Dawnnews Television Logo

آزاد فضاء کے لیے عمر کا بڑا حصہ قربان کردینے والی فہمیدہ

ان کا کوئی ملک نہیں تھا۔ زبان ہی ان کا ملک تھا۔ انہوں نے زبان میں اپنے لیے ایک دنیا تیار کر لی تھی۔
شائع 16 دسمبر 2018 09:46am

وہ خود کو آدھی رات کے بچوں میں سے قرار دیتی تھیں: یعنی وہ چند بدقسمت بچے جو کہ عین اس آدھی رات کو پیدا ہوئے جس نے برِ صغیر میں تقسیم کی دراڑیں ڈال دیں جس سے ہندوستان اور پاکستان کی دو نئی جدید قومی ریاستوں نے جنم لیا۔

ایک ہی لحظے میں ہم موجودیت بالکل ختم ہو کر رہ گئی۔ ایک ایسا ملک جہاں کئی زمانوں سے کئی مختلف ثقافتیں باہمی امن کے ساتھ رہی تھیں، وہ اچانک ہی ایک دوسرے سے مختلف قرار پائیں: ایک جانب ہندو، دوسری جانب مسلمان۔ قرونِ وسطیٰ کی یہ ہندوستانی تاریخ، جسے کالونیل دور کی تاریخ دانی کے ذریعے مرتب کیا گیا ہے، وہ اس وقت ختم ہوگئی جب ان دونوں برادریوں نے اس مفروضے کو تسلیم کر لیا اور فیصلہ کر لیا کہ انہیں علیحدہ ملک چاہیئں۔

میرٹھ کے میدان جہاں رامائن نے جنم لیا انہیں چھوڑنا پڑا اور فہمیدہ کے والد ریاض الدین احمد جو کہ ایک اسکول ٹیچر تھے، ان کا تبادلہ صوبہ سندھ میں ہوگیا تاکہ وہ نئے ملک کو ایک قومی تعلیمی پالیسی کی تیاری میں مدد دے سکیں۔ نئے ملک کے مرد ایک 'مسلم' قومی ثقافت کے لیے بے تاب تھے جس طرح ان کے پڑوسی ایک 'ہندو' قومی ثقافت کے لیے۔

اور دوسری جانب، ایک خاتون فہمیدہ نے جلد ہی جان لینا تھا نئی قوم کے تحفظ کی مردانہ خواہشات کو جلد ہی عورت کے جسم میں ایک استعارہ مل جائے گا۔

درحقیقت ہوا بھی یہی، سرحدوں کے دونوں اطراف۔ پہلے یہ تقسیم کے اپنے قتلِ عام سے شروع ہوا۔ دونوں اطراف کے مردوں نے عورتوں کو اغواء کیا کیونکہ انہیں دوسرے ملک کا سمجھا جاتا تھا، اور اس سے یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ ہم نے تمہاری قوم کی بے حرمتی کی ہے۔ ریپ ایک استعارہ بن گیا اور عورت کے جسم کی دشمن قوم کے اندر تک اتر گیا۔ چنانچہ اپنی قوم کو دوسرے سے محفوظ رکھنے کا ایک طریقہ 'اپنی' عورتوں کو محفوظ رکھنا تھا۔

70 اور 80 کی دہائی کے درمیان کا حصہ اس بعد از کالونیل صدمے کے عروج کا دور تھا۔ ہندوستان میں اندرا گاندھی کی موت کے موقع پر ایسے پوسٹر جاری کیے گئے جس میں انہیں ہندوستانی سپاہی کے کندھوں پر سوار خون آشام ماں کے طور پر دکھایا گیا تھا۔

1970 کے دوران لتا منگیشکر نے ایک ساڑھی پہن کر اسٹیج سنبھالا جو کہ ہندوستانی پرچم کے ڈیزائن کی تھی۔ انہوں نے 'اے میرے وطن کے لوگو' گانا تھا۔ عورت کا جسم ہندوستان کی علامت تھا۔ پاکستان میں بھی اسی طرح کی متشابہات دکھائی دیں: سیاسی منظرنامے پر ضیاء الحق سامنے آئے اور انہوں نے مسلم قوم پرستی کا وہ روپ متعارف کروایا جس سے ہم کبھی بھی واقف نہیں تھے۔ حدود قوانین 1979 میں نافذ کیے گئے۔ خواتین کو ثقافتی طور پر درست چیزوں کی تربیت دی جانی تھی۔ فہمیدہ اس وقت 32 سال کی تھیں۔ صرف 5 سال قبل ہی انہوں نے 'بدن دریدہ' لکھا تھا اور ان کے خلاف ایک طوفان کھڑا ہوگیا تھا۔

بدن دریدہ کو 'مسلم ثقافت' (مردوں کے لیے اس کا جو بھی مطلب ہو) سے متضاد قرار دیتے ہوئے فحش قرار دیا گیا۔ فہمیدہ نے یہ کلیکشن لندن میں تحریر کی تھی جہاں انہوں نے خود کو یونیورسٹی آف سندھ سے گریجوئیشن کے فوراً بعد ایک ناخوش شادی میں پایا۔ وہ خود کو سیاسی طور پر باشعور تصور نہیں کرتی تھیں۔ انہوں نے خود کو زندگی اور شادی تک ویسے ہی محدود کر لیا جیسے کوئی مسافر ایک چلتی ٹرین کی کسی خالی نشست پر بیٹھ جائے۔

لندن میں فہمیدہ وقت گزاری کے لیے 2 کام کیا کرتی تھیں: وہ بی بی سی ریڈیو پر خبریں پڑھتیں اور انہوں نے لندن فلم اسکول میں ایک فلم سازی کے کورس میں داخلہ لے لیا۔ مگر جلد ہی مڈل کلاس شادی شدہ زندگی کے مسائل نے ان کا احاطہ کر لیا۔ 1969 سے 1974 کے بیچ کا دورانیہ ایک ذاتی سانحے کے احساس سے لبریز تھا۔ بدن دریدہ ان 6 سالوں کے درمیان تخلیقی صلاحیتوں کے ایک غیر معمولی دورانیے میں لکھا گیا تھا جس کے اختتام پر فہمیدہ طلاق حاصل کر کے پاکستان لوٹنے میں کامیاب رہیں اور ادبی حلقوں میں شہرت حاصل کر لی۔

مگر ٹرومین کیپوٹ نے لکھا تھا کہ شہرت کی روشنی کے کچھ رنگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آپ کی جلد برباد کر سکتے ہیں۔ فہمیدہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ان کی نظمیں سیکس، مذہب، عورت ذات، حمل اور ماہواری کے بارے میں تھیں۔ پاکستان بدن دریدہ جیسی کتاب کے لیے تیار نہیں تھا اور ضیاء کے قانون کے تحت تیزی سے بدل رہا تھا جس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ قومی عزت خواتین کے جسموں کے اندر ہے۔ فہمیدہ کو بلیک لسٹ کر دیا گیا مگر وہ یہاں رہنے کے لیے پرعزم تھیں اور کتاب تحریر کرنے کے دوران اور شادی سے باہر آنے کی وجہ سے بالکل تبدیل ہو چکی تھیں۔

تیز دھار تنقیدی نظموں نے ایک کے بعد ایک ادبی جریدوں کے صفحات پر جگہ بنانی شروع کی جس کا نشانہ ضیاء کی جانب سے عورتوں کے جسموں کو 'اسلامی' قوم کی عزت سے تشبیہہ دینا تھا۔ جب ضیاء نے ملک بھر کی خواتین کے لیے کالی چادر کو لازم قرار دیا تھا تو فہمیدہ نے چادر اور چار دیواری کے نام سے نظم لکھ کر جواب دیا:

حضور میں اس سیاہ چادر کا کیا کروں گی

یہ آپ کیوں مجھ کو بخشتے ہیں بصد عنایت

نہ سوگ میں ہوں کہ اس کو اوڑھوں

غم و الم خلق کو دکھاؤں

نہ روگ ہوں میں کہ اس کی تاریکیوں میں خفت سے ڈوب جاؤں

نہ میں گناہ گار ہوں نہ مجرم

کہ اس سیاہی کی مہر اپنی جبیں پہ ہر حال میں لگاؤں

اگر نہ گستاخ مجھ کو سمجھیں

اگر میں جاں کی امان پاؤں

تو دست بستہ کروں گزارش

کہ بندہ پرور

حضور کے حجرۂ معطر میں ایک لاشہ پڑا ہوا ہے

نہ جانے کب کا گلا سڑا ہے

یہ آپ سے رحم چاہتا ہے

حضور اتنا کرم تو کیجے

سیاہ چادر مجھے نہ دیجئے

سیاہ چادر سے اپنے حجرے کی بے کفن لاش ڈھانپ دیجئے

اس نظم پر بہت تنقید ہوئی اور اسے ملک بھر میں جمہوریت کی بحالی کے لیے احتجاجی مظاہروں میں پڑھا جانے لگا۔ فہمیدہ جنہوں نے یونیورسٹی آف سندھ سے فینن اور آسیہ جبار کو پڑھ رکھا تھا، جانتی تھیں کہ ڈی کالونائزیشن (یعنی کالونیل دور ختم کرنے کے مرحلے) میں پردہ ایک انتہائی اہم تشخص تھا۔ انہوں نے ڈی کالونائزیشن کی اس مردانہ صورت کو برا بھلا کہا۔ فینن نے خود بھی کالونیل پراجیکٹ کو اپنی کتاب A Dying Colonialism میں 'Algeria Unveiled' یعنی الجیریا کا نقاب اترنا قرار دیا ہے۔ انہوں نے الجیریا کو ایک برقع پوش خاتون قرار دیا ہے جسے کالونائز کرنے والے کی جانب سے بے پردگی کا خدشہ ہے۔ ریٹا فاکر نے بعد میں اسے ریپ کا استعارہ قرار دیا۔

ڈی کالونائزیشن کے ایسے مردانہ اقدامات میں الجیریا کو ایسی خاتون کے طور پر دکھایا گیا جسے ضرور پردہ کر کے کالونیل ازم کو مسترد کرنا ہوگا۔ مردوں پر مشتمل ایک قوم میں خاتون ایک چیز سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی۔

چنانچہ فہمیدہ کی اولین نظموں میں وہ چیز واضح نظر آتی ہے جسے گائیتری اسپیواک "اس بات کا احساس" کہتیں کہ "قوم اور شناخت درحقیقت ایسی قیمتی اشیاء ہیں جن کا آپس میں تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔ اور خواتین اس تبادلے کا ذریعہ ہیں۔"

بدن دریدہ ایسی ڈی کالونائزیشن کا پہلا اظہار بنا جو کہ مردانہ نہیں تھی، جس میں خواتین کے مسائل سے پہلوتہی نہیں کی گئی تھی۔ فہمیدہ نے بذاتِ خود اردو زبان میں ایک نئی تحریک کی شروعات کی۔ انہوں نے عملی طور پر اس چیز سے آغاز کیا جسے میری نسل ڈی کالونیل فیمینیزم کہے گی۔ مگر ضیاء خوش نہیں تھے۔ کتاب کی اشاعت اور ادبی جریدوں میں درجن بھر دیگر نظموں کی اشاعت کے بعد فہمیدہ پر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 124 (الف) کے تحت بغاوت کا الزام لگایا گیا اور انہیں ہندوستانی ایجنٹ اور غدار قرار دیا گیا۔

چنانچہ دیگر تمام غداروں کی طرح انہیں بھی جلاوطن کر دیا گیا جس طرح قبیلوں سے کچھ لوگوں کو نکال دیا جاتا ہے کیونکہ قبیلے شناختی یکسانیت کے اصول کے تحت چلتے ہیں۔ اور چونکہ 'مختلف' لوگ ہم جیسے نہیں ہوتے اور یہ مختلف لوگ یکسانیت کے لیے اندر سے خطرہ ہوتے ہیں۔

مگر وہ ہندوستانی ایجنٹ نہیں تھیں کیونکہ ہندوستان بھی کالونیل دور کے بعد پاکستان جیسے ہی مراحل سے گزرا تھا اور وہاں پر بھی مردانہ ڈی کالونائزیشن کی وہی صورتیں جنم لے رہی تھیں جن کے خلاف فہمیدہ پاکستان میں مزاحم تھیں۔

مگر پھر بھی فہمیدہ نے ہندوستان میں اپنی ہندوستانی فیمینسٹ لکھاری دوست امرتا پریتم کی مدد سے جلاوطنی اختیار کر لی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی دہلی میں مستقل شاعرہ اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سینیئر ریسرچ فیلو کی حیثیت سے وابستہ ہوگئیں۔ یہیں پر فہمیدہ نے سنسکرت سیکھی اور 2018 میں جب انہوں نے واپس ہندوستان کا دورہ کیا تو انہوں نے ہندوستان میں ہندو قوم پرستی پر تنقید پر مبنی ایک نظم پڑھ کر حاضرین کو حیران کر دیا۔ نظم کا عنوان تھا "تم بھی ہم جیسے نکلے"

تم بالکل ہم جیسے نکلے

وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن

جس میں ہم نے صدی گنوائی

آخر پہنچی دوار توہارے

کون ہے ہندو کون نہیں ہے

تم بھی کرو گے فتویٰ جاری

کیسا ویر مہان تھا بھارت

کتنا عالی شان تھا بھارت

یہ بہت ہی نایاب بات ہے کہ کوئی جلاوطنی میں اپنی میزبانی کرنے والے ملک پر ایسی تنقید کرے۔ مگر فہمیدہ کے لیے یہ بات نایاب نہیں تھی۔ ان کا کوئی ملک نہیں تھا۔ زبان ہی ان کا ملک تھا۔ انہوں نے زبان میں اپنے لیے ایک دنیا تیار کر لی تھی۔

وہاں وہ اپنے جیسی ہندو عورتوں سے مختلف نہیں تھیں جن سب کو اپنی صنفیت کی وجہ سے پتہ تھا کہ وہ اپنے جسم اور خون کے اعتبار سے مردوں اور قوم سے زیادہ ایک دوسرے سے منسلک تھیں۔

جنرل ضیاء ایک طیارہ حادثے میں ہلاک ہوگئے۔ فہمیدہ 1988 میں کراچی واپس آگئیں۔ انہوں نے 2 ناولز اور شاعری کے کئی مجموعے شائع کروائے۔ اس نکتے پر فہمیدہ بین الاقوامی فیمینسٹ حلقے میں ایک اہم آواز بن چکی تھیں اور اکثر ادبی مذاکروں میں اپنی تخلیق پڑھنے کے لیے یورپ و امریکا کے دورے کیا کرتے۔ اور جہاں وہ ڈی کالونائزیشن کے تناظر میں پیدا ہونے والے اسلامو پسندی اور ہندوتوا کی مختلف شکلوں کی نقاد تھیں تو وہیں وہ اسلامو فوبیا کی ان صورتوں کی بھی اتنی ہی مخالف تھیں جو کہ 11 ستمبر کے بعد سیکولر لبرل سفید فام فیمینسٹ لکھاریوں کے کام میں نظر آنا شروع ہوا۔ ان کے کریئر کے اس دور میں انہوں نے آئی ایم ایف اور امریکا کی سامراجی پالیسیوں کے خلاف کئی نظمیں لکھیں جو کہ 'آدمی کی زندگی' میں شامل ہیں۔

اور اس لمحے کو کون بھول سکتا ہے جب فہمیدہ نے 2011 میں نیو یارک میں پین امیریکا ایشیاء سوسائٹی کے زیرِ اہتمام ایک ادبی مذاکرے میں حاضرین کو اس وقت حیران کر دیا جب منتظمین نے ان کا تعارف "اسلامی دنیا کی عظیم ترین خواتین آوازوں" میں سے ایک قرار دیا۔

فہمیدہ نے اسٹیج سنبھالا اور طنزیہ انداز میں جواب دیا: "میں خود کو یہ جواب دینے سے روک نہیں پا رہی کہ مجھے ایک پریسبیٹیرین کرسچن ملک میں آ کر بہت خوشی ہو رہی ہے جہاں پروٹیسٹنٹ عیسائی رومن کیتھولک عیسائیوں کے ساتھ امن سے رہ رہے ہیں اور انہیں قتل نہیں کر رہے۔" پورا ہال اس جواب پر قہقہوں سے گونج اٹھا۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: "دیکھیں، ہم امریکا کو ایک عیسائی ملک کی طرح نہیں دیکھتے مگر آپ ہمیں مسلمان کی طرح دیکھتے ہیں۔" پھر انہوں نے ایڈورڈ سعید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "درحقیقت یہی وہ چیز ہے جسے ایڈورڈ سعید استشراق (اوریئنٹل ازم) کی ایک قسم قرار دیتے، ہے نا؟ پہلے آپ ان کا تعارف ایسے کروائیں، پھر آپ انہیں ایسا محسوس کروائیں۔" بالآخر ایونٹ کے منتظمین نے فہمیدہ سے عوامی طور پر معذرت کی۔

اس طرح فہمیدہ نے ہر چیز کو صرف سیکولر یا مذہبی قرار دینے کی مزاحمت کی جو کہ ان کے نزدیک کالونیل ازم کا بنیادی طریقہ کار تھا۔

کالونیل ازم درحقیقت اوریئنٹل ازم کے ذریعے نافذ کیا گیا ایسا مرحلہ ہے جو کہ خوف کو بھی بنیاد بنا سکتا ہے اور پسندیدگی کو بھی۔ خوف پر قائم اوریئنٹل ازم (فوبک اوریئنٹل ازم) اس وقت عیاں تھا جب سفید فام فیمینسٹ 'تیسری دنیا کی مسلم خواتین' کو پسماندہ، روایت پسند، رجعت پسند اور بچائے جانے کے انتظار میں قرار دے کر انہیں بچانا چاہتے تھے۔

پسندیدگی پر قائم اوریئنٹل ازم اس کا الٹ تھا: یہ بعد از کالونیل دور کے مردوں کا رویہ تھا جو گندمی رنگت والی فیمینسٹ خواتین کو یہ یقین دلانا چاہتے تھے کہ فیمینزم ایک 'جدید' تصور ہے اس لیے انہیں اپنی "آبائی ثقافت" کی جانب لوٹ جانا چاہیے۔

اور فہمیدہ، جو نظریاتی طور پر دونوں ہی جانب جذباتی طور پر موجود تھیں، نے خود کو ایک دہری مشکل میں پایا۔ اسپیواک کے الفاظ میں: "یعنی ایک تقسیم شدہ وفاداری کے درمیان، ایک عورت ہونے کی وجہ سے، ایک قوم میں ہونے کی وجہ سے، اور مغرب کو خود کو بچانے کی اجازت دیے بغیر۔"

تو فہمیدہ نے اس واضح تضاد کا حل کیسے نکالا؟ انہیں ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ ہم بھول رہے ہیں کہ فہمیدہ بالآخر ایک ترجمہ نگار تھیں اور ایک ترجمہ نگار جانتا ہے کہ ثقافت کا کوئی جوہر نہیں ہوتا۔ اور ثقافت کا اظہار زبان کے بغیر کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ زبان آگے بڑھتی ہے، ثقافت آگے بڑھتی ہے۔

ترجمہ نگاری پر فہمیدہ کے خوبصورت تصورات نہ صرف ان کی جانب سے کیے گئے عطیہ داؤد، شاہ عبداللطیف بھٹائی، مولانا رومی اور فروغ فرخ زاد کے ترجموں کے دیباچوں میں دکھائی دیتے ہیں بلکہ ان کے چشم کشا انٹرویوز میں بھی ہمارے ذہنوں کی آبیاری کرتے ہیں۔

وہ انگلش، اردو، سندھی اور فارسی روانی سے بول سکتی تھیں اور انہوں نے ان زبانوں کو اس حد تک اپنا لیا تھا کہ انہیں کسی ایک ثقافت یا کسی ایک لسانی روایت سے جوڑنا ناممکن ہوگیا تھا۔

اکثر اوقات انٹرویو کرنے والے ایسا کرنے کی کوشش کرتے اور ان کے کام میں قوم پرست مقاصد تلاش کرنے کی کوشش کرتے۔ اگر ان انٹرویوز کو تحریر کیا جائے اور پھر پڑھا جائے تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ انٹرویو کرنے والے اور دینے کے درمیان تناؤ موجود ہے۔ وہ انٹرویو کرنے والے کی طرح بات کاٹنے سے انکار کرتیں بالکل اسی طرح جس طرح انہوں نے قوم کو یکسانیت کی منطق سے دیکھنے سے انکار کر دیا تھا۔

یہ تناؤ بھی صنفی تھا: انٹرویو کرنے والا مرد انہیں ایک 'آبائی' ثقافت اپنانے پر قائل کرتا اور وہ اس کوشش کو سبوتاژ کر دیتیں۔ سبوتاژ وہ اہم چیز جو ان انٹرویوز کو آگے لے کر چلتی ہے۔ فہمیدہ کے ساتھ یہ ہمیشہ شطرنج کے کھیل کی طرح تھا۔ وہ ہماری بات چیت کے درمیان یہ کھیل کھیلنا پسند کرتی تھیں۔ یہ گفتگو بہت ہی گھماؤدار ہوا کرتی تھیں۔ میں ان کے بارے میں خاموش رہنا پسند کروں گا۔

میں سبوتاژ پر واپس آتا ہوں: یعنی حضور کی مشین کو اندر سے برباد کر دینا۔ فہمیدہ انٹرویو کرنے والے کو اس انداز میں جواب دیتیں کہ اس کے سوال کی اندرونی، پریشان کن منطق سامنے آ جاتی اور اس کا سوال سبوتاژ ہو جاتا۔ مثال کے طور پر ریختہ کے ساتھ اس تاریخی انٹرویو کو کون بھول سکتا ہے جب فہمیدہ سے پوچھا گیا کہ: "آپ نے 'جدید' نظمیں کیوں لکھیں؟ آپ غزل بھی لکھ سکتی تھیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ "مشرقی ثقافت" میں اپنی کلاسیکی اصناف موجود ہیں، تو پھر "مغربی" اصناف کی نقالی کیوں کی جائے؟"

اس موقع پر فہمیدہ ان کے چہرے کی طرف کم دیکھ رہی تھیں بلکہ ان کی روح کو جھانک رہی تھیں۔ لبوں پر نیم مسکراہٹ سجائے وہ ان کی شخصیت کا گہرائی سے جائزہ لے رہی تھیں۔ اس وقت ان کی نظر بالکل ان لوگوں کی طرح تھی جو ہر بات سے آشنا ہوتے ہیں۔

’دیکھیں بات یہ ہے،‘ انہوں نے اپنی بات کی تمہید باندھی، ’اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ادبی اصناف تاریخی تناظر سے جڑی ہوتی ہیں تو آپ بالکل غلط ہیں۔ اصناف میں دیگر سے متاثر ہونے کا عمل جاری رہتا ہے، اصناف کی روح نہیں ہوتی۔ چلیے میں آپ سے سوال پوچھتی ہوں، ماضی میں ‘مغرب‘ نے پھر کس کی نقل کی یا پیروی کی؟ غالباً انہوں نے اپنی ادبی اصناف وہیں سے اٹھائی ہیں جسے آپ ’مشرق‘ پکارتے ہیں۔ فرانس میں فرینچ اصناف اسپین سے آئیں، اور ہسپانوی اصناف نے عربی اصناف سے جنم لیا۔ 14 ویں صدی کے اسپین کی مثال لیجیے۔ ہم جانتے ہیں کہ تاریخی اعتبار سے یہ وہی دور تھا کہ جب یورپ اور اسلامی تہذیبوں کی ایک دوسرے سے زبردست انداز میں ہم آہنگی پیدا ہوئی۔ اگر ایسا امتزاجی عمل واقعی ہوا تھا ، تو پھر کون سی چیز ’مغربی‘ رہی اور کون سی ’مشرقی‘، آپ ہی بتائیے؟ ہم اصناف کی ابتدا کیسے تلاش کریں گے؟

"اور آپ کی منطق کے حساب سے تو پارلیمانی جمہوریت بھی ایک 'مغربی' نظامِ حکومت ہے۔ تو کیا ہمیں اسے 'مغرب' کو لوٹا دینا چاہیے؟ نہیں۔ کیونکہ ہم اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم نے اسے 60 سال تک بغیر کسی مسئلے کے استعمال کیا ہے۔ ہم اسے اس لیے استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ کارآمد نظامِ حکومت ہے۔ آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ثقافت کا کوئی جوہر نہیں ہوتا۔ ثقافتیں آگے بڑھتی ہیں اور ایک دوسرے میں ضم ہو جاتی ہیں اور نئی ثقافتیں پیدا کرتی ہیں۔ ثقافت اسی طرح جنم لیتی ہے۔ ثقافتوں کا ٹکراؤ نہیں ہوتا۔"

ذہانت سے بھرپور دیباچوں اور انٹرویوز جو کہ اب سیکھنے کے خواہشمندوں کے لیے موجود ہیں، کے ذریعے فہمیدہ نے ثقافت کو ترجمہ نگاری قرار دیا۔ ثقافت کا کوئی جوہر نہیں ہو سکتا کیونکہ ثقافت زبان کی طرح ہمیشہ ترجمہ کی جا سکتی ہے۔ ریمنڈ ولیمز اسے جانتے تھے۔ فہمیدہ ایک پرعزم ثقافتی نظریہ دان اور فیمینسٹ ہونے کے ناطے اپنے کام کے اندر اس تحریک کو سمجھ چکی تھیں۔ ترجمہ وہ ڈی کالونیل فیمینسٹ آلہ بن گیا جس کے ذریعے تاریخ اور ثقافتوں کی کالونیل دور میں ترتیب اور روایتی/جدید، ہندو/مسلم/مشرقی/مغربی، میں تقسیم اور نفرت/پسندیدگی پر قائم اوریئنٹلسٹ ادوار، سبھی پر سوالیہ نشان لگا دیا گیا۔ اپنی ترجمہ نگاری کے ذریعے فہمیدہ زمانوں اور جغرافیے کی قید سے آزاد ہو سکتی تھیں۔ ان کی زندگی کی کوئی ایک نکاتی منطق نہیں تھی۔

یہ تھی فہمیدہ ریاض کی زبردست شخصیت۔

جب ان کی موت کا وقت قریب تھا تو فہمیدہ نے ایک خاص طور پر مشہور نظم 'انقلابی عورت' لکھی۔ اس نظم میں ایک بوڑھی عورت اس حقیقت پر افسردہ ہے کہ اس کی زندگی کے کئی سال اس سے تنازعات، سیاست، اور مزاحمت میں الجھ جانے کی وجہ سے چھن گئے۔ مگر اس نظم کی آخری سطر میں اس افسردگی کی مذمت کرتے ہوئے یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تاریخ ذاتی بہتری سے بالاتر ہے۔ یہی جمہوریت کے معانی ہیں: یعنی خود کو مٹا دینا اور دوسرے کی زندگی بن جانا۔ اجتماعی بہتری کے لیے کام کرنا۔ عورت انقلاب میں اور عورت بحیثیت انقلاب۔

رن بھومی میں لڑتے لڑتے میں نے کتنے سال

اک دن جل میں چھایا دیکھی چٹے ہو گئے بال

پاپڑ جیسی ہوئیں ہڈیاں جلنے لگے ہیں دانت

جگہ جگہ جھریوں سے بھر گئی سارے تن کی کھال

دیکھ کے اپنا حال ہوا پھر اس کو بہت ملال

ارے میں بڑھیا ہو جاؤں گی آیا نہ تھا خیال

اس نے سوچا

گر پھر سے مل جائے جوانی

جس کو لکھتے ہیں دیوانی

اور مستانی

جس میں اس نے انقلاب لانے کی ٹھانی

وہی جوانی

اب کی بار نہیں دوں گی کوئی قربانی

بس لاحول پڑھوں گی اور نہیں دوں گی کوئی قربانی

دل نے کہا

کس سوچ میں ہے اے پاگل بڑھیا

کہاں جوانی

یعنی اس کو گزرے اب تک کافی عرصہ بیت چکا ہے

یہ خیال بھی دیر سے آیا

بس اب گھر جا

بڑھیا نے کب اس کی مانی

حالانکہ اب وہ ہے نانی

ظاہر ہے اب اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی

آسمان پر لیکن تارے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے

رات کے پنچھی بول رہے تھے

اور کہتے تھے

یہ شاید اس کی عادت ہے

یا شاید اس کی فطرت ہے

ہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو خود کو حاصل مراعات کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارا بہت سا سکون اور احساسِ تحفظ ان فیمینسٹ ماؤں کے درد اور قربانیوں کی وجہ سے ہے جو ہم سے پہلے آئیں اور گزریں۔

فہمیدہ اپنی زندگی کسی بھی اور شخص کی طرح گزار سکتی تھیں اور اپنے الفاظ میں "انقلاب لانے کے لیے اتنی دیوانی" نہ ہوتیں، مگر پھر ہم میں سے کئی کے پاس وہ ادبی فضاء نہ ہوتی جس میں ہم سانس لے سکتے، لکھ سکتے، ڈی کالونائز کر سکتے، جس میں ہم سوچ سکتے۔ آزادانہ انداز میں سوچنے کے لیے فہمیدہ نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ قربان کر دیا تاکہ یہ فضاء قائم کی جا سکے۔

میں اس مضمون کو ان کی یاد سے منسوب کرتا ہوں۔

— پینٹنگ بشکریہ حفصہ زبیر

انگلش میں پڑھیں.