Dawnnews Television Logo

پاکستان کے 6 منتخب ایوان کس طرح نئے صدر کا انتخاب کرتے ہیں؟

الیکٹورل کالج کیا ہوتا ہے اور یہ کس طرح صدارتی انتخابات میں اپنا کام کرتا ہے؟ صدارتی انتخاب کے طریقہ کار کی مکمل تفصیل
اپ ڈیٹ 09 مارچ 2024 10:59am

ملک کے 14ویں صدر کے انتخاب کے لیے پولنگ 9 مارچ کو ہوگی۔ سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل الیکٹورل کالج صدرِ مملکت کا انتخاب کرے گا۔

پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ، ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی اور ملک کی چاروں صوبائی یعنی خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کے اراکین کی کُل تعداد 1185 ہے۔ ان میں سے سینیٹ ارکان کی تعداد 100، قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد 336 جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے کُل ارکان کی تعداد 749 ہے۔

سینیٹ میں کُل نشستیں

سینیٹ کے اجزائے ترکیبی کچھ یوں ہیں کہ 100 ارکان پر مشتمل اس ایوان میں چاروں صوبوں کے کُل 23 ارکان ہیں۔ جن میں سے 14 عمومی ارکان، 4 خواتین، 4 ٹیکنوکریٹ اور ایک اقلیتی رکن ہے۔ فاٹا سے 4 عمومی ارکان سینیٹ کا حصہ ہیں۔ اسلام آباد سے کُل 4 ارکان ہیں جن میں سے 2 عمومی جبکہ ایک خاتون اور ایک ہی ٹیکنوکریٹ رکن ہے۔ سینیٹرز کی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوتے ہیں اور آدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔

قومی اسمبلی میں کُل نشستیں

پاکستان میں قومی اسمبلی کی کُل 336 نشستیں ہیں جن میں سے 266 عمومی نشستیں، 60 خواتین کے لیے اور 10 نشستیں اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ 266 عمومی نشستوں پر عام انتخابات ہوئے ہیں۔ انضمام شدہ اضلاع کے لیے قومی اسمبلی کی نشستیں گزشتہ 12 سے کم کر کے 6 کر دی گئی ہیں۔ یہ ایڈجسٹمنٹ 25ویں آئینی ترمیم کی دفعات کے مطابق ہے، جس کے بعد وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے خیبرپختونخوا میں ضم ہو گئے ہیں۔

قومی اسمبلی کے ان 266 حلقوں میں پنجاب کی 141، سندھ کی 61، خیبرپختونخوا کی 45، بلوچستان کی 16 اور اسلام آباد کی 3 جنرل نشستیں ہیں۔

قومی اسمبلی کے 336 ارکان کے ایوان میں 60 نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ ان 60 مخصوص نشستوں میں سے پنجاب کے حصے میں 32، سندھ کے حصے میں 14، خیبر پختونخوا کے حصے میں 10 جبکہ بلوچستان کے حصے میں 4 نشستیں ہیں۔

قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے 10 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں مگر یہ اقلیتی نشستیں صوبوں کے بجائے پورے پاکستان کے لیے مخصوص ہیں۔

چاروں صوبائی اسمبلیوں کی 749 نشستوں میں سے عمومی نشستوں کی تعداد 593 جبکہ خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد 156 ہے۔ یعنی جیسے قومی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سے 266 پر براہِ راست انتخاب ہوتے ہیں بالکل ویسے ہی چاروں صوبوں کی 749 نشستوں میں سے 593 پر عوام براہِ راست ووٹ ڈالتے ہیں۔

اس بات کو ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے 266 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 593 انتخابی حلقوں کو ملایا جائے تو پاکستان میں کُل انتخابی حلقوں کی تعداد 859 بنتی ہے جہاں براہِ راست عام انتخابات کا انعقاد آئینی ضرورت ہے۔

پنجاب اسمبلی میں کُل نشستیں

پنجاب اسمبلی کے کُل ارکان یا کُل نشستوں کی تعداد 371 ہے، جن میں سے 297 عمومی نشستیں ہیں جبکہ خواتین کے لیے 66 اور اقلیتوں کے لیے 8 نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔

سندھ اسمبلی میں کُل نشستیں

سندھ اسمبلی کے کُل ارکان یا کُل نشستوں کی تعداد 168 ہے۔ جن میں سے 130 عمومی نشستیں ہیں جبکہ خواتین کے لیے 29 اور اقلیتوں کے لیے 9 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔

خیبرپختونخوا اسمبلی میں کُل نشستیں

خیبر پختونخوا اسمبلی کے کُل ارکان یا کُل نشستوں کی تعداد 145 ہے۔ جن میں سے 115 عمومی نشستیں ہیں جبکہ خواتین کے لیے 26 اور اقلیتوں کے لیے 3 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔

بلوچستان اسمبلی میں کُل نشستیں

بلوچستان اسمبلی کے کُل ارکان یا کُل نشستوں کی تعداد 65 ہے۔ جن میں سے 51 عمومی نشستیں ہیں جبکہ خواتین کے لیے 11 اور اقلیتوں کے لیے 3 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔

صدارتی انتخاب کے لیے آئیڈیل الیکٹورل کالج کیا ہے؟

ایوانِ بالا یعنی سینیٹ، ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی اور چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں کے کُل اراکین صدارتی انتخاب کا الیکٹورل کالج ہیں۔ یعنی ان 6 ایوانوں کے 1185 ارکان (سینیٹ کے 100، قومی اسمبلی کے 336، پنجاب اسمبلی کے 371، سندھ اسمبلی کے 168، خیبر پختونخوا اسمبلی کے 124 جبکہ بلوچستان اسمبلی کے 65) صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔

صدارتی انتخاب سے متعلق آئین میں واضح کیا گیا ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے تمام اراکین کا ایک ایک ووٹ ہوگا لیکن چاروں صوبائی اسمبلیوں کا ووٹ، ملک میں ارکان کی تعداد کے لحاظ سے سب سے چھوٹی صوبائی اسمبلی یعنی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد کے برابر تصور کیا جائے گا۔ یعنی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 65 ہے تو باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں کے کل ووٹ بھی 65 ہی شمار ہوں گے۔

اس کے لیے طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ پنجاب اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 371 کو بلوچستان اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 65 سے تقسیم کیا جائے گا اور یوں پنجاب اسمبلی میں 5.70 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔

سندھ اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 168 کو بلوچستان اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 65 سے تقسیم کیا جائے گا اور یوں سندھ اسمبلی میں 2.58 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔

خیبرپختونخوا اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 145 کو بلوچستان اسمبلی کی کُل نشستوں کی تعداد 65 سے تقسیم کیا جائے گا اور یوں خیبر پختونخوا اسمبلی میں 2.23 ارکان کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔

بلوچستان اسمبلی کے کُل ارکان کی تعداد 65 ہے اس لیے یہاں ہر رکن کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔ باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں میں مذکورہ فارمولے کے استعمال کرنے کے بعد ان تینوں صوبائی اسمبلیوں کے اپنے اپنے کُل ووٹوں کی تعداد بھی 65 ہی ہوگی۔

یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ صدارتی انتخاب میں کُل ووٹوں کی تعداد قومی اسمبلی کے 336، سینیٹ کے 100 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 260 ووٹوں (65 ضرب 4) کو ملا کر 696 بنے گی۔

صدارتی انتخاب میں ون ٹو ون مقابلے کی صورت میں جیتنے والے امیدوار کے لیے 349 ووٹ لینا لازم ہے گویا کہ 349 ایک آئیڈیل وننگ گولڈن نمبر ہوگا۔

اگر صدارتی انتخاب کے وقت ملک کے تمام ایوانوں میں تمام 1185 ارکان کی تعداد پوری ہو تو یہ ایک آئیڈیل صورتحال ہوگی، اس لیے 1185 اراکین کا الیکٹورل کالج ایک آئیڈیل الیکٹورل کالج کہلائے گا۔

صدارتی انتخاب کے لیے آئیڈیل الیکٹورل کالج 1185 ارکان، آئیڈیل ووٹ 696 جبکہ آئیڈیل وننگ گولڈن نمبر 349 صرف آئیڈیل حالات میں ہی ممکن ہے۔

صدر کے انتخاب کے لیے موجودہ الیکٹورل کالج کیا ہے؟

ملک کے صدر کے انتخاب کے قواعد و ضوابط کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کہیں بھی، کسی بھی ایوان کے کُل ووٹوں یا موجود ووٹوں کا ذکر نہیں بلکہ ڈالے گئے ووٹوں کا ذکر ہے۔

سینیٹ میں کُل ارکان اور کُل ووٹوں کی تعداد 100 ہے۔ اراکین کے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر منتخب ہونے کے بعد سینیٹ کی 6 نشستیں خالی ہو چکی ہیں جن پر انتخابات 14 مارچ کو ہوں گے۔ ان میں سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والے پاکستان پیپلزپارٹی کے نثار کھوڑو اور جام مہتاب ڈہر، قومی اسمبلی کے حلقوں سے الیکشن جیتنے والے یوسف رضا گیلانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کے علاوہ بلوچستان اسمبلی کی نشستیں جیتنے والے سرفراز بگٹی اور شہزادہ احمد عمر شامل ہیں، جبکہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے جن کا ایک سینیٹر ہے۔ اب اگر تمام موجودہ سینیٹرز صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالتے ہیں تو موجودہ ووٹوں اور کُل ووٹوں کی تعداد دونوں ہی 93 ہوگی، تاہم اگر بالفرض 2 ارکان ووٹ نہ ڈالیں تو ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعداد 91 یعنی موجود ووٹوں 93 سے مختلف ہوجائے گی۔

قومی اسمبلی میں کُل ارکان اور کُل ووٹوں کی تعداد 336 ہے۔ ایک حلقے این اے 8 میں انتخاب نہیں ہوا، جبکہ این اے 146 کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ یہ تعداد 334 رہ جاتی ہے جبکہ پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے خلاف دائر درخواست پر ارکان کو 13 مارچ تک حلف اٹھانے سے روکنے کا حکم دے رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن نے خواتین کی باقی 20 اور اقلیتوں کی تین مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو جاری کر دی تھیں۔ یوں اس وقت قومی اسمبلی میں موجود اور ڈالے جانے والے ممکنہ ووٹوں کی تعداد 311 ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں کُل ارکان اور کُل ووٹوں کی تعداد 65 ہے۔ یہاں الیکشن کمیشن نے 3 نشستوں پر نتائج روک رکھے ہیں۔ یوں بلوچستان اسمبلی میں کُل ووٹوں کی تعداد 65، موجودہ ووٹوں کی تعداد 62 ہوگی۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں کُل نشستوں کی تعداد 145 ہے۔ یہاں پر 2 نشستوں پر انتخاب نہیں ہوا جبکہ الیکشن کمیشن نے 4 صوبائی حلقوں کے نتائج روک رکھے ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے نتائج مکمل ہونے پر ایک اقلیتی نشست کا کوٹا بھی دیا جائے گا۔ اس طرح 138 نشستیں بنتی ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر اقلیتوں کی 3 اور خواتین کی 20 مخصوص نشستوں پر 13 مارچ تک حکم امتناع دے رکھا ہے۔ یہاں پر ووٹ ڈالنے کے اہل ارکان کی تعداد 115 ہے۔

سندھ اسمبلی میں کُل نشستوں کی تعداد 168 ہے۔ یہاں 2 نشستوں پر نوٹی فکیشن جاری نہیں ہوا ایک نشست پر کامیاب امیدوار کی وفات اور ایک پر امیدوار نے اخراجات کی تفصیل جمع نہیں کرائی۔ اس طرح یہ تعداد 164 رہ گئی۔ جبکہ جی ڈی اے نے صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے 3 اراکین ہیں اور انہوں نے حلف بھی نہیں اٹھایا ہے۔ یعنی یہاں پر ووٹ ڈالنے کے اہل ارکان کی تعداد 161 ہے۔

پنجاب اسمبلی میں کُل نشستوں کی تعداد 371 ہے۔ ایک حلقے میں الیکشن نہیں ہوا، 4 حلقوں کے نوٹی فکیشن الیکشن کمیشن نے روک رکھے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں سے ووٹ ڈالنے کے اہل ارکان کی تعداد 366 ہے۔ لیکن تادم تحریر سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں کے خلاف درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں آج سماعت ہونی ہے۔

آئیڈیل الیکٹورل کالج، موجودہ الیکٹورل کالج میں کیسے بدلے گا؟

صدارتی انتخاب کے آئیڈیل الیکٹورل کالج میں 1185 ارکان تصور کیے جاتے ہیں تاہم اس وقت سینیٹ ارکان کی تعداد 100 کے بجائے 93 جبکہ قومی اسمبلی ارکان کی تعداد 336 کے بجائے 311 ہے۔ پنجاب اسمبلی میں صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ ڈالنے والے، اہل ارکان کی تعداد 371 کے بجائے 366، سندھ اسمبلی میں اہل ارکان کی تعداد 168کے بجائے 161، خیبر پختونخوا اسمبلی میں اہل ارکان کی تعداد 145 کے بجائے 115 جبکہ بلوچستان اسمبلی میں اہل ارکان کی تعداد 65 کے بجائے 62 ہے۔ گویا آئیڈیل الیکٹورل کالج کے 77 ارکان اس وقت موجود نہیں اور یوں ملک کے حالیہ صدارتی انتخاب کے موجودہ الیکٹورل کالج میں 1185 نہیں بلکہ 1108 ارکان شمار کیے جائیں گے۔

اہم ترین اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ملک میں ارکان کی تعداد کے حوالے سے سب سے چھوٹی اسمبلی بلوچستان اسمبلی میں اس وقت اہل ووٹرز اور ممکنہ طور پر ووٹ ڈالنے والے ارکان کی تعداد 62 ہے۔ یوں باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں میں ووٹرز کی تعداد 62 ہی مانی جائے گی۔

الیکٹورل کالج کے بدلنے سے کل ووٹس اور وننگ گولڈن نمبر کیسے بدلے گا؟

صدارتی انتخاب کے آئیڈیل الیکٹورل کالج 1185 ارکان کی موجودہ الیکٹورل کالج 1108 ارکان میں تبدیلی کی صورت میں آئیڈیل ووٹس بھی موجودہ ووٹس میں بدل جائیں گے۔ سینیٹ کے 93، قومی اسمبلی کے 311 جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 248 (62 ضرب 4) ووٹ جمع کرنے کے بعد یہ تعداد 652 بنتی ہے۔ یوں آئیڈیل ووٹس 696 اب موجودہ ووٹس 652 میں تبدیل ہوجائیں گے۔ کُل ووٹوں کی تبدیلی کی صورت میں وننگ گولڈن نمبر بھی اب 349 کے بجائے 327 ہوجائے گا۔ یعنی ون ٹو ون مقابلے کی صورت میں اگر صدارتی انتخاب کے لیے موجودہ الیکٹورل کالج کے تمام 1108 ارکان ووٹ ڈالیں تو موجودہ ووٹس 652 میں سے 327 ووٹ لینے والا ملک کا صدر منتخب ہوجائے گا۔

الیکٹورل کالج کے بدلنے سے صدارتی ووٹ گننے کا فارمولا کیسے بدلے گا؟

ایک ایسی صورتحال میں جب ملک کی سب سے چھوٹی اسمبلی یعنی بلوچستان اسمبلی میں ووٹ ڈالنے کے اہل ارکان کی تعداد 65 کے بجائے 62 ہے تو اب باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں کے کُل نہیں بلکہ اہل ووٹوں کو، 65 نہیں بلکہ 62 سے تقسیم کیا جائے گا۔

پنجاب اسمبلی میں ووٹ کے لیے اہل ارکان کی تعداد 366 ہے اور اسے 62 سے تقسیم کرنے کے بعد پنجاب اسمبلی کے 5.9 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔

سندھ اسمبلی میں ووٹ کے لیے ارکان کی تعداد 161 ہے اور اسے 62 سے تقسیم کرنے کے بعد سندھ اسمبلی کے 2.59 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں ووٹ کے لیے اہل ارکان کی تعداد 115 ہے اور اسے 62 سے تقسیم کرنے کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی کے 1.85 ارکان کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔

موجودہ ایوانوں میں پارٹی پوزیشن کیا ہے؟

سینیٹ

سینیٹ کے اہل 93 ووٹر اراکین میں سے جماعت اسلامی کا ایک، مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 5، پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 21، تحریکِ انصاف ارکان کی تعداد 24، آزاد سینیٹرز کی تعداد 23، ایم کیو ایم پاکستان ارکان کی تعداد 3، جمعیت علمائے اسلام کے ارکان کی تعداد 4، نیشنل پارٹی ارکان کی تعداد 3، مسلم لیگ (ف) کے ایک رکن، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک رکن، عوامی نیشنل پارٹی کے اراکین کی تعداد 2، بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین کی تعداد 4 اور پاکستان مسلم لیگ کا ایک رکن شامل ہے۔

قومی اسمبلی

قومی اسمبلی کے اہل 311 ووٹرز اراکین میں سے مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 123، سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی تعداد 82، پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 73، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے ارکان کی تعداد 22، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اراکین کی تعداد 11، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ارکان کی تعداد 5، استحکام پاکستان پارٹی کے اراکین کی تعداد 4، پاکستان مسلم لیگ (ضیا) کا ایک، بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا ایک، نیشنل پارٹی کا ایک، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک اور آزاد امیدوارکی تعداد 9 ہے، جو کسی جماعت میں شامل نہیں ہوئے۔

پنجاب اسمبلی

پنجاب اسمبلی کے 366 اہل ووٹرز اراکین میں سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 224 سنی اتحاد کونسل کے 106، پیپلزپارٹی کے 16، مسلم لیگ (ق) کے 11، استحکام پاکستان پارٹی کے 6، تحریک لبیک پاکستان کا ایک، مسلم لیگ (ضیا) کا ایک اور مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کی ایک نشست ہے۔

سندھ اسمبلی

سندھ اسمبلی کے 161 اہل ووٹرز اراکین میں سے پیپلز پارٹی کے 116، ایم کیو ایم کے 37، (پی ٹی آئی حمایت یافتہ) آزاد اراکین 9 ہیں جبکہ جی ڈی اے کے 3 اراکین نے حلف نہیں اٹھایا، 2 نشستوں پر نوٹی فکیشن جاری نہیں ہوا ایک نشست پر کامیاب امیدوار کی وفات اور ایک نشست پر امیدوار نے اخراجات کی تفصیل جمع نہیں کرائی۔

خیبر پختونخوا اسمبلی

خیبر پختونخوا اسمبلی کے 115 اہل ووٹرز ارکین میں سے سنی اتحاد کونسل کے 90، جے یو آئی (ف) کے 7، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 6، پیپلزپارٹی کے 4، جماعت اسلامی کے 3، عوامی نیشنل پارٹی کے 2 اور تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کے بھی 2 رکن ہیں۔ 2 نشستوں پر انتخاب نہیں ہوا جبکہ الیکشن کمیشن نے 4 صوبائی حلقوں کے نتائج روک رکھے ہیں اور نتائج مکمل ہونے پر ایک اقلیتی نشست کا کوٹا بھی دیا جائے گا۔ پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر اقلیتوں کی 20 اور خواتین کی 3 مخصوص نشستوں پر 13 مارچ تک حکم امتناع دے رکھا ہے۔

بلوچستان اسمبلی

بلوچستان اسمبلی کے 62 اہل ووٹرز اراکین میں سے پیپلزپارٹی کے 17، مسلم لیگ (ن) کے 16، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 12، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، نیشنل پارٹی کے 4، عوامی نیشنل پارٹی کے 3، جماعت اسلامی کا ایک، بلوچستان نیشنل پارٹی کا ایک، حق دو تحریک کا ایک اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کا ایک رکن ہے۔ الیکشن کمیشن نے 3 صوبائی نشستوں پر نتائج روک رکھے ہیں۔

کون سی سیاسی جماعت کہاں کھڑی ہے؟

مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں بننے والے نئے حکمران اتحاد میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ (ق) اور استحکام پاکستان پارٹی پر مشتمل ہے، جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی بھی آصف زرداری کو ووٹ دے گی۔

اس وقت اپوزیشن میں سنی اتحاد کونسل اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی شامل ہیں اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے اب تک ووٹ دینے کا فیصلہ نہیں کیا، جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے ووٹ کاسٹ نہ کیے جانے کی توقع ہے۔

کس کے کہاں کتنے ووٹ؟

سینیٹ میں ایک رکن کا ایک ووٹ

سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے آزاد امیدوار ملا کر کل 15، پاکستان پیپلزپارٹی کے آزاد اراکین ملا کر 23، ایم کیو ایم پاکستان کے 3، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، عوامی نیشنل پارٹی کے 2 ووٹ ووٹ آصف زرداری کو ملیں گے جبکہ دلاور گروپ کے 4 ووٹ، پاکستان مسلم لیگ کا ایک بھی حکومتی اتحاد کو ملنے کے امکانات ہیں، اس طرح آصف زرداری باآسانی 53 ووٹ حاصل کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ 2 آزاد اراکین کے کسی کو بھی مل سکتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹرز کی تعداد 25، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ایک سینیٹر کا ووٹ محمود اچکزئی کو 26 ووٹ ملنے کا امکان ہے جبکہ جے یو آئی (ف) کے 4 اور نیشنل پارٹی کے 3 ارکان کی جانب سے ووٹ کاسٹ نہ کیے جانے کا امکان ہے، مسلم لیگ (ف) اور جماعت اسلامی کا ایک ایک سینیٹر کسی کو بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔

قومی اسمبلی میں ایک رکن کا ایک ووٹ

قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 107، پاکستان پیپلزپارٹی کے 68، متحدہ قومی موومنٹ کے 22، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 5، استحکام پاکستان پارٹی کے 4 اور بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک ووٹ بھی حکومتی اتحاد کے امیدوار کو ملے گا، اس طرح آصف زرداری 207 ووٹ مل سکیں گے۔

قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین کی تعداد 82 ہے، اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک رکن ہے۔ یوں محمود خان اچکزائی قومی اسمبلی میں 83 ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 7 کی جانب سے ووٹ نہ ڈالے جانے کا امکان ہے، جبکہ خفیہ رائے شماری میں پاکستان مسلم لیگ (ضیا) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا ووٹ کس بھی امیدوار کو مل سکتا ہے۔

قومی اسمبلی میں آزاد ارکان کی تعداد 9 ہے۔ خفیہ رائے شماری میں ان کا ووٹ کسی کو بھی مل سکتا ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن کا ایک ووٹ

بلوچستان اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے 17، مسلم لیگ (ن) کے 16، بلوچستان عوامی پارٹی کے 5، عوامی نیشنل پارٹی کے 3 ووٹ ہیں، اس طرح صدر آصف زرداری کو بلوچستان اسمبلی سے 41 ووٹ مل سکتے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 12 ارکان کی جانب سے ووٹ نہ دیے جانے کا امکان ہے۔جبکہ نیشنل پارٹی کے 4 ارکان، حق دو تحریک کا ایک اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کا ایک رکن ہے، ان کے ووٹ کسی بھی امیدوار کو دیے جاسکتے ہیں۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں 1.85 ارکان کا ایک ووٹ

خیبر پختونخوا اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے ارکان کی تعداد 90 ہے۔ یعنی 90 کو 1.85 سے تقسیم کیا جائے تو خیبر پختونخوا اسمبلی سے محمود اچکزئی 48.3 ووٹ باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے 6، پیپلزپارٹی کے 4، اے این پی کا ایک اور تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے 2 ووٹ حکومتی اتحاد کے امیدوار کو مل سکتے ہیں، اس طرح آصف زرداری کو 13 ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ 13 کو 1.85 پر تقسیم کیا جائے تو خیبر پختونخوا اسمبلی سے انہیں 7.02 ووٹ باآسانی مل سکتے ہیں۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں جماعت اسلامی کے 3 ووٹ کسی کو بھی مل سکتے ہیں جو 1.62 بنتے ہیں۔

سندھ اسمبلی میں 2.71 ارکان کا ایک ووٹ

سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے 116، ایم کیو ایم کے 37 ووٹ کو ملا کر حکومتی ارکان کی کل تعداد 153 ہے۔ یعنی 153 کو 2.71 ارکان پر تقسیم کیا جائے تو سندھ اسمبلی سے آصف زرداری 56.45 ووٹ باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔ تاہم عدالت نے سندھ کی 3 مخصوص نشستوں کے ووٹ کو فیصلہ کن ہونے پر صدارتی انتخاب میں کاؤنٹ نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

سندھ اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے 9 ووٹ ہے۔ یعنی 2.71 پر تقسیم کیا جائے تو 3.32 کا عدد حاصل ہوتا ہے، یوں بظاہر محمد اچکزئی سندھ اسمبلی سے 3 ووٹ لے سکیں گے۔

پنجاب اسمبلی میں 5.9 ارکان کا ایک ووٹ

پنجاب اسمبلی میں نواز لیگ کے ارکان کی تعداد 224، پیپلزپارٹی کے 16، مسلم لیگ (ق) کے 11، استحکام پاکستان پارٹی کے 6 اراکین ہے، یہ کل 257 ووٹ بنتے ہیں، اگر 5.9 سے تقسیم کیا جائے تو 43.55 ووٹ آصف زرداری کو مل سکتے ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے 106، مجلس وحدت مسلمین کا ایک ووٹ محمود اچکزئی کو ملے گا، 5.9 سے تقسیم کرنے پر انہیں پنجاب اسمبلی سے 18.13 ووٹ ملیں گے۔جبکہ مسلم لیگ (ضیا) اور تحریک لبیک کا ووٹ کسی کو بھی مل سکتا ہے۔

ممکنہ نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟

شہباز شریف کے زیر قیادت حکمران اتحاد کے امیدوار آصف زرداری اگر اپنی جماعت اور اتحادی جماعتوں کے تمام ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو انہیں سینیٹ سے 53، قومی اسمبلی سے 207، بلوچستان اسمبلی سے 41، خیبر پختونخوا اسمبلی سے 7، سندھ اسمبلی سے 56 اور پنجاب اسمبلی سے 43.55 یعنی کُل ملا کر 407 ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمود اچکزئی اگر اپنی اتحادی جماعتوں کے تمام ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو سینیٹ سے 26، قومی اسمبلی سے 83، بلوچستان اسمبلی سے 1، خیبر پختونخوا اسمبلی سے 48.3 جبکہ پنجاب اسمبلی سے 18 ووٹ یعنی کُل ملا کر 176 ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں۔

فارمولا بدل بھی سکتا ہے مگر کیسے؟

جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا گیا ہے کہ صدارتی انتخاب کے ووٹنگ کے طریقہ کار میں کل ووٹوں، موجود ووٹوں یا اہل ووٹوں کے بجائے ’ڈالے گئے‘ ووٹوں کا ذکر ملتا ہے۔ یعنی فرض کیجیے کہ بلوچستان اسمبلی میں 60 ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور پنجاب اسمبلی میں 300 تو پنجاب اسمبلی کے 5 ارکان کا ایک ووٹ شمار ہوگا۔ لیکن اگر بلوچستان اسمبلی میں 30 ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور پنجاب اسمبلی میں 300 تو پھر پنجاب اسمبلی کے 10 ارکان کا ایک ووٹ شمار ہوگا یعنی ہر صورت میں ووٹوں کی گنتی کا فارمولا پولنگ کے بعد ہی طے کیا جائے گا۔

حرف آخر

اس وقت صدارتی انتخاب کے لیے 1108 ارکان کا الیکٹورل کالج ہے۔ ان 1108 ارکان کے کُل ووٹوں کی تعداد 652 ہے۔ صدر منتخب ہونے کے لیے 327 ارکان کے ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔ بظاہر آصف زرداری پہلے اور محمود اچکزئی دوسرے نمبر پر نظر آرہے ہیں۔

اس وقت 652 کے الیکٹورل کالج میں پیپلزپارٹی کے آصف زرداری 407 ووٹوں کے ساتھ برتری لیے نظر آتے ہیں تاہم اپوزیشن کے امیدوار کے کُل 176 ووٹ ہوسکتے ہیں۔