Dawnnews Television Logo

کووِڈ 19 میں اور اس کے بعد پاکستان کو تعلیم دینا: کیا اسکول کھولنا کافی ہے؟

ایک اندازے کے مطابق کووِڈ 19 کے دوران اسکولوں کی بندش سے 9 لاکھ 30 ہزار بچوں کے ہمیشہ کے لیے اسکول چھوڑ نے کا امکان ہے۔
شائع 25 جنوری 2021 12:29pm

سال 2020 کے اوائل میں کووِڈ19 کے مہلک پھیلاؤ کے دہانے پر پاکستان تعلیمی اداروں کی بندش کو ادارہ جاتی بنانے کے لیے مجبور ہوا۔

وائرس کو معاشرے کے کم عمر ترین طبقے تک پہنچنے سے روکنے کے لیے دنیا بھر کے کمرہ جماعت (کلاس رومز) لاک ڈاؤن کردیے گئے اور پاکستان سمیت ترقی پذیر دنیا نے بھی اس عمل کی پیروی کی۔

یہ عالمی وبا ان ممالک میں تعلمی بحران میں معاونت کررہی ہے جہاں مراعات یافتہ طبقے اور غیر مراعات یافتہ طبقے میں تقسیم بڑھ رہی ہے، اس دوران عملی کمرہ جماعت کو انٹرنیٹ میں تبدیل کرنے کے مواقع کی سنگین کمی کی وجہ سے غریب ایک مرتبہ پھر الگ رہ گیا۔

گزشتہ سال کے موسم گرما میں 54 فیصد گھرانوں کی آمدن میں تیزی سے کمی نے ملک بھر میں خاصی غربت اور بھوک ظاہر کی، تعلیم ان گھرانوں کی بنیادی ترجیحات سے کہیں دور ہے۔

اس برس بین الاقوامی یومِ تعلیم دنیا پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ آگے آئیں اور کووِڈ 19 نسل کی تعلیم کے احیا اور بحالی کے لیے کوششیں کریں۔

پاکستان اپنے بچوں کی تعلیم پر عالمی وبا کے تباہ کن اثرات سے لڑنے میں کتنا پیچھے ہے؟

اسکولوں سے منقطع ہونا

پاکستان میں گزشتہ برس مارچ میں وبا کے باعث 3 لاکھ سے زائد اسکول بند ہوئے اور اس کے بعد مالی و معاشی تناؤ آیا، عالمی بینک کی رپورٹس کے مطابق یہ صورتحال شرح غربت کو 79 فیصد تک لے جاسکتی ہے۔

وائرس کی پہلی لہر اختتام پذیر ہوئی تو اسکولوں سے لاک ڈاؤن ہٹایا گیا اور طالبعلموں کو دوبارہ عملی کمرہ جماعت میں بلا لیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ کتنے بچے اسکولوں کو واپس آرہے ہیں۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں فوری طور پر تعلیم میں عدم مساوات ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

یہاں دیکھیے کہ کس طرح کچھ پاکستانی والدین اور طالبعلموں نے گزشتہ برس اسکولوں کے کھلنے پر ردِ عمل دیا۔

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ملک میں 2 کروڑ 20 لاکھ بچے جو پہلے ہی اسکولوں سے باہر تھے ان میں سے تقریباً 9 لاکھ 30 ہزار بچے وبا کے باعث اسکول سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔

بے روزگاری کی وجہ سے والدین کی آمدن میں تیزی سے کمی آئی، زیادہ تر بچے اب کمرہ جماعت کے بجائے کام کرتے نظر آتے ہیں، توقع ہے کہ اسکول سے باہر موجود بچوں میں سے 10 لاکھ بچے دوبارہ کمرہ جماعت نہیں دیکھیں گے۔

اور صرف یہاں اختتام نہیں.

اس اندھا دھند، بڑے پیمانے پر طلبہ کے اسکولوں سے نکلنے کے ساتھ ساتھ عالمی وبا ملک میں لڑکیوں کی تعلیم کی رکی ہوئی پیش رفت کے لیے بھی خطرہ ہے۔

سب سے زیادہ غریب والدین کے لیے جب وسائل مزید کم ہوئے تو لڑکیوں کی تعلیم پہلے سے کہیں زیادہ ثانوی حیثیت اختیار کر گئی۔

بڑی ڈیجیٹل تقسیم: کیا انٹرنیٹ تک رسائی ہمارے بحران کے لیے مزید پیچیدہ ہے۔

جہاں وبا دنیا کے اہداف، انسانی وسائل کو ترقی دینے اور غریب کے خاتمے کی کوششوں کو ختم کرنے کے درپے ہے وہیں یہاں اس بحران کو چیلنج کرنے کے لیے بہت معمولی کام کیا جاسکتا ہے۔

ایک جانب جہاں ریاست نے دور دراز تعلیمی سلسلے کو فروغ دینے کے لیے قابل ذکر ای-پورٹلز، ٹی وی اور ریڈیو پروگرام متعارف کروائے، وہیں ہمارے پاس اس واضح سوال کا جواب آنا باقی ہے کہ کیا اچھا انٹرنیٹ ہمارے کمرہ جماعت کے مسائل کا حقیقی جواب ہے۔

کووِڈ 19 کے دور میں پاکستان میں ملالہ فنڈ کی ایجوکیشن چیمپیئن نیٹ ورک کے تعاون سے تیار کردہ ایک رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ ایسے گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں جہاں انٹرنیٹ تک رسائی ہے انہیں اکثر کسی ڈیوائس کے استعمال کی 'اجازت' نہیں ہوتی۔

درححقیقت لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں پر گھر کے کام کاج میں وقت صَرف کرنے یا دیگر سرگرمیوں میں حصہ لینے پر زور دیا جاتا ہے۔

پاکستان کے بیشتر شہروں کے غریب اور دور دراز علاقوں کے باشندوں کے لیے وبا کے ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے والے برسوں میں ایک عام زندگی کے بنیادی پہلو دسترس سے ماورا ہیں۔

اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپ حتیٰ کہ بنیادی ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز عوام کےلیے دستیابی سے کوسوں دور ہیں، تیز رفتار براڈ بینڈ کنیکشنز نہ صرف دستیابی سے دور بلکہ مہنگے بھی ہیں اور ملک کے بڑے شہروں کے باہر ایک خواب کی طرح، مراعات یافتہ ہونے کا نشان ہیں۔

خیبرپختونخوا کے دور دراز علاقوں میں والدین اور اساتذہ کو یقین ہے کہ بچوں کو تعلیم کی اس سطح تک پہنچنے کے لیے خاصہ وقت درکار ہے جہاں وہ وبا کے باعث لگائے گئے لاک ڈاؤن سے قبل تھے۔

اس میں سے بہت کم بچے ہی مالی مشکلات کے سبب کی جانے والی نوکریاں چھوڑ کر اسکول جانے کی ضرورت محسوس کریں گے۔

حالانکہ یہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے کوئی حیرت کی بات نہیں لیکن یہ صورتحال انٹرنیٹ ڈیوائس کی پیشکش سے کہیں زیادہ بڑی مداخلت مانگتی ہیں۔

پاکستانی کمرہ جماعت دوبارہ بھرنے کی کوششیں

اگر تعلیم کا نقصان اتنا ہی بڑا رہا جتنا ابھی ہے تو پاکستان کی معیشت کو 67 سے 155 ارب ڈالر کا نقصان ہوگا، کہا گیا ہے کہ معاشی نقصان گزشتہ 2 سے 5 برسوں میں حکومت کی جانب سے تعلیم پر خرچ کی گئی رقم کے برابر ہے۔

طلبہ کو واپس کمرہ جماعت میں پہنچانے کی جانب ملک گیر مستحکم اقدامات کے لیے متعدد پروگرامز تعلیم کا معیار اور مساوات یقینی بنانے کی کوششوں میں مالی تعاون فراہم کررہے ہیں۔

ان موجوہ پروگرامز میں سے ایک یورپی یونین ڈیولپمنٹ کا سندھ میں تعلیم کے فروغ کا پروگرام (ڈیپ) ہے جو 2006 سے تعلیمی اصلاحات کی معاونت کررہا ہے۔

اسکولوں سے باہر موجود وہ بچے جن کا تعلیمی سلسلہ متاثر ہوا ان کی ضروریات میں مدد فراہم کرنے کے لیے یورپی یونین نے سال 2014 سے 2020 کے دوران 21 کروڑ یورو فراہم کیے۔

سال 21-2020 کے دوران عالمی بینک نے بھی ان ایک کروڑ 91 لاکھ بچوں کے لیے جامع تعلیمی نظام کی مدد کے لیے 2 کروڑ امریکی ڈالر مختص کیے جنہوں نے عالمی وبا سے پڑنے والے معاشی بحران کے سبب اسکولوں سے باہر رہنے کا انتخاب کیا۔

مارچ2020 میں پاکستان میں یونیسیف کے دفتر نے ریسپانس پلان تشکیل دینے میں معاونت کے لیے وزارت تعلیم کے لیے ایک لاکھ 40 ہزار ڈلر کی جی پی ای گرانٹ مختص کی۔

علاوہ ازیں متعدد ایپلیکیشنز، پورٹلز اور ٹی وی شو مثلاً ملالہ فنڈ ایجوکیشن چیمپیئن، ہارون یٰسین کی تعلیم آباد ایپ اور حکومت کا ای-تعلیم پورٹل بھی زیادہ سے زیادہ بچوں تک رسائی کے لیے اپنے اسباق کی بنیاد کو توسیع دے رہا ہے تاکہ کووِڈ19 کے تباہ کن اثرات مندمل ہونے تک گھر میں تعلیم حاصل کرنے کی عادت کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔