کراچی کی مچھر کالونی کے روز و شب کیمرے کی آنکھ سے۔۔۔

قاسم علی کراچی کی مچھر کالونی کے مکینوں کی روزمرہ زندگی کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں۔ ان منتخب تصاویر میں دیکھیے کہ کیمرے کی آنکھ سے مچھر کالونی کیسی دکھتی ہے۔
شائع 05 اکتوبر 2023 04:54pm

2012 میں، میں نے مچھیرہ کالونی جسے مچھر کالونی بھی کہا جاتا ہے، میں سماجی ترقی کے منصوبوں پر کام شروع کیا اور کمیونٹی کے بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ اس میں مصروف تھی۔

مچھر کالونی تقریباً 8 لاکھ مکینوں کی ایک غیرسرکاری بستی ہے جو بندرگاہ اور لیاری کی پرانی بستی کے قریب واقع ہے۔ اس کے باسیوں میں 65 فیصد افراد بنگالی ہیں جن میں سے زیادہ تر ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو تخلیقی عمل میں شامل کرنے سے متعلق ایسے کسی بھی اقدام میں میری دلچسپی بڑھتی گئی جہاں وہ آرٹ کے ذریعے اپنی زندگی کا اظہار کرسکیں۔ ان اقدامات میں مچھر کالونی کا فیس بک پیج میرے سامنے آیا۔ میں اس اقدام کو حقیقت بنانے کے لیے پردے کے پیچھے کام کرنے والے افراد کے حوالے سے تجسس میں مبتلا ہوگئی۔


طبقاتی تقسیم: تفریحی سہولیات کی کمی کو مقامی سطح پر ہی پورا کرنے کی کوشش۔ تاہم اب بھی ایسے بچے ہیں جو اس جھولے کا معمولی کرایہ بھی نہیں دے سکتے۔ وہ جھینگے کی فیکٹریوں کے باہر اپنی ماؤں کا انتظار کرتے ہوئے محرومی کا احساس لیے ان جھولوں کو تکتے ہیں۔


اسی تجسس کی وجہ سے میں نے فیس بک پیج پر درج رابطہ نمبر پر پیغام بھیجا اور اس دلچسپ پروجیکٹ کے ذمہ داران سے ملاقات کی درخواست کی۔ اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے تین نوجوان میرے فیلڈ آفس میں آئے۔ قاسم علی بھی ان میں شامل تھے۔

ہماری پہلی ملاقات میں یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ دیگر دو نوجوانوں کے مقابلے میں قاسم علی زیادہ بات نہیں کرتے۔ تاہم میں ان کے پروجیکٹ کے حوالے سے مزید جاننے کی خواہاں تھی۔ میں نے اس پروجیکٹ کے محرکات اور اپنی کمیونٹی کے لیے وقف ایک سوشل میڈیا پیج چلانے کا طریقہ جاننے کے لیے اصرار کیا۔

ہماری بات چیت کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ اس فیس بک پیج کا خیال قاسم علی تھا جوکہ اس منصوبے کے منیجر کے طور پر بھی کام کررہے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قاسم سے میری متعدد مرتبہ بات چیت ہوئی لیکن جس دوران انہوں نے امکان ویلفیئر آرگنائزیشن کے تحت چلنے والے سمر آرٹ پروگرام میں آرٹ ٹیچر کی حیثیت کام کیا تب میری ان سے بہتر واقفیت ہوئی۔ وہ دن بچوں کے لیے بہت خوشی کے تھے کیونکہ قاسم علی نے آرٹ کی کلاسز کو آزادی، اظہار اور خوشیاں بکھیرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔

قاسم علی جنہیں یہاں کے مکین پیار سے ڈی جے قاسم کہتے ہیں، وہ مچھر کالونی میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی عمر سے ہی انہوں نے آرٹ میں دلچسپی لینا شروع کی اور آج وہ ایک خود آموز فنکار اور فوٹوگرافر کے طور پر کام کررہے ہیں اور ڈی جے ریمکس پروڈیوسر کے طور پر اپنی شناخت بنانے کے خواہش مند ہیں۔


فش ڈرائنگ فیکٹری کے مناظر: کھلے آسمان کے نیچے لکڑی کے تختوں پر مچھلیوں کو خشک کیا جاتا ہے جس سے اس منظر میں کئی رنگ شامل ہورہے ہیں۔ سورج کی شعاعوں نے ان مچھلیوں کا رنگ تبدیل کردیا ہے۔


قاسم علی کے فنی سفر کا آغاز بچپن میں کارٹونز کے شوق سے ہوا۔ انہوں نے اینی میٹڈ کارٹون دیکھ کر ڈرائنگ کرنا سیکھا۔ مشاہدے اور مشق کے ذریعے انہوں نے اس فن میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو نکھارا۔ یوں خود اپنی محنت سے انہوں نے ایک فنکار کے طور پر اپنے مستقبل کے سفر کی بنیاد رکھی جوکہ بطور فوٹوگرافر ان کی مہارت سے عیاں ہے۔ موسیقی سے ان کا لگاؤ خود کو بہتر بنانے کے عزم اور تخلیقی اظہار کی نہ بجھنے والی پیاس سے ظاہر ہوتا ہے۔

ان کی کہانی صرف مشکل حالات میں آگے بڑھتے رہنے کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ اپنی کمیونٹی کو بہتر بنانے کے عزم اور اپنی فنکارانہ سوچ کے ذریعے دنیا کو بہتر بنانے کے ان کے خوابوں سے متعلق بھی ہے۔


سمندری حیات جس پر انسانی حیات کا انحصار ہے: ان جھینگوں کو جمع کرنے کے بعد چھیلا جاتا ہے اور پھر انہیں سورج کی روشنی میں خشک کیا جاتا ہے۔ اس پورے عمل میں اہم کردار بچوں کا ہوتا ہے جوکہ اس کام میں معاونت کرتے ہیں۔


قاسم علی کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو اپنی کمیونٹی کے بچوں تک فنون اور تعلیم کی رسائی ممکن بنانا ہے۔ شہر کے دیگر پسماندہ علاقوں کی طرح مچھر کالونی کے رہائشی بھی مختلف مشکلات کا سامنا کررہے ہیں، خصوصی طور پر اس کمیونٹی کی بڑی تعداد کے پاس شناختی کارڈ نہیں جس کی وجہ سے ان کے بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔

تاہم قاسم علی کو تعلیم اور آرٹ کی طاقت پر پورا یقین ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان دونوں ذریعوں سے کمیونٹی میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ امکان یوتھ کے رہنما کے طور پر تخلیقی صلاحیت اور آرٹ سیکھنے کے بعد اپنے محلے میں انہوں نے خود کو نوجوانوں کے لیے ایک مثال بنایا ہے۔


خوابوں کی دنیا: شمس الدین محلے میں ایک ایسی جگہ پر سوئمنگ پول بنایا گیا ہے جہاں پہلے ایک باڑہ ہوا کرتا تھا، یوں یہ مقامی لوگوں کی تفریح کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ اس سے قبل یہاں بکریاں اور گائیں پانی پیا کرتی تھیں۔ صفائی کی ناقص صورتحال کے باوجود بچے 3 گھنٹے کے لیے 30 روپے ادا کرتے ہیں اور یوں وہ اپنی روزمرہ زندگی سے وقفہ لے کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔


اپنے فیس بک پلیٹ فارم کے ذریعے قاسم علی ایسی تصاویر شیئر کرتے ہیں جن میں مقامی افراد کی زندگی کو بہترین انداز میں عکس بند کیا گیا ہوتا ہے۔ یہ دل کش تصاویر مچھر کالونی میں مقیم لوگوں کی روزمرہ کی زندگیوں، جدوجہد اور کامیابیوں کا ایک منفرد رُخ فراہم کرتی ہیں۔


قاسم علی: انہیں ڈی جے بھی کہا جاتا ہے بہت سی فنکارانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ وہ معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے آرٹ کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں اور مچھر کالونی میں عوامی آرٹ کے بڑے حامی ہیں اور وہ نوجوانوں کو اس جانب راغب کرتے ہیں۔


ایک رقص: دن کے اختتام پر ایک بزرگ صوفی موسیقی کی خوبصورت تال پر رقص کررہے ہیں جنہیں دیکھنے بچے اور نوجوان سب آتے ہیں اور یوں وہ اپنی روزمرہ کی زندگیوں کی مشکلات کو بھول جاتے ہیں۔

دو دنیائیں، ایک تصویر: اس تصویر میں دو مختلف دنیائیں ایک ساتھ نظر رہی ہیں۔ ایک چھوٹا بچہ کتاب پڑھنے میں مشغول ہے جوکہ تعلیم کی اہمیت اور اسے حاصل کرنے کی جستجو کو بیان کرتا ہے، اس کی نظریں اپنے روشن مستقبل کی جانب مرکوز ہیں جبکہ دوسری جانب اسی عمر کا ایک اور چھوٹا بچہ خوشی خوشی غبارے بیچ کر اپنے خاندان کے لیے چار پیسے کمانے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ تصویر بچپن کے خوابوں اور تلخ حقیقتوں کے درمیان موجود نازک توازن کو ظاہر کرتی ہے جس کا سامنا بہت سے لوگ کرتے ہیں۔

بچوں کا صبر: ایک جانب جہاں مائیں جھینگوں کی فیکٹری میں مزدوری کرتی ہیں، ان کی بیٹیاں باہر صبر کے ساتھ اپنی والدہ کے واپس آنے کا انتظار کرتی ہیں۔ اس انتظار کے دوران یہ بچیاں کبھی کبھار اپنی بھوک کو مٹانے کے لیے آئس کریم بھی کھاتی ہیں۔

لہراتے جھنڈے اور خودی کی تلاش: کشتیوں پر لہراتے پاکستانی جھنڈے کے نیچے یہ نوجوان اپنی شناخت اور وابستگی سے متعلق سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ یہ سمندر شناخت کی تلاش کے اس سفر کا آئینہ دار ہے۔ مچھر کالونی میں مقیم بہت سے بنگالیوں کو شناختی کارڈ دینے سے انکار کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی قومی شناخت سے محروم ہیں۔

سکون کے لمحوں کی تلاش: کام کے درمیان ایک آدمی بظاہر تھکا ہوا بیٹھا ہے جس نے پورا دن گٹرلائن ڈالنے کا کام کیا ہے۔ آرام کا یہ لمحہ محض ایک وقفہ اور کام کے انتھک مطالبات سے فرار کا ایک راستہ ہے۔ یہ اپنی کمیونٹی کے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے لگن سے کام کرتے ہیں۔

مچھر کالونی کی گلیاں: یہاں کی سڑکیں اور گلیاں اسٹریٹ فوڈ کی خوشبو سے مہکتی ہیں، اور یہاں گاہکوں کا شور واضح طور پر سنائی دیتا ہے۔ دنیا کے اس کونے میں اس طرح کی شامیں امید اور ثابت قدمی کے جذبے کو ظاہر کرتی ہیں۔


یہ مضمون 24 ستمبر 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔