’گزشتہ 15 سال میں ایک بھی خاتون قیدی ووٹ نہ ڈال سکی‘

کیا آئندہ عام انتخابات 2024 میں کسی سیاسی جماعت کے منشور میں قیدیوں کے ووٹ پر توجہ دی جارہی ہے؟
شائع 29 دسمبر 2023 04:43pm

’جیل میں 17 سال ہوگئے ہیں، یہاں کبھی کسی کو ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے دیکھا نہ ہمیں اس کا طریقہ کار معلوم ہے، الیکشن کے دوران ٹی وی پر دوسرے لوگوں کو ووٹ ڈالتے ہوئے دیکھتے ہیں تو بہت غصہ آتا ہے کہ ہم اپنا یہ حق کیوں استعمال نہیں کرسکتے؟ کیا ہم پاکستان کے شہری نہیں ہے؟‘

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سینٹرل ویمن جیل کی قیدی عائلہ احمد (فرضی نام) نے عام انتخابات میں اپنے اہم کردار کی نفی کو چند الفاظ میں ہمارے سامنے بیان کیا۔

عام انتخابات کے دوران کئی خواتین ووٹ دینے سے محروم ہوجاتی ہیں، اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں خاندان کے مردوں کا دباؤ، دقیانوسی سوچ، عورتوں کا باہر نہ جانا، شناختی کارڈ کے مسائل، پولنگ اسٹیشن اور سیاسی آگاہی نہ ہونا سمیت دیگر مسائل درپیش ہوتے ہیں۔

ایسے مسائل پر خبریں آئے روز گردش کرتی رہتی ہیں، مثال کے طور پر الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق اگر ہم 2018 کے عام انتخابات کی بات کریں تو پاکستان میں ووٹ دینے کی اہل خواتین کی تعداد 4 کروڑ سے زیادہ تھی جن میں سے ایک کروڑ 21 لاکھ 70 ہزار ایسی خواتین تھیں جو ووٹر فہرستوں میں شامل نہیں تھیں۔

ان ایک کروڑ 21 لاکھ 70 ہزار خواتین میں وہ قیدی بھی شامل تھیں جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ جیل سے بھی ووٹ کاسٹ کیے جاتے ہیں۔

یہ رپورٹ انہی خواتین قیدیوں کے ووٹ کے حق کے مسائل کو اجاگر کرے گی اور ساتھ ہی یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ گزشتہ 3 بار ہونے والے انتخابات میں کراچی کی خواتین قیدیوں کے ووٹ دینے کی شرح کیا تھی۔

اس سے متعلق یہ جاننے کی بھی کوشش کریں گے کہ الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت کی جانب سے خواتین قیدیوں کے ووٹ دینے کے حقوق سے متعلق کیا اقدامات کیے جارہے ہیں۔


قیدیوں کے ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق قانون کیا کہتا ہے؟


الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 26 کے مطابق ہرایک شخص انتخابی علاقے میں بطور ووٹر اس وقت اندراج کا حق دار ہوگا اگر وہ پاکستان کا شہری ہے اور اس کی عمر 18 سال سے کم نہ ہو، انتخابی فہرستوں کی تیاری، نظرثانی یا تصحیح کے لیے دعوؤں، اعتراضات اور درخواستوں کو مدعو کرنے کے لیے مقرر کردہ آخری دن تک کسی بھی وقت نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ رکھتا ہو۔

اس کے علاوہ کسی مجاز عدالت کی طرف سے اسے ناقص دماغ قرار نہ دیا گیا ہو اور سیکشن 27 کے تحت انتخابی علاقے کا رہائشی سمجھا جاتا ہو۔

ہر شہری کے لیے الیکشن میں حصہ لینا اس لیے اہم ہے کیونکہ صحت، تعلیم، زندگی کی سہولیات، قانون اور مہنگائی سب پر حکومتی پالیسی اسی سے جڑی ہے۔

دوسری جانب اگر جیل میں موجود قیدیوں کے ووٹ کے حقوق کے حوالے سے بات کی جائے تو الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 93 (ڈی) کے مطابق جیل میں نظربند یا حراست میں رکھنے والے شخص کو پوسٹل بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرایا جا سکتا ہے۔

  کراچی ویمن سینٹرل جیل—فوٹو: اقرا حسین
کراچی ویمن سینٹرل جیل—فوٹو: اقرا حسین


قیدیوں کے ووٹ کاسٹ کرنے کا طریقہ کار


قیدیوں کے ووٹ کاسٹ کرنے کا طریقہ کار تھوڑا پیچیدہ ضرور ہے لیکن اس پر با آسانی عمل ہوسکتا ہے۔

الیکشن کمیشن سندھ جیلوں خصوصاً خواتین کی جیلوں سے اہل قیدیوں کو ووٹ دینے کی سہولت کے حوالے سے کیسے رابطہ کرتا ہے؟ اس سے متعلق جوائنٹ الیکشن کمشنر سندھ علی اصغر سیال نے ووٹ دینے کا طریقہ کار سے متعلق بتایا کہ جب بھی عام انتخابات ہوتے ہیں پولنگ اسٹیشن پر ریگولر ووٹ کے علاوہ پوسٹل بیلٹ یعنی ڈاک کے ذریعے بھی ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت موجود ہے۔

انہوں نے تٖفصیلی بتایا کہ ’سب سے پہلے قیدیوں (خواہ وہ خواتین ہو یا مرد) کو الیکشن سے کم از کم 12 روز قبل (عارضی طور پر ) اپنے حلقے کے ریٹرننگ افسر کو پاکستان پوسٹ کے ذریعے درخواست بھیجنی ہوگی جس کے بعد ریٹرننگ افسر اپنے ووٹنگ لسٹ کی مدد سے درخواست کی تصدیق کرے گا، اگر قیدی کا نام اسی حلقے میں ہوگا تو ریٹرننگ افسر اسے پوسٹل بیلٹ جاری کرے گا۔‘

’پوسٹل بیلٹ جاری کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ الیکشن سے کم از کم دو ہفتے قبل (عارضی طور پر ) ریٹرننگ افسر جیل انتظامیہ کو دو لفافے بھیجے گا جس میں ریٹرننگ افسر کا ایڈریس درج ہوگا، ان میں ایک چھوٹا اور دوسرا بڑا لفافہ ہوگا، قیدی جس امیدوار کو ووٹ دینا چاہتا ہے کا نام پوسٹل بیلٹ میں درج کرکے چھوٹے لفافے اور پھر بڑے لفافے میں ڈال دے گا، پھر ریٹرننگ افسر کا ایڈرس درج کرکے قیدی وہ لفافہ جیل انتظامیہ کو دے گا جس کے بعد جیل انتظامیہ ڈاک کے ذریعے ریٹرننگ افسر کو واپس بھیج دیں گے، اس تمام عمل میں کوئی چارجز نہیں ہیں۔ ’

علی اصغر سیال نے کہا کہ انتخابات کے حتمی نتائج کے اعلان کے دوران ریٹرننگ افسران امیدواروں کے سامنے پوسٹل بیلٹ کے ذریعے دیئے گئے ووٹوں کی گنتی کریں گے اور پھر انہیں حتمی نتائج کے اعدادوشمار میں شامل کریں گے۔


’1999 سے ایک بھی خاتون قیدی نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا‘


جب ہم نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی مرکزی جیل کا دورہ کیا تو ہماری ملاقات سندھ میں ڈی آئی جی جیل خانہ جات برائے خواتین و بچے شیبا شاہ سے ہوئی، شیبا شاہ اس سے قبل سینئر سپرنٹڈنٹ برائے جیل خانہ جات بھی رہ چکی ہیں۔

ان کے مطابق حیران کن طور پر سال 1999 سے لے کر اب تک کراچی سینٹرل میں قید خواتین نے ایک بھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت کراچی سینٹرل جیل میں 175 خواتین قیدی ہیں جبکہ گنجائش تقریباً 200 کی ہے، تمام قیدیوں کی عمر 18 سال سے اوپر ہے، 85 فیصد ایسی خواتین ہیں جنہیں ایک یا ڈیڑھ سال ہوگیا ہے جبکہ 23 فیصد خواتین سزا یافتہ ہیں۔

اس کے علاوہ سکھر کی خواتین جیل میں 34 قیدی، حیدرآباد کی خواتین جیل میں تقریباً 67 جبکہ لاڑکانہ خواتین قیدی سکھر جیل منتقل کی جاچکی ہیں۔

شیبا شاہ کے مطابق سندھ میں خواتین کی کُل تین سنٹرل جیل ہیں جن میں کراچی کے علاوہ حیدرآباد میں سکھر میں ایک ایک ہے۔

  گراف
گراف

دوسری جانب اگر دیگر صوبوں کی بات کریں تو جیل خانہ جات کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کی 40 مختلف جیلوں میں ایک ہزار خواتین سمیت 49 ہزار 100 قیدی موجود ہیں جبکہ سندھ کی 27 جیلوں میں قیدیوں کی تعداد 19 ہزار سے زائد ہے، اسی طرح خیبر پختونخوا کی 23 جیلوں میں 220 خواتین سمیت 10 ہزار 50 اور بلوچستان کی 11 مختلف جیلوں میں 20 خواتین سمیت 2100 سے زائد قیدی موجود ہیں۔

پاکستان کی جیلوں میں اس وقت موجود قیدیوں کی مجموعی تعداد 80 ہزار 250 ہے۔

خواتین کے ووٹ دینے سے متعلق ڈی آئی جی شیبا شاہ نے انکشاف کیا کہ سن 1999 سے لے کر اب تک کراچی کے علاوہ سکھر اور حیدرآباد کی خواتین قیدیوں میں سے ایک نے بھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ خواتین خود اپنی مرضی سے ووٹ کاسٹ نہیں کرتیں، انہوں نے آزاد ماحول میں بھی کبھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا، جیل انتطامیہ قیدیوں کو ووٹ ڈالنے کے حوالے سے آگاہی دیتی ہے، مثال کے طور پر جیل کا عملہ قیدیوں کے لیے باقاعدہ کلاسز منعقد کرتا ہے جہاں انہیں ووٹ دینے کا طریقہ بتایا جاتا ہے، تاہم 1999 سے اس جیل میں اب تک الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹنگ کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔‘

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کراچی کے علاوہ حیدرآباد اور سکھر کی خواتین جیلوں میں ووٹ کاسٹ کرنے کے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے، ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن یا آئی جی آفس اور وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے جیلوں میں ووٹنگ کے حوالے سے انہیں کوئی خط جاری نہیں کیا گیا۔

  فوٹو: ڈی آئی جی جیل خانہ جات برائے خواتین و بچے شیبا شاہ—فوٹو: اقرا حسین
فوٹو: ڈی آئی جی جیل خانہ جات برائے خواتین و بچے شیبا شاہ—فوٹو: اقرا حسین

خواتین کے ووٹ نہ دینے کی وجوہات پر شیبا شاہ نے بتایا کہ ’جب تک آئی جی دفتر یا سندھ حکومت کی جانب سے لیٹر جاری ہوگا تب ہی جیلوں میں ووٹنگ کا عمل شروع ہوگا، جب تک ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے احکامات نہیں دیے جاتے، ہم کچھ نہیں کرسکتے۔‘

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان خواتین قیدیوں کو پہلے سے سیاسی شعور حاصل ہے اس کے علاوہ جیل بیرک میں ٹی وی بھی نصب ہے جس کی وجہ سے 80 فیصد خواتین کو معلوم ہے کہ ملک میں سیاسی اور سماجی صورتحال کیا چل رہی ہے۔

یہ صورت حال صرف خواتین قیدیوں کے ساتھ نہیں بلکہ مرد جیلوں میں بھی لگ بھگ یہی صورتحال ہے، سابق الیکشن کمشنر سندھ طارق اقبال قادری کے مطابق مئی 2013 کے انتخابات میں قیدیوں کو یہ سہولت نہیں دی گئی تھی جبکہ 2008 کے الیکشن میں سندھ میں محض 10 قیدیوں کے ووٹ کاسٹ کرائے گئے تھے۔

2018 کے عام انتخابات کے دوران بھی سندھ کی مختلف جیلوں میں مرد قیدیوں سے ایک بھی ووٹ کاسٹ نہیں کرایا جا سکا تھا۔

  گراف
گراف


’جیل میں ووٹ کاسٹ کرتے دیکھا نہ آگاہی دی گئی‘


دوسری جانب جب ہماری کراچی سینٹرل جیل میں قید خواتین قیدیوں سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ انہیں جیل میں ووٹ ڈالنے کے حقوق کے حوالے سے آگاہی حاصل نہیں ہے، البتہ انہیں جیل میں بنیادی سہولیات دی جاتی ہیں۔

55 سالہ صائمہ فیروز (فرضی نام) نامی سزا یافتہ قیدی سے بات ہوئی جو گزشتہ 17 سال سے کراچی سینٹرل جیل میں قتل کے الزام میں قید ہیں ۔

صائمہ کا کہنا تھا وہ آزاد ماحول میں ووٹ دیتی تھیں لیکن جیل کے اندر کبھی ووٹ کاسٹ نہیں کیا اور نہ اس کا طریقہ کار معلوم ہے۔

اس کے علاوہ مائزہ مجیب (فرضی نام) نامی قیدی بھی گزشتہ 11 سال سے منشیات کیس میں سزا یافتہ ہیں، ووٹ ڈالنے کے سوال پر تو وہ پہلے حیران ہوئیں پھر انہوں نے کہا کہ جیل میں شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا، ’ہم نے نہیں سنا کہ یہاں ووٹ بھی ڈالے ہیں، اگر جیل میں ووٹنگ کے انتظامات کیے گئے تو ضرور ووٹ کاسٹ کریں، یہ ہمارا حق ہے‘۔

  فائل فوٹو: جیل کی بہبود کے لیے کمیٹی
فائل فوٹو: جیل کی بہبود کے لیے کمیٹی


’ہم ووٹ کیوں نہیں ڈال سکتے؟ کیا ہم پاکستانی شہری نہیں؟‘


38 سالہ قیدی عائلہ احمد (فرضی نام) کا تعلق بھی کراچی سے ہی ہے، وہ 15 سال 4 ماہ سے سینٹرل جیل میں قید ہیں، جیل میں ووٹ ڈالنے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان 15 سالوں میں کبھی ووٹ ڈالا اور نہ انہیں اس کا طریقہ کار معلوم ہے، ’ٹی وی پر نیوز دیکھ کر غصہ آتا ہے کہ ہم ووٹ کیوں نہیں کرسکتے؟ سیاست دانوں کے لیے الگ اور ہمارے لیے الگ قانون کیوں ہے؟ یہ دیکھ کر خون کھولتا ہے۔‘

عائلہ احمد کا کہنا تھا کہ اگر انہیں آگاہی دی جائے اور ووٹ کاسٹ کرنے کا پوچھا جائے تو وہ ضرور ووٹ کاسٹ کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس لیے ووٹ کاسٹ کرنا چاہتی ہیں کہ ’کوئی ایسا شخص آنا چاہیے جو ہمارے لیے کام کرے، جیل کے اندر بھی ایک دنیا ہے، یہ صرف میڈم شیبا کی ذمہ داری نہیں ہے، میں جیل میں رہتے ہوئے انٹر کی تعلیم حاصل کرچکی ہوں ، پہلے مجھے کچھ بھی نہیں آتا تھا، اب میں سب کچھ سیکھ چکی ہوں، میں ووٹ اس لیے دوں گی کہ شاید میرے ایک ووٹ سے معاشرے میں بدلاؤ آجائے۔‘

بعدازاں ہماری ملاقات 29 سالہ زکیہ (فرضی نام) نامی قیدی سے ہوئی جن کا تعلق کراچی کے علاقے ملیر سے ہے، یہ بھی کراچی سینٹرل جیل کی سزا یافتہ قیدی ہیں۔

ووٹ ڈالنے کے سوال سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم نہیں کہ یہاں ووٹ بھی کاسٹ کیے جاتے ہیں اور نہ انہیں کسی نے اس سے متعلق آگاہی فراہم کی ہے، فروری میں الیکشن ہوئے تو ضرور ووٹ کاسٹ کروں گی۔

جب میں نے گزشتہ الیکشن 2018 میں ان سے ووٹ نہ ڈالنے سے متعلق سوال پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’ہم سمجھتے تھے کہ ہمارا ووٹ کینسل ہوجاتا ہے، ہم جیل میں ہیں اس لیے ہم ووٹ نہیں ڈال سکتے۔‘

  فائل فوٹو: جیل کی بہبود کے لیے کمیٹی
فائل فوٹو: جیل کی بہبود کے لیے کمیٹی


قیدیوں کے ووٹ نہ ڈالنے کے پیچھے کیا مسائل ہیں؟


کراچی سینٹرل جیل میں خواتین قیدیوں کی جانب سے ووٹ نہ دینے کی وجوہات سے متعلق سوال پر شیبا شاہ نے کہا کہ اس کی ایک بڑی وجہ قیدیوں کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 175 خواتین قیدیوں میں سے 50 فیصد خواتین کے پاس شناختی کارڈ ہے اور 50 فیصد کے پاس نہیں ہے۔

شیبا شاہ نے بتایا کہ کچھ خواتین اپنا شناختی کارڈ جان بوجھ کر ظاہر نہیں کرتیں، جبکہ کچھ قیدی خود ہی سچ بتا دیتی ہیں کہ وہ جان بوجھ کر شناختی کارڈ چھپا دیتی ہیں، ان میں کچھ قیدی شناختی کارڈ چھپا کر جیل میں اپنا جعلی نام بھی لکھواتی ہیں تاکہ ان کا اصل نام پولیس ریکارڈ میں نہ آسکے۔

شیبا شاہ نے بتایا کہ وہ خواتین قیدیوں کا شناختی کارڈ کی بنیاد پر ایڈمیشن نہیں کرتے بلکہ عدالت کی جانب سے جوڈیشل وارنٹ کے تحت جیل میں آڈیمیشن ہوتا ہے، تاہم اب ہم نےسختی کردی ہے اور یقینی بنارہے ہیں کہ ہر خواتین قیدی کے پاس شناختی کارڈ لازمی ہو۔

شیبا شاہ کی جانب سے پیش کیے گئے چینلجز پر جب ہم نے جوائنٹ الیکشن کمشنر سندھ علی اصغر سیال سے گفتگو کی تو انہوں نے بتایا کہ ’جب بھی عام انتخابات ہوتے ہیں تو الیکشن ایکٹ کے سیکشن 93 کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تمام شہریوں بالخصوص معذور افراد، سرکاری ملازمین، پولنگ اسٹاف اور قیدیوں کو ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت دی جاتی ہے۔ ’

دوسری جانب سندھ کے جوائنٹ الیکشن کمشنر علی سیال کہتے ہیں کہ موجودہ طریقہ کار کے تحت ریٹرننگ افسر کی جانب سے جیل انتظامیہ کو ہر انتخابات میں پوسٹل بیلٹ جاری کیا جاتا ہے لیکن اس کے لیے قیدیوں کو پہلے ریٹرننگ افسر کو درخواست دینا ہوگی۔ ’

جب ہم نے ان سے ماضی میں خواتین قیدیوں کے ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق تعداد پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ انہیں درست اعدادوشمار تو نہیں معلوم لیکن یقیناً ماضی میں خواتین قیدیوں نے ووٹ دیا ہوگا، اس سے متعلق اعدادوشمار ریٹرننگ افسر ہی جانتا ہے۔

  فوٹو:  جوائنٹ الیکشن کمشنر  سندھ علی اصغر سیال—فوٹو: اقرا حسین
فوٹو: جوائنٹ الیکشن کمشنر سندھ علی اصغر سیال—فوٹو: اقرا حسین

کراچی سینٹرل جیل کو خط جاری کرنے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ عام انتخابات (2018، 2013، اور 2008) سمیت ہر الیکشن میں سینٹرل جیل کو ووٹنگ کے حوالے سے خط جاری ہوتا ہے، اسی طرح 2024 کے عام انتخابات کے لیے بھی جب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے شیڈول جاری ہوگا تو پورے ملک میں ہدایات جاری ہوجائیں گی، جس کے تحت اعلان ہوگا کہ قیدی مخصوص ڈیڈ لائن تک پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرسکتے ہیں۔

خواتین قیدیوں کے ووٹ نہ ڈالنے سے متعلق قانونی اور لاجسٹک رکاوٹوں پر بات کرتے ہوئے علی اصغر سیال نے بتایا کہ کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ہے، جیل انتظامیہ خود قیدیوں سے ان کے حلقے سے متعلق تفصیلات پوچھیں اور متعلقہ ریٹرننگ افسر کو درخواست دیں جس کے بعد وہ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ ڈال سکتی ہیں۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ سول سوسائٹی کے ادارے اور این جی اوز کو چاہیے کہ سینٹرل جیل میں قیدیوں کے لیے ورکشاپ منعقد کروائیں تاکہ انہیں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق آگاہی دی جاسکے۔

علی اصغر سیال نے کہا کہ ایسی ورکشاپ منعقد کرنے کے لیے شرط یہ ہے کہ پہلے جیل انتظامیہ کو درخواست بھیجنی ہوگی، تاہم ماضی کے انتخابات میں اس حوالے سے کوئی درخواست نہیں بھیجی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہم اپنا عملہ بھی بھیجنے کو تیار ہیں تاکہ وہ انہیں آگاہی فراہم کریں کہ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے کس طرح ووٹ کاسٹ ہوگا۔


قیدیوں کے ووٹ کاسٹ کرنے کا طریقہ کار تبدیل ہونا چاہیے، آئی جی جیل خانہ جات


آئی جی جیل خانہ جات سید منور علی شاہ نے بھی ان تمام دعووں کو غلط قرار دیا کہ گزشتہ 15 سالوں کے دوران کسی بھی خاتون قیدی نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا، انہوں نے دعوے کے ساتھ کہا کہ ’ہمیں اعدادوشمار تو نہیں معلوم لیکن میری 19 سالہ سروس کے دوران ایسا کبھی نہیں ہوا کہ خواتین قیدیوں نے ووٹ کاسٹ نہ کیا ہو، تاہم اس حوالے سے شرح کم ہوسکتی ہے۔‘

سید منور علی شاہ گزشتہ ماہ ہی کراچی میں آئی جی جیل خانہ جات تعینات ہوئے ہیں، وہ اس سے قبل سکھر، نوشہرہ فیروز اور بدین میں بھی اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔

انہوں نے ہمیں بتایا کہ قیدیوں کے ووٹ نہ دینے کی بڑی وجہ اس کا طریقہ کار ہے جو انتہائی پیچیدہ اور سست روی کا شکار ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’قیدیوں کے ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے آئی جی دفتر کی جانب سے خط جاری کرنا ضروری نہیں، الیکشن کمیشن ہر انتخابات میں پوسٹل بیلٹ جاری کرتا ہے لیکن سب سے بڑا چیلنج قیدیوں کے ووٹ دینے کا طریقہ کار ہے۔ ’

ان کا کہنا تھا کہ جب قیدی ووٹ دینے کی درخواست دیتا ہے تو الیکشن کمیشن کی جانب جیل انتظامیہ کو موصول ہونے والا پوسٹل بیلٹ تاخیر کا شکار ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے قیدیوں کے ووٹ ضائع ہوجاتے ہیں۔

آئی جی جیل خانہ جات سید منور علی شاہ نے مشورہ دیا کہ حالیہ طریقہ کار کو مزید بہتر اور پیپرلیس بنانے کی ضرورت ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے پورے صوبے کا ایک فوکل پرسن مقرر کیا جانا چاہیے، اسی طرح آئی جی کی طرف سے بھی ایک فوکل پرسن مقرر کردیا جائے گا دونوں اداروں کے فوکل پرسنز قیدیوں کے ووٹ سے متعلق آپس میں کوآرڈی نیٹ کرلیں گے تاکہ پوسٹل بیلٹ وقت پر جیل انتظامیہ تک پہنچ جائے اور قیدی اپنا ووٹ کاسٹ کرسکیں۔

  فوٹو: آئی جی جیل خانہ جات سید منور علی شاہ—فوٹو: فیس بُک
فوٹو: آئی جی جیل خانہ جات سید منور علی شاہ—فوٹو: فیس بُک

ان کا کہنا تھا کہ آئی جی اور الیکشن کمیشن کے نمائندوں کے درمیان رابطوں کے فقدان کی وجہ سے ایسے مسائل پیش آتے ہیں، ان مسائل کو ختم کرنے کے لیے ووٹ دینے کے طریقہ کو آسان بنانا ہوگا، جب ڈاک کے ذریعے الیکشن کے دن یا ایک روز قبل قیدیوں کو پوسٹل بیلٹ موصول ہوگا تو عمل کیسے کامیاب ہوگا؟

انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ آئندہ انتخابات 2024 میں ہماری کوشش ہوگی کہ فوکل پرسن کے ذریعے ہی تمام رابطے ہوں تاکہ ڈاک کا سسٹم ختم کیا جاسکے اور قیدیوں کے ووٹ ڈالنے کو یقینی بنایا جائے۔

منورہ علی شاہ نے بتایا کہ ’سکھر، بدین، نوشہرہ فیروز میں 19 سالہ سروس کے دوران میں نے خود دیکھا ہے کہ ایم پی ایز اور ایم این ایز کوشش کرتے ہیں کہ ریٹرننگ افسر کے ذریعے جیل میں قیدیوں کے لیے پوسٹل بیلٹ بھجوائیں، امیدوار اس حوالے سے اپنی مہم بھی چلاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’میرے علم میں نہیں کہ کوئی ادارہ قیدیوں کو ووٹ ڈالنے کے حقوق کے حوالے کام کررہا ہو، ہمارے معاشرے میں جو عام شہری کو ووٹ ڈالنے سے متعلق مسائل ہیں، جیل کے اندر قیدیوں کو بھی انہی چیلنجز کا سامنا ہے، ہمیں صرف آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔‘

آئی جی جیل خانہ جات سید منور علی شاہ اور سندھ کے جوائنٹ الیکشن کمشنر علی اصغر سیال سے اس معاملے پر بات کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ قیدیوں کے حق رائے دہی کے معاملے پر مناسب توجہ نہیں دی جا رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ اداروں کے درمیان موثر رابطے کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے پچھلے تین عام انتخابات میں مسلسل مسائل دیکھنے میں آئے۔

خواتین قیدیوں کے ووٹ دینے سے متعلق ایک اور مسئلہ یہ بھی درپیش رہا کہ آئی جی دفتر، الیکشن کمیشن سندھ اور سینٹرل جیل کے پاس تحریری یا آن لائن ڈیٹا موجود ہی نہیں تھا۔

ہمیں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ووٹ ڈالنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے، چاہے شہری معذور ہویا سزا یافتہ قیدی، یہ ملکی اداروں اور میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کریں، تاکہ وہ جمہوری طریقوں سے ملک کے مستقبل میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

اب سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا آئندہ عام انتخابات 2024 میں کسی سیاسی جماعت کے منشور میں قیدیوں کے ووٹ پر توجہ دی جارہی ہے؟ اس حوالے سے جب ہم نے متحدہ قومی مومنٹ سے تعلق رکھنے والی رکن صوبائی اسمبلی سندھ منگلا شرما نے بتایا کہ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے، اس پر بات ہونی چاہیے، لیکن افسوس کے ساتھ اس مسئلے پر کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ انتخابات کے لیے ان کی پارٹی کی جانب سے جب منشور تیار کیا جارہا تھا وہ اس کی ممبر تھیں، منگلا شرما نے یقین دہانی کروائی کہ ’پارٹی کا منشور حتمی مرحلے تک پہنچ گیا ہے، آئندہ میٹنگ ہوئی تو اس مسئلے کو بپارٹی کے منشور میں شامل کیا جائے گا۔‘

انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ ان کے تقریباً 6 سالہ سیاسی کریئر کے دوران کسی سیاسی امیدوار نے اس حوالے سے کوئی مہم نہیں چلائی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مردوں یا خواتین قیدیوں کے ووٹ ڈالنے سے متعلق کسی قسم کا آن لائن ڈیٹا جیل انتظامیہ، آئی جی کے دفتر یا الیکشن کمیشن کے پاس دستیاب نہیں تھا، صحیح اعدادوشمار نہ ہونے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس جانب کسی نے توجہ نہیں دی۔

  فائل فوٹو: جیل کی بہبود کے لیے کمیٹی
فائل فوٹو: جیل کی بہبود کے لیے کمیٹی

جیل کے باہر آزاد ماحول میں زندگی گزارنا کسی نعمت سے کم نہیں ہے، تاہم یہ افسوس کی بات ہے کہ آج بھی بے شمار خواتین کو ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے، یہ محرومی اکثر سماجی بے ترتیبی، دقیانوسی تصورات اور سیاسی کی بھینٹ کا نتیجہ ہوتی ہے، جہاں انسان ظاہرہ طور پر تو آزاد ماحول میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے لیکن عدم مساوات کا شکار رہتا ہے۔

اسی طرح جیل کے اندر بھی خواتین کے لیے بھی یہ صورتحال مختلف نہیں ہے، جیل کی چاردیواری کے اندر خواتین کی زندگی مختلف ہوتی ہے، وہ اپنے کیے کی سزا تو بھگت رہی ہوتی ہیں لیکن ساتھ ہی سماجی بے حسی اور نظام کی نظراندازی کا بھی شکار رہتی ہیں، المیہ یہ ہے کہ مرد قیدیوں کی بھی یہی صورتحال ہے۔

پسے ہوئے طبقات کے حقوق کو اجاگر کرنے کے ہمیں کچھ اور باتوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا تاکہ قیدی اپنے ووٹ کا آئینی اور قانونی حق استعمال کر سکیں، تمام صوبوں کو نادرا حکام کو لکھنا چاہیے کہ وہ جیلوں میں کیمپ لگانے کے لیے ان قیدیوں کی مدد کریں جن کے پاس شناختی نہیں ہیں یا جن کے پاس شناختی کارڈ کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔

الیکشن کمیشن ٓآف پاکستان ووٹوں کے اندراج کے لیے جیلوں میں کیمپ لگائے، جیل حکام کو قیدیوں میں ان کے حق رائے دہی اور اس کے طریقہ کار کے بارے میں بھی آگاہی پیدا کرنی چاہیے۔

آج کے جدید دور میں جہاں دنیا کے دیگر ممالک کا رجحان کمپیوٹر سسٹم اور آن لائن کی طرف بڑھ رہا ہے وہاں پاکستان شاید آج بھی کئی سال پیچھے ہے، مسائل کو حل کرنے کے لیے ملک کے اداروں کو ایک بیچ پر چلنا ہوگا، قانون نافذ کرنے والے والے اداروں اور سیاسی جماعتوں اور ملکی قوانین رائج کرنے والے اداروں کو آپس میں مضبوط رابطے قائم رکھنے ہوں گے تاکہ عام شہری کے مسائل کو حل کیا جائے تبھی جمہوری عمل کامیاب ہوسکتا ہے۔