نئی شکل دے رہی ہے اور ’یہ روس میں بھی بدلاؤ کا باعث بن سکتی ہے اور یہ عالمی سطح پر پائے جانے والے تصورات اور خدشات کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ البتہ اس جنگ کی وجہ سے مغرب کی توجہ ایشیا-پیسفک خطے سے ہٹی ہے جو پہلے اس کی ترجیح تھا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ یورپ کی سلامتی ہی مغرب کی ترجیح ہے‘۔

اس سروے میں مزید کہا گیا کہ دو اہم خطے یعنی یورو-اٹلانٹک اور انڈو-پیسفک ایک دوسرے پر منحصر ہیں کیونکہ یورو-اٹلانٹک میں ہونے والی کوئی بھی گڑبڑ بیرونی سلامتی کے وعدوں کو ناقابلِ عمل بنا دے گی جبکہ اس خطے کا کامیاب دفاع انڈو-پیسفک خطے کی جانب جھکاؤ کو جواز فراہم کرے گا۔ چاہے کوئی اتفاق کرے یا نہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر مذاکرات کے ذریعے یوکرین میں جنگ بندی نہیں ہوئی اور مذاکرات تعطل کا شکار رہے تو اس سے صرف یورپ ہی نہیں بلکہ دیگر خطے بھی عدم استحکام ہوں گے۔

جنگ کے سبب ابھرتا ہوا معاشی بحران اس امر کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ اس کے منفی اثرات کی وجہ سے عالمی سپلائی چین اور اجناس اور توانائی کی منڈیاں افراتفری کا شکار ہیں۔ یہ اتار چڑھاؤ بڑی معیشتوں پر معاشی عدم استحکام کے دباؤ میں اضافے کی وجہ بنے گا۔

یوکرین جنگ اشیائے خور و نوش میں ہوش ربا اضافے اور سنگین عالمی مہنگائی کا باعث بنی ہے۔ آنے والے سال میں زیادہ تر ممالک کی توانائی انہی مسائل سے نمٹنے میں صرف ہوگی مگر غریب اور قرضے کے بوجھ تلے دبی معیشتوں کے لیے اس مسئلے سے نمٹنا بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ غذائی عدم تحفظ سال 2023ء کا اہم چیلنج ہوگا جبکہ توانائی کا بحران بھی عالمی معاشی نظام کے لیے امتحان ثابت ہوگا۔

فِچ ریٹنگ کمپنی نے عالمی تجارتی جنگ، کورونا کی وبا اور یوکرین تنازع کی وجہ سے موجودہ اقتصادی دور کو ’دوسری جنگِ عظیم کے بعد معاشی طور پر سب سے زیادہ بدحال دور‘ قرار دیا ہے۔ اکتوبر میں آئی ایم ایف کی جانب سے متنبہ کیا گیا تھا کہ عالمی معیشت پر مزید بدترین وقت آئے گا اور بہت سے ممالک کی معیشت 2023ء میں مزید گراوٹ کا شکار ہوگی’۔

چین-امریکا مسابقت، یوکرین جنگ اور عالمی سطح پر طاقت کے توازن میں تبدیلی نئی صف بندیوں کا باعث بنی ہے اور ماضی کے اتحادیوں کو بھی دوبارہ متحرک کردیا ہے۔ کواڈ اور اوکس (آسٹریلیا، امریکا اور برطانیہ کا اتحاد) اس کی بہترین مثالیں ہیں جو چین کی ابھرتی ہوئی قوت کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی انڈو-پیسفک حکمت کا حصہ ہیں۔

چین نے بھی اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے جغرافیائی معاشی حکمتِ عملی کا استعمال کیا ہے جس سے دنیا میں اس کا اثر و رسوخ بڑھا ہے اور اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ بڑھتے ہوئے چین-سعودی عرب تعلقات نئے اتحاد کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

موجودہ جغرافیائی سیاسی ماحول میں ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایسی حکمتِ عملی اپنائیں گے جو ان کے لیے نقصاندہ نہ ہو اور کوشش کریں گے کہ وہ طاقتور ممالک کے آپسی تنازعات کا حصہ نہ بنیں۔

ایک اور ابھرتا ہوا سوال یہ بھی ہے کہ ممالک کا ایسی کثیر القطبی دنیا کے حوالے سے کیا ردِعمل ہوگا۔ کیا وہ درپیش مسائل کی بنیاد پر ہم خیال ممالک سے ہاتھ ملائیں گے یا پھر مخصوص مسائل پر عارضی طور پر متحد ہوں گے۔

یہ سوال حل طلب ہے کہ اس سب کے بعد کیسا عالمی نظام سامنے آئے گا کیونکہ موجودہ بین الاقوامی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ پولیٹیکل رسک فرم یورو ایشیا گروپ کے ہیڈ این بریمر نے ایک پُرزور دلیل پیش کی ہے کہ ’آنے والے کل کی جغرافیائی سیاست کی بنیاد صرف ایک عالمی نظام نہیں بلکہ کئی نظام ہوں گے۔ اس میں مختلف کردار چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قیادت فراہم کریں گے‘۔

2023ء میں دنیا کس سمت جائے گی اس حوالے سے اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ 2023ء میں عالمی سلامتی نظام امریکا کے ہاتھ میں ہوگا جبکہ عالمی معاشی نظام کا انحصار چین پر ہوگا۔ عالمی ڈیجیٹل نظام بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ماتحت ہوگا جبکہ عالمی ماحولیاتی نظام کا اختیار تو پہلے سے ہی مختلف ممالک کے ہاتھ میں ہے۔

2023ء میں بھی جمہوریت کو چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ اس کے مضمرات بین الاقوامی سطح پر سامنے آئیں گے۔ جب سیاسی تقسیم جمہوریت کو غیر فعال کر دیتی ہے جو بہت سے ممالک میں ہو بھی رہا ہے، تب ان ممالک کی اندرونی کمزوریاں ان کی خارجہ پالیسی اور عالمی میدان میں مؤثر طریقے سے کام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں۔

دائیں بازو کے مقبول رہنما جو اپنی ریاستوں میں عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور جمہوری اقدار کو پامال کرتے ہیں وہ عالمی معاملات میں بھی ایسی پالیسیاں اپناتے ہیں جن سے کثیرالجہتی عمل کو نقصان پہنچتا ہے۔

آنے والا سال اپنے ساتھ دنیا کے لیے جغرافیائی سیاست کا تناؤ، معاشی عدم تحفظ اور ایسے مزید چیلنجز لے کر آئے گا جس میں ماحولیاتی تبدیلی بھی شامل ہے۔ یہ چیلنجز اقوام کی انفرادی صلاحیت کے ساتھ ساتھ مشترکہ مسائل کے حوالے سے اجتماعی اقدامات کرنے کی صلاحیت کا بھی امتحان لیں گے۔


یہ مضمون 12 دسمبر 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں