فیصلہ پھر نہیں
وہاں امید کی ایک ہلکی سی جھلک نظر آئی تھی لیکن پھر اس کے بعد، اتنی ہی تیزی سے وہ حقیقت کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش بھی ہو گئی۔
ملک بھر میں عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی حالیہ ہفتوں کے دوران اٹھنے والی تازہ ترین لہر کے پس منظر میں، پیر کو بلایا جانے والا قومی اسمبلی کا اجلاس گرچہ تاخیر سے طلب ہوا تاہم اجلاس کی طلبی اور منعقد ہونے کے دوران، فضا میں صدائیں گونج رہی تھیں کہ آخرِ کار حکومت عسکریت پسندی پر اپنی پالیسی کی خاطر سنجیدہ ہوچکی اور وزیرِ اعظم بنفسِ نفیس ایوان میں رونق افروز ہو کر، پیشرفت کی خاطر حکومتی حکمتِ عملی کا اعلان کریں گے۔
نتیجہ، آخر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اگرچہ اپوزیشن نے پارلیمانی طریقہ کار پر عمل کی نئی ضرورت کا پُرزور اظہار کیا لیکن بے جان پارلیمنٹ میں جان ڈالنے کی خاطر حکومت کی طرف سے بدستورعدم دلچسپی کا مظاہرہ جاری ہے۔
جیسا کہ ماضی میں بھی ان کو ایوان میں آنا کبھی پسند نہیں رہا تھا لیکن اس بار قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم کے پاؤں نہ دھرنے سے، یکسر ایک نئی جہت کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ حیرانی سے کسی طور کم نہیں کہ اس دن نواز شریف نے اپنی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس طلب کیا تاہم انہوں نے پارلیمنٹ کو چھوٹی سے امید دلانے کے قابل نہ سمجھا۔
وزیرِ داخلہ چوہدری نثارعلی نے پارلیمنٹ سے ایک چھوٹی سی معذرت طلب کرتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات و طریقہ کار پر وزیرِ اعظم نے مزید مشاورت کا فیصلہ کیا ہے تاہم انہوں نے ایوان کو یقین دلایا کہ وزیرِ اعظم جلد ایوان میں تشریف لائیں گے۔
کمیٹیوں اور آل پارٹیز کانفرنسوں کی اموات اور مشاورت کے نام پر تاخیری حربے، ہمارے سیاستدانوں کی آزمودہ دستی کتاب میں تحریر وہ پرانے نسخے ہیں جنہیں تب آزمایا جاتا ہے جب وہ کوئی فیصلہ کرنا نہیں چاہ رہے ہوں۔
وزیرِ داخلہ کی ابہام سے پُر تقریر سے اس بات کی امید کم ہی نظر آرہی تھی کہ حکومت کسی فیصلے کے قریب تک پہنچ چکی ہو۔ حکومت سے ایک سادہ سا سوال ضرور پوچھنا چاہیے: اگر اب نہیں تو پھر کب؟ تشدد کی بڑھتی لہر کو پیچھے دھکیلنے کے واسطے حکومت کب فیصلہ کرے گی؟
اگر نئے سال کے آغاز سے شروع ہونے والی تشدد کی یہ بدترین لہر فوری اور یقینی ردِ عمل کی خاطر کافی نہیں تو پھر عوام اور سیکیورٹی فورسز کو بچانے کے واسطے تشدد کا وہ کون سا معیار ہوگا، جو حکومت کومتحرک کر کے جوابی ردِ عمل کی خاطر، فیصلے پر تیار کردے؟
مذاکرات کے آپشن پر وزیرِ داخلہ کا لب و لہجہ نہایت عاجزانہ تھا: مذاکرات کی بات نہ تو کبھی کوئی پالیسی رہی اور نہ ہی یہ کبھی موثر پالیسی ہوگی۔
مسلم لیگ کے اندر بھی اس پر سخت موقف پایا جاتا ہے، جیسا کہ خود وزیرِ اطلاعات کی صحافیوں سے کی جانے والی گفتگو ثبوت فراہم کرتی ہے، لگتا ہے کہ مسلم لیگ نون کی پارلیمانی پارٹی بھی اب حالات کی نزاکت سمجھنے لگی ہے۔ یقیناً، اتفاقِ رائے کی ضرورت ہوسکتی ہے تاہم عسکریت پسندوں کے خلاف لڑائی کو غیر معینہ مدت تک یرغمال نہیں بنایا جاسکتا۔
جناب وزیرِ اعظم، ملک آپ کی قیادت کا منتظر ہے۔