’اٹھوں، بیٹھوں، کھانسوں، تیز چلوں یا چھینک ماروں۔۔۔ ہر بات میں زندگی عذاب ہے۔ کیا کروں؟‘ ادھیڑ عمر خاتون کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ ایک دعوت میں ہمارے پاس بیٹھی تھیں اور ہماری گائناکالوجی سے مستفید ہونا چاہتی تھیں۔

’ایسا کب سے ہے؟‘ ہم نے خاتون سے سوال کیا۔

انہوں نے جواباً کہا ’چار پانچ برس ہوگئے‘۔

’پھر کیسے گزارہ کرتی ہیں؟‘

’اگر گھر میں ہوں تو بار بار شلوار تبدیل کرتی ہوں۔ کسی دعوت میں جانا ہو تو ڈائپر پہنتی ہوں۔ مگر سب سے زیادہ تکلیف نماز کی ادائیگی میں ہوتی ہے جب نماز کے دوران پیشاب کے قطرے خارج ہوجائیں۔۔۔ کیا کروں؟‘

یہ سن کر ہم نے ان سے کہا ’آپ کا معائنہ کرنا ضروری ہے۔ آپ میرے کلینک آجائیے گا‘۔

وہ دوسرے دن ہی آگئیں۔ انہیں ہم بتا چکے تھے کہ مثانہ خالی نہیں ہونا چاہیے اس لیے معائنے سے پہلے باتھ روم نہیں جانا۔ انہوں نے ہماری ہدایات پر عمل کیا تھا۔ معائنے والی میز پر لٹا کر ہم نے انہیں کھانسنے کو کہا۔ جونہی وہ کھانسیں، پیشاب خارج ہوتا ہوا نظر آیا۔

بچہ دانی اپنی جگہ پر تھی، مثانہ بھی نیچے نہیں تھا مگر مثانے کا منہ ڈھیلا ہوچکا تھا۔ جب بھی جسم کا پریشر کچھ بڑھتا، پیشاب کے قطرے خود بخود خارج ہونے لگتے۔ اس مسئلے کو اسٹریس انکانٹیننس (stress incontinence) کہتے ہیں۔

مثانہ ایک ایسی تھیلی ہے جس میں پیشاب اکٹھا ہوتا ہے جو گردے بنا بنا کر بھیجتے رہتے ہیں۔ گردے اور مثانے کے درمیان رابطہ پیشاب کی نالیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ مثانہ پیشاب کو جمع کرتا رہتا ہے کیونکہ پیشاب کو جسم سے خارج کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک اس کی سہولت موجود نہ ہو۔

250 ملی لیٹر (پیپسی کا چھوٹا کین) پر جاکر جسم کو احساس ہوتا ہے کہ مثانے میں پیشاب جمع ہورہا ہے۔ 400 ملی لیٹر سے زیادہ پیشاب آرام سے روکا نہیں جا سکتا۔ جوں جوں مثانہ پیشاب کی وجہ سے پھیلتا اور بڑا ہوتا ہے، مثانے کا منہ یعنی یورتھرا سختی سے بند رہتا ہے۔ یہ ایک ایسی بوتل کی مانند ہے جو الٹی لٹکی ہوتی ہے۔

ویجائنا، یورتھرا اور مقعد نہ صرف ہمسائے ہیں بلکہ ان کو کنٹرول کرنے والے اعصاب (نروز) کا بھی آپس میں گہرا تعلق ہے۔

نارمل زچگی میں بچے کا سر ویجائنا میں دو سے تین گھنٹے تک رہتا ہے۔ چھوٹی فٹبال کی مانند اس سر کا وزن ویجائنا کی دیواروں پر پڑتا رہتا ہے۔ ویجائنا ایک ٹیوب کی طرح کا عضو ہے جو اتنا بڑا نہیں ہوتا لیکن بچے کے سر کی موجودگی سے ویجائنا کے عضلات کھچ کر اس اسے جگہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ کھنچاؤ عضلات کو توڑتا پھوڑتا ہے اور ڈھیلا بھی کرتا ہے۔

بچے کو باہر نکالنے کے لیے لگائی جانے والی طاقت ویجائنا کے مسلز اور اعصاب یعنی نروز کو بھی متاثر کرتی ہے۔ نہ صرف ویجائنا بلکہ اس کی زد میں یورتھرا اور مقعد بھی آتے ہیں۔ زچگی سے ہونے والے ان نقصانات کا جوانی میں پتا نہیں چلتا لیکن مینو پاز کی وجہ سے ہارمونز کی کمی، بڑھتی عمر اور عضلات کی ٹوٹ پھوٹ اور ڈھیلے پن کے بعد ہی ایک عورت جان پاتی ہے کہ اس کے جسم کے ساتھ ہوا کیا؟ یورتھرا کے عضلات اور نروز کی کمزوری انہیں اس قابل نہیں چھوڑتی کہ اب وہ پیشاب سے بھرے مثانے کو کنٹرول کرسکیں۔

زچگی کے سالوں بعد کمزور مثانے کی صورت میں اس کے اثرات سامنے آتے ہیں
زچگی کے سالوں بعد کمزور مثانے کی صورت میں اس کے اثرات سامنے آتے ہیں

نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جونہی خاتون چھینک مارتی ہے، کھانستی ہے، اٹھتی بیٹھتی ہے، وزن اٹھاتی ہے، سیڑھیاں چڑھتی ہے، مثانے میں موجود پیشاب کمزور یورتھرا کے راستے باہر نکلنا شروع کر دیتا ہے۔ یعنیٰ مثانے پر کنٹرول ختم۔ یہ وہ ہرجانہ ہے جو خاتون کو زچگی کے برسوں بعد بھرنا ہے اور زیادہ تر کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔

ایک اور بنیادی عنصر موٹاپا، لٹکا ہوا پیٹ اور ورزش کی کمی ہے۔ یہ کمزور مثانے کو مزید کمزور کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یورتھرا ایک بار کمزور ہوجائے تو دواؤں سے مضبوط نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے مختلف قسم کے آپریشن ہیں جو مریض کی حالت اور خواہش کے مطابق کیے جاتے ہیں۔

پیشاب کسی وجہ سے بھی خطا ہو، اس کی ابتدا ہسٹری لینے سے ہوتی ہے۔ موٹاپا، ذیابطیس، زچگی، مینوپاز وغیرہ۔

اگلے مرحلے میں مریض کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ پہلے پرینیم (ویجائنا، مقعد اور یورتھرا کے باہر والا حصہ) کو دیکھا جاتا ہے کہ کوئی نقص ہے یا نہیں؟ مثانہ اگر نیچے آگیا ہو تو اسے cystocele کہا جاتا ہے، مقعد اگر اپنی جگہ سے ہل کر ویجائنا میں بیٹھا ہو تو یہ Rectocele کہلاتا ہے۔

ایسی حالت میں خاتون کو کھانسنے کو کہا جاتا ہے۔ کھانسی کے ساتھ اگر یورتھرا سے پیشاب کے قطرے ٹپکنے لگیں تو یہ اسٹریس انکانٹیننس ہوگا۔ اگر نہ ٹپکیں تب بھی اس کے معنی یہ نہیں کہ اسٹریس انکانٹیننس موجود نہیں۔ بچے دانی کے سائز اور پوزیشن کے لیے Bi-manual examination بھی کیا جاتا ہے۔

stress incontinence میں چھینک یا جسم میں کسی بھی طرح کا پریشر بننے سے خواتین کا پیشاب خارج ہوجاتا ہے
stress incontinence میں چھینک یا جسم میں کسی بھی طرح کا پریشر بننے سے خواتین کا پیشاب خارج ہوجاتا ہے

اسٹریس انکانٹیننس کے ٹیسٹ کرنے کے لیے مغرب نے اسپیشل مشین بنائی ہے اور اس ٹیسٹ کو Urodynamic studies کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں یہ سہولت موجود ہے۔ ٹیسٹ میں الٹرا ساؤنڈ کے بعد سب سے اہم Urodynamic studies ہے جو گائناکالوجی کی ایک شاخ یوروگائنی کے ماتحت ہے۔ پیشاب سے متعلقہ ٹیسٹ، تشخیص اور علاج یوروگائنا کالوجسٹ کو کرنا ہوتا ہے۔ پچھلے بلاگ میں ہم نے جن لِنڈاکارڈوزو کا ذکر کیا وہ مشہور یوروگائناکالوجسٹ ہی تھیں۔

اس ٹیسٹ کے بعد علاج کا اصول ایک ہی ہے ’Treat the cause‘۔

اگر اسٹریس وجہ ہے تو مختلف قسم کے آپریشن موجود ہیں جو یورتھرا کو تنگ کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ٹرانس ویجائنل ٹیپ اور ٹرانس یورتھرل ٹیپ اس کی مثال ہیں۔ اگر cystocele ہو تب بھی آپریشن کیا جاتا ہے۔ مثانے کو مضبوط کرنے کے لیے ٹانکے لگا کر ویجائنا کا فالتو حصہ نکال دیا جاتا ہے جبکہ urge incontinence کا علاج دواؤں سے کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں جسم سے زیادہ ذہن کا عمل دخل ہوتا ہے۔

گائناکالوجی ایک محنت طلب شعبہ ہے لیکن ہمارے یہاں ہر کسی نے اسے گلی محلے کی سائنس بنا کر رکھ دیا ہے۔ لہٰذا کوشش کریں کہ اپنے معاملات کے لیے کسی ماہر کے پاس جائیں تاکہ جسم کو مزید ٹوٹ پھوٹ سے بچایا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں