Dawnnews Television Logo

’ورلڈکپ تو آسٹریلیا کا ہی ہوتا ہے‘

نریندر مودی اسٹیڈیم میں ٹورنامنٹ میں اب تک کی ناقابل شکست ٹیم کو شکست دے کر اور ایک لاکھ سے زائد تماشائیوں کو مکمل طور پر خاموش کرتے ہوئے پیٹ کمنز کی ٹیم نے ٹائٹل اپنے نام کیا۔
شائع 20 نومبر 2023 09:23am

ایک اور آئی سی سی ٹورنامنٹ، ایک اور آسٹریلوی ٹائٹل، کہنے والے کہتے ہیں کہ ورلڈکپ تو آسٹریلیا کا ہی ہوتا ہے، باقی سب تو اس میں نمبر پورے کرنے آتے ہیں۔ اگر آپ پچھلے چوبیس سال اور سات ون ڈے ورلڈکپ کی بات کریں تو یہ بات بہت حد تک سچ ہی لگتی ہے۔ پچھلے سات ورلڈکپ میں سے پانچ آسٹریلیا نے ہی جیتے ہیں۔ اگر مینز اور ویمنز ٹیموں کے تمام ون ڈے اور ٹی 20 ورلڈکپ ٹورنامنٹس کو دیکھیں تو آسٹریلیا کی ٹیم بیس مرتبہ چمپیئن بن چکی ہے۔

احمدآباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں ٹورنامنٹ میں اب تک کی ناقابل شکست ٹیم بھارت کو شکست دے کر اور ایک لاکھ سے زائد تماشائیوں کو مکمل طور پر خاموش کرتے ہوئے پیٹ کمنز کی ٹیم نے ٹائٹل اپنے نام کیا۔ آسٹریلیا کی تین وکٹیں جلدی گر جانے کے بعد ایسا لگا تھا کہ شاید بھارتی ٹیم اس ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہتے ہوئے چمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کر لے گی۔ جیسے ویسٹ انڈیز نے 1975ء اور 1979ء (سری لنکا کے خلاف میچ بارش کی نذر ہوا) میں اور آسٹریلیا نے 2003ء اور 2007ء میں ناقابل شکست رہتے ہوئے چمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا لیکن آسٹریلوی ٹیم اور خاص طور پر ٹریوس ہیڈ کے ارادے کچھ اور ہی تھے۔

یہ وہی ٹریوس ہیڈ ہیں جنہوں نے بھارتی ٹیم کے خلاف اسی سال ورلڈ ٹیسٹ چمپیئن شپ کے فائنل میچ کی پہلی اننگ میں شاندار کھیل پیش کرکے آسٹریلیا کے لیے فتح کی راہ ہموار کی تھی۔ کل کے میچ میں ٹریوس ہیڈ نے اس میچ میں ایک بڑی سنچری تو اسکور کی لیکن اس سے پہلے بھارتی بیٹنگ میں ہیڈ نے روہت شرما کا شاندار کیچ پکڑ کر بھارتی اننگ کی اڑان کو روکنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔

میچ کے دوران 9.3 اوورز میں بھارت کا اسکور 76/1 تھا، شبھمن گل کی وکٹ گر چکی تھی لیکن روہت شرما کی شاندار ہٹنگ نے پیٹ کمنز کو صرف سات اوورز بعد ہی مچل اسٹارک اور جوش ہیزل ووڈ کو اٹیک سے ہٹانے پر مجبور کر دیا تھا۔ اننگ کا دسواں اوور گلین میکسویل کر رہے تھے اور پہلی تین گیندوں پر روہت شرما ایک چوکا اور ایک چھکا لگا چکے تھے۔ چوتھی گیند پر روہت نے کریز سے نکل کر ایک اور چھکا لگانے کی کوشش کی لیکن گیند باہری کنارے سے لگ کر ہوا میں کھڑی ہوگئی۔ گیند پوائنٹ پر کھڑے ٹریوس ہیڈ سے کافی دور جا رہی تھی لیکن آسٹریلوی ٹیم جو اس ٹورنامنٹ میں کچھ خاص فیلڈنگ نہ کر پائی تھی، فائنل میں کسی اور ہی موڈ میں تھی۔ ٹریوس ہیڈ نے پیچھے دوڑتے ہوئے ایک شاندار کیچ پکڑ کر روہت شرما کو پویلین واپس بھیجا۔

اگلے اوور میں شریاس آئر بھی کمنز کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ دے بیٹھے اور یہیں سے بھارتی اننگ سے مومینٹم نکل گیا۔ بھارتی ٹیم جو پہلے دس اوورز میں بارہ باؤنڈریز لگا چکی تھی، اگلے سولہ اوورز میں ایک بھی باؤنڈری نہ لگا سکی۔ اس کی وجہ آسٹریلوی باؤلرز کی شاندار باؤلنگ تو تھی ہی ساتھ ہی پیٹ کمنز کی باؤلنگ میں تبدیلیاں اور فیلڈ پلیسنگز اور بھی بہتر تھیں۔ کمنز نے اس دوران واضح کر دیا کہ ایک اچھا کپتان دنیا کے بہترین بلے بازوں کو بھی سنبھل کر کھیلنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

اس دوران ویرات کوہلی نے کوئی باؤنڈری تو نہیں لگائی لیکن ان کی جانب سے اسکور تسلسل سے آ رہا تھا لیکن کے ایل راہول بہت زیادہ پھنس کر کھیلے۔ گیند پرانی ہونے کے بعد اسکور بنانا مشکل ہوتا چلا گیا اور کوہلی کی وکٹ گرنے کے بعد بھارتی اننگ بالکل ہی ڈھے گئی۔ اس کے بعد 21.3 اوورز میں صرف 92 رنز کا ہی اضافہ کیا جا سکا۔ کے ایل راہول بڑا اسکور کر پائے نہ ہی روندر جدیجا اننگ کو سنبھال پائے اور سوریا کمار یادوو سے وابستہ توقعات بھی دھری کی دھری رہ گئیں۔ سوریا کمار یادوو ٹی20 انٹرنیشنل میں بھارتی ٹیم کے لیے کئی شاندار اور دھواں دھار اننگز کھیل چکے ہیں لیکن ابھی تک ون ڈے کرکٹ میں اس کارکردگی کا عشر عشیر بھی سامنے نہیں آسکا۔

آسٹریلوی اننگ کے آغاز میں ڈیوڈ وارنر کا کیچ سلپ پر موجود ویرات کوہلی اور شبھمن گل کے درمیان سے نکل گیا اور دونوں دیکھتے ہی رہ گئے۔ لیکن یہ کیچ بھارتی ٹیم کو مہنگا نہ پڑا اور اگلے ہی اوور میں محمد شامی نے ڈیوڈ وارنر کو سلپ میں ویرات کوہلی کے ہاتھوں کیچ کروا دیا۔ مچل مارش نے چند اچھے شاٹس ضرور کھیلے لیکن ان شاٹس سے زیادہ مچل مارش کا آؤٹ ہونے کے بعد بھارتی کھلاڑی کو آنکھ مارنا موضوع بحث رہا۔

مچل مارش کے کچھ دیر بعد ہی اسٹیو اسمتھ پویلین لوٹ گئے، مارش کی طرح انہیں بھی جسپریت بمرا نے ہی آؤٹ کیا۔ لیکن اس وقت سب حیران رہ گئے جب ری پلے میں واضح ہوا کہ گیند اسٹیو اسمتھ کے بلے سے ٹکرائی تو وہ وکٹوں کے سامنے نہیں تھے۔ امپائر کے اس غلط فیصلے کے خلاف اگر اسمتھ ریویو لے لیتے تو انہیں ناٹ آؤٹ قرار دیا جاتا لیکن حیرت انگیز طور پر اسمتھ اور ہیڈ نے ریویو نہ لینا مناسب سمجھا۔

یہ اس میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہو سکتا تھا لیکن یہاں ٹریوس ہیڈ کا ساتھ دینے مارنس لبوشین آئے اور انہوں نے اپنی پرسکون بیٹنگ سے اس ہدف کو آسان بنا ڈالا۔ مارنس لبوشین جو ابتدائی طور پر آسٹریلیا کے ورلڈکپ اسکواڈ کا حصہ ہی نہیں تھے، فائنل میں ایک عمدہ اننگ سے آسٹریلیا کی فتح کی وجہ بن گئے۔ مارنس لبوشین کی اس طرح سے ٹیم میں شمولیت اور پھر فتح میں اہم کردار نبھانا کچھ نیا نہیں ہے۔ 2019ء کی ایشز سیریز میں لبوشین اسٹیو اسمتھ کا کنکشن سب بن کر کھیلے اور اتنی اچھی بیٹنگ کی کہ اسمتھ کی واپسی کے بعد بھی ٹیم کا حصہ رہے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف ورلڈکپ سے کچھ دن پہلے ہونے والی ون ڈے سیریز کے پہلے میچ میں لبوشین ٹیم کا حصہ نہیں تھے لیکن ان کی والدہ نے انہیں کہا کہ تم یہ میچ کھیلو گے۔ لبوشین کیمرون گرین کے کنکشن سب کے طور پر میچ کی دوسری اننگ میں ٹیم میں شامل ہوئے اور 80 رنز کی شاندار اننگ کھیل کر مین آف دی میچ کا ایوارڈ لے اڑے۔

ٹریوس ہیڈ کی شاندار اننگ کی بات کریں تو ورلڈکپ کے آغاز سے پہلے ہی پتا چل چکا تھا کہ فٹنس مسائل کی وجہ سے ٹریوس ہیڈ ورلڈکپ کے ابتدائی پانچ، چھ میچز میں دستیاب نہیں ہوں گے۔ اس کے باوجود آسٹریلیا کی ٹیم انتظامیہ نے ٹریوس ہیڈ کو ورلڈکپ اسکواڈ میں برقرار رکھا۔ ٹریوس ہیڈ نے اس اعتماد پر پورا اترتے ہوئے اپنے پہلے ہی ورلڈکپ میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف سنچری بنا ڈالی اور پھر سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ اور فائنل میں بھارت کے خلاف اپنی شاندار کارکردگی کے باعث مین آف دی میچ قرار پائے۔

دوسری جانب مین آف دی ٹورنامنٹ کے لیے بھارت کے ویرات کوہلی کو چنا گیا۔ ویرات کوہلی نے اس ٹورنامنٹ میں کئی ریکارڈز اپنے نام کیے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے انٹرنیشنل میں زیادہ سنچریز بنانے میں سچن ٹنڈولکر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنی پچاسویں ون ڈے سنچری اسکور کی۔ ویرات کوہلی نے ایک ورلڈکپ ٹورنامنٹ میں زیادہ سے زیادہ اسکور (765) بنانے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا لیکن سچن ٹنڈولکر (2003 میں 673 رنز) کی طرح ویرات کوہلی بھی اپنی ٹیم کو چمپیئن نہ بنوا سکے۔

بھارتی ٹیم کو اس ٹورنامنٹ میں کسی بھی ٹیم کی جانب سے خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ زیادہ تر میچز مکمل طور پر یک طرفہ رہے۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف لیگ میچز اور نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میچ ذرا نزدیکی میچز تھے لیکن کسی بھی وقت بھارتی ٹیم کی میچ پر گرفت ڈھیلی نہیں پڑی۔ دوسری جانب آسٹریلیا کو پہلے دو لیگ میچز میں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا، پھر افغانستان کے خلاف لیگ میچ میں شکست کے دہانے تک پہنچ گئے تھے جہاں سے آسٹریلیا کو میکسویل کی شاندار بیٹنگ اور پیٹ کمنز کے دفاع نے نکالا۔ سیمی فائنل میں بھی آسٹریلیا کو جنوبی افریقہ کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ شاید اسی وجہ سے شدید دباؤ کے وقت آسٹریلوی کھلاڑیوں نے اعصاب پر قابو رکھا اور بھارتی کھلاڑی دباؤ برداشت نہ کرسکے۔

ورلڈکپ 2023ء پاکستانی شائقین کے لیے مایوس کن رہا۔ پاکستانی ٹیم کی کارکردگی نہایت خراب رہی، ٹیم بری طرح دباؤ کا شکار نظر آئی اور بہت کم اچھا کھیل پیش کر سکی۔ یہاں تک کہ اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کو پہلی بار افغانستان کے خلاف ون ڈے کرکٹ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ورلڈکپ میں اگر کسی ٹیم کی کارکردگی پاکستان سے بھی خراب تھی تو وہ انگلینڈکی ٹیم تھی۔ انگلینڈ کی ٹیم اس ٹورنامنٹ میں فیورٹ کے طور پر پہنچی تھی لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف ایک بڑی شکست کے بعد انگلش ٹیم سنبھل نہ پائی اور پے در پے میچز ہارتی چلی گئی۔

  یہ ورلڈکپ پاکستانی شائقین کے لیے مایوس کن رہا— تصویر: ایے ایف پی
یہ ورلڈکپ پاکستانی شائقین کے لیے مایوس کن رہا— تصویر: ایے ایف پی

افغانستان کو اگر اس ٹورنامنٹ میں بہترین کھیل پیش کرنے والی ٹیم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ افغانستان سے اس ٹورنامنٹ میں ایک آدھ اپ سیٹ کی امید تو سب کو تھی لیکن اس ٹورنامنٹ میں افغان کھلاڑی انگلینڈ، پاکستان اور سری لنکا تینوں ٹیموں کو شکست دے دیں گے، یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اگر بنگلہ دیش کے خلاف افغانستان کو شکست کا سامنا نہ کرنا پڑتا یا وہ میکسویل کو آؤٹ کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو سیمی فائنل تک رسائی بھی ممکن تھی۔

  افغانستان کو بہترین کھیل پیش کرنے والی ٹیم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا— تصویر: اے ایف پی
افغانستان کو بہترین کھیل پیش کرنے والی ٹیم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا— تصویر: اے ایف پی

اس ٹورنامنٹ میں اپ سیٹ تو ہوئے لیکن ایک بھی میچ بارش کی نذر نہیں ہوا اور اینجلو میتھیوز کے ٹائم آؤٹ کے علاوہ پورے ٹورنامنٹ میں کوئی خاص بدمزگی بھی نہیں ہوئی۔ اینجلو میتھیوز کو بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں اس وقت ٹائم آؤٹ قرار دے دیا گیا تھا جب وہ بیٹنگ کے لیے دیر سے کریز پر پہنچے تھے۔ دراصل میتھیوز کریز پر مناسب وقت میں پہنچ گئے تھے لیکن گارڈ لینے سے پہلے ہی انہیں اپنے ہیلمٹ میں خرابی کا احساس ہوا اور ہیلمٹ کی تبدیلی کے دوران بنگلہ دیشی فیلڈرز کی اپیل پر امپائرز نے میتھیوز کو ٹائم آؤٹ قرار دے دیا۔ شکیب الحسن کے اپیل واپس نہ لینے پر اینجلو میتھیوز کو پویلین واپس جانا پڑا۔

نیوزی لینڈ اور بھارت کے درمیان ممبئی میں ٹورنامنٹ کے پہلے سیمی فائنل سے قبل پچ کی تبدیلی سے بھی میڈیا پر کچھ ہلچل ضرور مچی لیکن نیوزی لینڈ کی ٹیم انتظامیہ کی جانب سے اس معاملے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ کرک انفو کی رپورٹ کے مطابق اس میچ کے لیے ایک نئی پچ استعمال کی جانی تھی لیکن میچ سے ایک دن پہلے شام کو پچ تبدیل کر دی گئی۔ بعد میں سیمی فائنل اس پچ پر کھیلا گیا جس پر سیمی فائنل سے پہلے دو میچز کھیلے جا چکے تھے۔

  نیوزی لینڈ اور بھارت کے درمیان سیمی فائنل سے قبل پچ کی تبدیلی کی خبریں آئیں— تصویر: اے ایف پی
نیوزی لینڈ اور بھارت کے درمیان سیمی فائنل سے قبل پچ کی تبدیلی کی خبریں آئیں— تصویر: اے ایف پی

اس ٹورنامنٹ سے ایک اور بات بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ ون ڈے فارمیٹ کافی تیزی سے شائقین کرکٹ میں دلچسپی کھوتا جارہا ہے۔ بھارت جیسے کرکٹ کے دیوانے ملک میں بھارتی ٹیم کے علاوہ باقی ٹیموں کے میچز میں اسٹیڈیم میں بہت کم تماشائی دیکھنے کو ملے۔ جبکہ یہی اسٹیڈیم آئی پی ایل کے ہر میچ میں مکمل طور پر بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔

اس بار بہت زیادہ میچز مکمل طور پر یکطرفہ رہے شاید اس وجہ سے بھی شائقین کی دلچسپی کم رہی۔ ٹورنامنٹ میں چند ہی میچز میں بھرپور مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ اگر ون ڈے کرکٹ میں اسی طرح یکطرفہ مقابلے جاری رہے تو کرکٹ صرف دو فارمیٹس تک ہی محدود رہ جائے گی۔