Dawn News Television

شائع 19 فروری 2014 10:49pm

سیاسی شریعت اور پاکستانی سماج

اسلام کو جتنا نقصان 'اسلامی سیاسی جماعتوں' نے پہنچایا شاید اسلام کی مخالف قوتوں نے بھی نہ پہنچایا ہو. آج دنیا کے سامنے اسلام کی جو مسخ شدہ تصویر پیش کی جا رہی ہے اس میں جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون جیسی نام نہاد نظریاتی قوتوں کا بڑا اہم کردار ہے.

میری بات سن کر یقیناً بہت سوں کے کانوں سے دھواں نکلنے لگے گا لیکن بات وہ اچھی ہوتی ہے جو جوش کے بجائے ہوش سے کی جائے. ہم اس بلاگ میں کوشش کریں گے کہ ان نظریات پر بحث کریں اور پڑھنے والوں کو کسی نتیجے پر پہنچانے کی کوشش کریں.

آج کل پاکستان میں یہ نظریاتی بحث چھڑی ہے کہ اسلامی شریعت کیا ہے اور پاکستان کا آئین اسلامی شریعت کے تابع ہے یا نہیں؟

مولانا عبدالعزیز تو کہتے ہیں کہ آئین کا اپنا وجود ایک سوالیہ نشان ہے کیوں کہ حضرت کے مطابق تو قرآن اور سنت کے بعد کسی آئین کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی. ہم حیران ہیں جب قرآن اور سنت موجود تھے تو رسول نے 'میثاق مدینہ' جیسا طویل دستور کیوں تحریر کرایا تھا؟

آج بحث یہ ہے کہ آیا اسلام واقعی کسی نظام کا نام ہے اور اسلام سے پہلے آنے والے ابراہیمی مذاہب بھی کیا ایک نظام کی حیثیت رکھتے تھے؟

اقتدار پر قابض ہوکر (جائز یا ناجائز) 'من چاہی شریعت' کے بندوق کے زور پر نفاذ کا اسلامی سیاسی جماعتوں کا فارمولا کس حد تک درست ہے؟

تاریخ انسانی سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ بزرگ و برتر نے مختلف ادوار میں اپنے انبیا اکرام کو بھیجا تاکہ وہ زمیں پر تبلیغ کرسکیں اور خلق خدا کو اس کے حقیقی خدا کے بارے میں آگاہی دے سکیں.

تاریخ گواہ ہے کہ ہر نبی نے آکر انسان کے اخلاق کو بہتر بنانے کی کوشش کی نا کہ اقتدار پر قابض ہوکر خدا کا مذہب زبردستی لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی ہو. ایک بڑی تعداد میں سے ہمیں چند ہی انبیااکرام کی مثال ملتی ہے جو ریاست کے سربراہ بھی تھے.

رسول خدا حضرت محمد صلعم کی چالیس سالہ ذندگی صرف کردار سازی پر مبنی ہے، جب ان کو نبوت عطا ہوئی تو دوست اور دشمن ان کے بلند اخلاق کے قائل تھے. پھر تیرہ سالہ مکی ذندگی جو مصائب اور آلام سے بھری ہوئی تھی ہمیں کہیں نہیں دکھتا کہ رسول خدا نے کسی کو زبردستی اسلام قبول کرایا ہو. تیرہ سال صرف اصحاب کرام اور اہلبیت کے اخلاق اور کردار کو بلند کرنے کی تعلیم دیتے رہے. یہ اس تعلیم کا ہی نتیجہ تھا کہ نجاشی جیسا بادشاہ ایک صحابی کے اخلاق اور خلوص سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگیا.

مصائب اور آلام سے بھری مکی ذندگی کے بعد کامیاب مدنی ذندگی ہے. مدینہ آکر بھی رسول خدا نے کسی کو ذبردستی مسلمان کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن ان کا اور ان کے ساتھیوں کا اخلاق اتنا بلند تھا کہ ہر کوئی اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوگیا.

مدینہ کے سیاسی اور سماجی حا لات مکّہ سے بہت مختلف تھے، بہت سارے قبائل اور مذاہب کے لوگ ایک ہی جگہ تھے تو رسول خدا نے نہایت عدل و انصاف کے ساتھ انسانیت کو اس عظیم دستور سے نوازا جسے 'میثاق مدینہ' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.

یہ سب کچھہ کیسے ہوا؟ کسی نظام کے نفاذ سے نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں جواب دہی کا شعور پیدا کرکے کہ ایک دن تمہیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے اور خدا کے نزدیک وہی اچھا انسان ہے جس کا عمل احسن ہے.

نظام ایک سماجی اور سیاسی ڈھانچے کا نام ہوتا ہے جیسے غلامی کا نظام، بادشاہت، جاگیرداری، سرمایہ داری ... سوشل ازم وغیرہ. یہ تمام نظام اپنے وقت کے حالات سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں. تاریخ بتاتی ہے کہ وقت کے ساتھ نظام مٹ جاتا ہے اور اس کی جگہ دوسرا نظام لے لیتا ہے.

میں ایک قدم اور آگے بڑھ کر بات کروں گا کہ ذرائع پیداوار بدلنے سے نظام میں بھی تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے کوئی بھی نظام زماں اور مکاں سے ماورا نہیں رہ سکتا تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ خدا کا نظام نعوذبااللہ وقت کے تغیر کا شکار ہوجائے گا میرا جواب ہے نہیں.

خدا نے زمین پر مذہب کو اتارا ہے نظام نہیں. نظام مذہب کا پابند ہے مذہب نظام کا نہیں. اللہ کا مذہب زماں اور مکاں سے ماورا ہے وہ ہر زمانے اور ہر جگہ کے لئیے زندہ جاوید ہے. ہم جس نظام کو بھی اللہ کے مذہب کا پابند کردیں وہ سماج اور معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن جاتا ہے چاہے وہ بادشاہت ہو، جاگیرداری ہو یا سرمایہ داری.

اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جو قیامت تک رہنے کے لئیے آیا ہے. تاریخ گواہ ہے کہ خلفائےراشدین اور چند اور ایسی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اسلام کو لوگوں کے دلوں تک پہنچا کر ایک عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کیا ہے.

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کسی بادشاہ نے کسی نظام کی طرح نافذ نہیں کیا بلکہ یہاں اولیا اللہ اور صوفی بزرگوں نے اپنے کردار اور اخلاق سے اسلام پھیلایا. آج بھی صوفی بزرگوں کے مزار پر تمام مذاہب کے افراد نہایت عقیدت سے حاضری دیتے ہیں.

چلیں چند لمحوں کے لئے مان لیا کہ اسلام ایک نظام کا نام ہےاور آپ نے اسے نافذ کردیا، لیکن لوگوں کو سچ بولنے پر کیسے مجبور کریں گے؟ رشوت، چور بازاری، ملاوٹ، ناجائز منافع ان چیزوں سے کیسے روکیں گے جب کہ لوگوں کے ایمان ہی مردہ ہوچکے ہوں.

آپ کہیں گے قانون کی سختی سے، تو جناب قانون کی سختی تو مغرب میں بھی ہے اور وہاں کا معاشرہ بھی انصاف پسند ہے.

جہاں تک میں سمجھتا ہوں مذہب 'اجتماعیت' کی نہیں 'انفرادیت' کی بات کرتا ہے، جب ہر فرد اللہ کا خوف رکھے اور اس کا ایمان زندہ ہو تو معاشرہ خود بخود مثالی بن جاتا ہے، نہیں تو دس نظام نافذ کردیں اور لاکھ ڈنڈے مارلیں ایک منصفانہ اور معتدل معاشرہ پیدا نہیں کرسکتے.

مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات کو ابھارنا اور پھر اقتدار پر قابض ہوجانا یہ صرف اسلامی تاریخ نہیں، دوسرے مذاہب کی بھی تاریخ رہی ہے. لہذا جماعت اسلامی اور القاعدہ جیسی تنظیمیں طالبان جیسے سیدھے اور معصوم لوگوں کو اپنے مذموم ارادوں کے لئے استعمال کر رہی ہیں. یہاں یاد رہے طالبان کو میں وحشی درندہ نہیں کہہ رہا کسی بھی مقصد کے لئے اپنی جان قربان کرنے والے وحشی درندے نہیں ہوتے.

Read Comments