زوبیدہ مصطفیٰ
زوبیدہ مصطفیٰ

سال 2022ء میں تباہ کُن سیلاب کی زد میں آنے والے صوبہ سندھ کے بیشتر علاقے 10 ماہ گزرنے کے باوجود تباہی کا منظر پیش کررہے ہیں۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو عوام کی بالکل بھی پروا نہیں ہے؟ یا پھر وہ یہ نہیں جانتے کہ ترقی کا حقیقی مطلب کیا ہے؟

عموماً یہ تصور کیا جاتا ہے کہ عمارتوں کے انفرااسٹرکچر پر رقم خرچ دینا ہی ترقی ہے پھر چاہے عمارت وہ مقصد پورا ہی نہ کرتی ہو جس کے لیے اسے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ لوگوں کا شراکت دار کی حیثیت سے ترقی میں شریک ہونا بہت سے لوگوں کے لیے غیر معمولی امر ہے۔

خیرو ڈیرو (لاڑکانہ) میں علی حسن منگی میموریل ٹرسٹ کی سربراہ نوین منگی نے اپنے تجربے سے سیکھا کہ اس طرح ترقی نہیں کی جاسکتی۔ بیرون ملک سے اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپسی پر، وہ اپنے صوبے میں غربت کے ساتھ ساتھ خیرات کے ذریعے غربت کے خاتمے کے غلط تصورات سے کافی پریشان تھیں۔

نوین منگی کی خواہش تھی کہ وہ ’باوقار ترقی کا ماڈل‘ تیار کریں۔ اسی دوران انہوں نے محسوس کیا کہ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب یہ ماڈل مقامی حالات اور مقامی آبادی کی ذہنیت کے مطابق ہو۔ یوں 15 سال کی سخت محنت، کامیابیوں اور ناکامیوں کے بعد ایک ماڈل تیار ہوا۔ حیرت انگیز طور پر، سیلاب اور اس کے نتائج کی وجہ سے اس عمل میں تیزی دیکھنے میں آئی۔

ان کے ٹرسٹ نے 4 بنیادی اصول اپنائے جن میں سے پہلا یہ ہے کہ لوگوں کی عزت نفس اور وقار کو برقرار رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں اس کے لیے انہیں کچھ نہ کچھ دینا بھی پڑتا ہے۔ دوسرا اصول یہ کہ دکھاوے اور فضول خرچ سے گریز کیا جائے تاکہ غربا کے لیے اخراجات کم اور قابل برداشت ہوں۔ تیسرا یہ کہ لوگوں کی ضروریات اور ترجیحات کا پہلے سے اندازہ لگایا جائے تاکہ موقع کے ساتھ ساتھ ان کی بتدریج تکمیل کی جاسکے۔ آخر میں، تمام گروہوں میں ملکیت کا احساس پیدا کرنا چاہیے کیونکہ یہ کسی منصوبے کو پائیدار بنانے اور لوگوں کی جانب سے اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لینے کے لیے ضروری ہے۔

2022ء تک یہ ٹرسٹ کافی متحرک ہوچکا تھا۔ ٹرست کے تحت گھروں کی تعمیر کا ایک پروگرام شروع کیا گیا اور بیت الخلا اور سولر پینل کے منصوبوں نے مالکان کو اپنے گھروں کو بہتر کرنے کے قابل بنایا۔ اس سے مستفید ہونے والوں میں خیرو ڈیرو کے رہائشیوں کے علاوہ آس پاس کے 300 گاؤں کے خاندان بھی شامل تھے۔

صحت اور آبادی کا پروگرام اور ایک کمیونٹی اسکول کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو سلائی کی تربیت دینے کا منصوبہ بھی متعارف کروایا گیا۔ کسانوں کو ایک امدادی پروگرام کے ذریعے بااختیار بنایا گیا جس سے انہیں کم قیمت پر اپنی زمین میں ہل چلانے کے لیے ٹریکٹر فراہم کیے گئے۔ اس طرح اب تک 107 کسان اس سہولت سے مستفید ہوچکے ہیں۔

جب اگست 2022ء میں سیلاب آیا تو ابتدائی اثرات کے فوری بعد ہی امدادی کام شروع کرنا پڑا۔ یہ جانتے ہوئے کہ سر پر چھت لوگوں کی پہلی ترجیح ہے، مکانات کی تعمیر نو پر فوری توجہ دی گئی۔ ایک ہفتے کے اندر ہی پروجیکٹ منیجر رمز علی نے سروے کے ذریعے نقصانات کے تخمینے اور تعمیر نو کے پروگرام کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ بارش اور سیلاب سے متاثر ہونے والے تمام گھروں کی مرمت یا تعمیر نو کر دی گئی ہے۔ اس طرح 132 دیہاتوں کے ایک ہزار 50 خاندانوں کو ریلیف فراہم کیا گیا اور ایسا لگتا ہے کہ تعمیر نو کے عمل میں کوئی چیز ضائع نہیں ہوئی۔ ٹوٹے گھروں کے ملبے سے جو قابل استعمال سریا اور اینٹیں ملیں انہیں دوبارہ استعمال میں لایا گیا۔ ٹرسٹ نے مطلوبہ سامان اور 10 مستریوں کی خدمات فراہم کیں لیکن دیگر اخراجات اور مزدوری میں مقامی لوگوں نے حصہ ڈالا تھا۔

سیلاب کے بعد سامنے آنے والے دیگر چیلنجز کا بھی مقابلہ کیا گیا۔ ’سستو دکان‘ منصوبے کے ذریعے اس مہنگائی (جو کہ دیہی علاقوں میں 40 فیصد ہے) میں کم نرخوں پر بنیادی خوراک مہیا کی گئی ہے۔ رمز علی نے سب سے زیادہ متاثرہ 75 یومیہ اجرت کمانے والے افراد کی شناخت کے لیے ایک سروے کیا جس کی بنیاد پر انہیں راشن کارڈ جاری کیے گئے۔

متاثرہ علاقوں میں ایک اور بڑا چیلنج جرائم کی روک تھام تھا جس کا مقابلہ 10 تربیت یافتہ افراد پر مشتمل کمیونٹی پولیس بنا کر کیا گیا جو لاٹھیوں، ٹارچوں اور واکی ٹاکیز سے لیس تھی تاکہ وہ رات کے وقت داخلی اور خارجی راستوں پر گشت کرسکیں اور یوں خیرو ڈیرو کے عوام سکون کی نیند سو سکیں۔

صفائی ستھرائی کی صورتحال کو سیلاب نے مزید خراب کر دیا تھا۔ طوفان کے پانی کی نکاسی نہ ہونے نے اس مسئلے کے حل کو مزید پیچیدہ کردیا۔ ٹرسٹ نے 7 کارکنوں پر مشتمل صفائی کا عملہ تشکیل یا جس کی ذمہ داری کھلے نالوں سے کچرا صاف کرنا تھا جس کی وجہ سے پانی کی روانی متاثر ہوتی ہے اور بارش ہونے پر پانی میں اضافہ ہوتا ہے۔

اسے کہتے ہیں حقیقی ترقی۔ خیرو ڈیرو کے باشندے ان اخراجات میں حصہ ڈالتے ہیں تاکہ وہ باوقار زندگی گزار سکیں۔ وہ پُراعتماد ہیں کیونکہ اپنے مسائل خود حل کرنے کا طریقہ سیکھ چکے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خواتین اب ان ذمہ داریوں کو بانٹنے کے لیے گھروں سے باہر آ رہی ہیں۔ ٹرسٹ کے دفتر میں اب 6 خواتین کام کر رہی ہیں جہاں کچھ سال پہلے کوئی خاتون نہیں تھی۔

چند سال قبل آپس کی لڑائی نے انہیں خون ریزی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا لیکن اب یہاں اتفاق کی فضا قائم ہوچکی ہے۔ یہ تبدیلی نوین منگی کی باشعور قیادت کے بغیر ہر گز ممکن نہیں تھی۔


یہ مضمون 24 جون 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں