کھیل

گڈ بائے واٹمور

تمام خرابیوں کے ذمےدار صرف مصباح یا واٹمورنہیں بلکہ ٹیم میں موجود کچھ سینئرز تھے جو ٹیم پر ایک عرصے سے بوجھ بنے ہوئے ہیں

سری لنکا کے خلاف ناقابل یقین فتح کے ساتھ قومی کوچ ڈیو واٹمور کا تقریباً دو سال پر محیط سفر خوشگوار انداز میں اختتام کو پہنچا اور کامیابی کو کوچ کے لیے رخصتی کا تحفہ کہا جائے تو یقیناًغلط نہ ہو گا۔

اگر ابتدا سے جائزہ لیا جائے تو سابق آسٹریلین کرکٹر کی تعیناتی ہی ایک بہت بڑا معمہ تھی جنہیں ایک ایسے وقت میں اس کوچ کی جگہ ذمے داریاں سونپی گئیں جس نے عالمی نمبر ایک ٹیم کے خلاف پاکستان کو تین صفر کی وائٹ واش فتح سے ہمکنار کرایا تھا۔

بہر حال بطور کوچ واٹمور اپنی پہلی آزمائش میں کامیاب رہے جہاں ان کی کوچنگ میں پاکستان کو دوسری بار ایشیا کپ جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

اس کے بعد ایک روزہ کرکٹ میں تو گرین شرٹس کی کارکردگی کسی حد تک بہتر رہی لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں مصباح کی زیرقیادت پاکستانی ٹیم نے اس سے زیادہ ناقص کارکردگی کا مظاہرہ ماضی میں کبھی نہ کیا تھا۔

سن 1996 میں سری لنکا کو ورلڈ کپ جتوانے والے کوچ کی ٹیسٹ کرکٹ میں ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی زیر نگرانی کھیلی گئی پانچ ٹیسٹ سیریز میں سے پاکستانی ٹیم ایک بھی اپنے نام نہ کر سکی اور یہ اس لیے بھی زیادہ عجیب معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں سے ایک سیریز زمبابوے جیسی کمزور ٹیم کے خلاف کھیلی گئی۔

اس دوران خراب کی ذمے داری جہاں مصباح پر عائد کی گئی وہیں ٹیم مینجمنٹ کی جانب سے بھی کچھ ناقابل فراموش غلطیاں کی گئیں جس میں عرفان کی جنوبی افریقہ کے خلاف جوہانسبرگ ٹیسٹ اور طلحہ کی سری لنکا کے خلاف سیریز کے ابتدائی دو میچز میں عدم شمولیت قابل ذکر ہیں۔

تاہم ایک روزہ میچز میں اس دوران ٹیم کی کارکردگی خاصی بہتر رہی اور اس نے کچھ کارہائے نمایاں انجام دیے جس میں بلاشبہ سب سے بڑی کامیابی روایتی حریف ہندوستان اور جنوبی افریقہ کو ان کی ہی سرزمین پر شکست دینا تھا خصوصاً انڈیا کے خلاف جس طرح پوری ٹیم یکجا ہو کر کھیلی اس نے عالمی چیمپئن کے اوسان خطا کر دیے۔

دو ہزار تیرہ کا سال اس لحاظ سے خاصا یادگار رہا کہ قومی ٹیم نے سات ایک روزہ میچز کی سیریز اپنے نام کیں اور اس میں خاص بات یہ تھی کہ سوائے سری لنکا کے، تمام ہی سیریز گرین شرٹس نے غیر ملکی سرزمین پر جیتیں۔

تاہم اگر جنوبی افریقہ کے خلاف ابو ظہبی ٹیسٹ کی فتح کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو ٹیسٹ کرکٹ میں ہر گزرتی سیریز کے ساتھ پرفارمنس زبوں حالی کا شکار رہی۔

واٹمور اور مصباح اس حوالے سے بھی خوش قسمت رہے کہ بورڈ میں تبدیلیوں کے باعث ان پر کسی قسم کا دباؤ بھی نہ تھا لیکن اس کے باوجود خصوصاً کوچ اپنے کردار سے انصاف کرنے میں ناکام رہے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ سابق آسٹریلین کھلاڑی عام طور پر اپنے جارحانہ مزاج اور کوچنگ کے باعث جانے جاتے تھے اور ماضی میں اسی بنیاد پر پاکستانی کھلاڑیوں کے ایک بااثر گروہ نے ان کی تعیناتی ناکام بنا دی تھی۔

لیکن اپنے مزاج کے برخلاف وہ پورے دور میں جارحانہ انداز اپنانے سے قاصر دکھائی دیے اور شاید مصباح کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی دفاعی انداز پر اکتفا کیا اور اس حکمت عملی کے باعث ٹیم نے کئی مواقعوں پر جیتی بازی ہاتھ سے گنوا دی۔

واٹمور کی بطور کوچ سب سے بڑی ناکامی ٹیم میں متعدد نوجوان کھلاڑیوں کی موجودگی کے باوجود مستقبل کے لیے نئے کپتان کی عدم تیاری ہے جہاں مصباح یقینی طور پر اپنے کیریئر کے آخری سال کا آغاز کر چکے ہیں لیکن ٹیم میں اسد شفیق، اظہر علی سمیت دیگر نوجوانوں کی موجودگی کے باوجود وہ مستقبل کے لیے قومی ٹیم کی قیادت کے لیے نئے خون کی فراہمی میں ناکام رہے۔

اس کی ایک اور وجہ ان کھلاڑیوں کو تسلسل سے مواقع فراہم نہ کرنا ہے جس سے ناصرف ان کھلاڑیوں کی کارکردگی عدم تسلسل کا شکار رہی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کا اعتماد بھی متزلزل ہوا جس کے ان کے کیریئر پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔

لیکن ان تمام خرابیوں کے ذمے دار صرف مصباح یا واٹمور نہیں بلکہ ٹیم میں موجود کچھ سینئرز تھے جو ٹیم پر ناصرف ایک عرصے سے بوجھ بنے ہوئے ہیں بلکہ یہ اس حد تک بااثر ہیں کہ شاید کپتان اورکوچ بھی ان کے سامنے بے بس ہیں۔

تمام تر تنقید کے باوجود واٹمور کی کوچنگ میں ایک چیز ایسی تھی جس میں نمایاں طور پر مثبت تبدیلی دیکھنے میں آئی اور وہ تھی فیلڈنگ، ماضی کی طرح کیچ چھوڑنے کی روایت تو ہم نے برقرار رکھی لیکن گراؤنڈ فیلڈنگ میں ٹیم نے نمایاں بہتری کا مظاہرہ کیااور کھلاڑی فیلڈ میں جان مارتے دکھائی دیے جس کا سہرا یقیناً کوچ ہی کے سر ہے۔

نیا کوچ کون

بہر حال چند تلخ اور اچھی یادوں کے ساتھ واٹمور کا دور اختتام پذیر ہوا لیکن اس کے ساتھ ہی اب بورڈ کے سامنے نئے کوچ کی تقرری کا مشکل مرحلہ آن کھڑا ہوا ہے جسے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اور پھر آئندہ سال ہونے والے کرکٹ کے سب سے بڑے مقابلے ورلڈ کپ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ذمے داریاں کسی اہل فرد کوسونپنی ہوں گی۔

رپورٹس کے مطابق اس وقت قومی ٹیم کے اگلے کوچ کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کرکٹرز محسن حسن خان، وقار یونس اور معین خان کے نام زیر غور ہیں لیکن وقار اور محسن اس عہدے کے لیے مضبوط امیدوار دکھائی دیتے ہیں کیونکہ دونوں کھلاڑی ماضی میں قومی ٹیم کی کوچنگ کر چکے ہیں۔

اس سلسلے میں اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ کرکٹ کا سب سے بڑا ایونٹ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی پچز پر منعقد ہو گا جہاں پاکستانی ٹیم ہمیشہ مشکلات کا شکار رہی ہے لہٰذا ہیڈ کوچ کے ساتھ ایک ایسا بیٹنگ کوچ بھی لایا جائے جو ٹیم کو ان وکٹوں پر کھیلنے کا گر سکھانے میں مددگار ثابت ہو۔

واٹمور کے تجربے کے بعد غیر ملکی کوچ کی تعیناتی کا خطرہ تو یقیناً دوبارہ مول نہیں لیا جائے گا لیکن امید ہےکہ بورڈ کسی ایسے شخص کی تقرری یقینی بنائے گا جو عالمی کپ میں پاکستان کی فتح یقینی بنا سکے۔