Dawn News Television

اپ ڈیٹ 25 فروری 2014 08:31pm

سب تیرے سوا کافر؟

ابو ارسلان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہمارے ٹی وی چینلز بجھے بجھے سے لگ رہے تھے مگر جیسے ہی حکومت نے طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالا ٹی وی چینلز ایک بار پھر گرجنا چمکنا شروع ہوگئے۔

اس بہانے لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز (جو شہادت کا رتبہ حاصل کرنے کی بجائے کالا برقعہ پہن کر فرار ہوتے ہوئے پکڑے گئے تھے) کی چاروں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے۔ میڈیا کے ذریعے ان کے ارشادات صبح دوپہر شام قوم کو سنائے جارہے ہیں۔ عبدالعزیز جو ریاست کے خلاف دہشت گردی کے مرتکب ہوئے تھے، ابو ارسلان کی فیاضی اور دریا دلی کے باعث تمام مقدمات سے بری ہو گئے، الٹا ان کے خلاف آپریشن کرنے والے جنرل مشرف کو غداری کے مقدمے میں ملوث کر دیا۔

میڈیا قوم کو بتارہا ہے کہ جنرل مشرف تین نومبر کا اقدام کرکے ملک و قوم سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں جبکہ مولانا عبدا لعزیز پچھلے ایک ماہ سے ہر چینل پر آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں مگر مجال ہے کوئی ان کو غدار کہہ سکے۔ اب تو کوئی ابو ارسلان بھی نہیں جو سو موٹو نوٹس ہی لے لے۔

مولانا عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ شریعت نافذ کرنی ہو تو دو گھنٹوں میں نافذ ہو جاتی ہے۔ یاد رہے کہ انہوں نے اپریل 2007 میں لال مسجد میں قاضی کورٹ قائم کی تھی اور مقدمات کا فیصلہ سنانا شروع کر دیا تھا۔

ایکسپریس ٹی وی پر ایک پروگرام میں موصوف نے کہا؛"جمہوریت غیر شرعی ہے، ہمارے ہاں انگریز کا قانون پڑھایا جاتا ہے جس میں قرآن و سنت کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ فریب دیا گیا ہے کہ قرآن و سنت سپریم لاء ہے اگر شریعت نافذ کرنا چاہیں تو دو گھنٹے لگتے ہیں نہ چاہیں تو ساٹھ سال میں بھی نافذ نہیں ہو سکتی"۔

جمعیت علماء اسلام کے مفتی کفایت حسین نے کہا کہ موجودہ آئین شریعت کے مطابق ہے۔ جبکہ سنی اتحاد کونسل کے حامد رضا کا کہنا ہے کہ؛

"دنیا میں کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہوگا جو شریعت کے مطابق زندگی نہ گذارنا چاہتا ہو۔ میں ہرگز شریعت کا مخالف نہیں لیکن میرا مطالبہ ہے کہ جب شریعت کے نفاذ کی بات کی جائے تو وہ آخری نبی کی شریعت ہی ہو"۔

اس کے ساتھ ہی حامد رضا نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں اس وقت شرعی آئین موجود ہے۔ اسی طرح کچھ نام نہاد لبرل دانشوروں نے آئین کا دفاع کرتے ہوئے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا ہے. ان کا کہنا ہے کہ 1973 کا آئین قرآن و سنت کے عین مطابق ہے۔

اسی دوران حکومت نے کراچی والے مفتی تقی عثمانی، جو کہ شریعت کورٹ کے سابقہ جج بھی رہ چکے ہیں، سے یہ فتویٰ لے لیا ہے کہ 1973 کا آئین عین اسلامی ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہی تقی عثمانی ہیں جنہوں نے پاکستان میں 'اسلامی بینکنگ' کا آغاز کیا، جہاں سود کی بجائے اب نفع و نقصان کی شراکت پر "حلال منافع" دیا جاتا ہے اور مولانا اس مشورے کے عوض ہر ماہ بھاری مشاہرہ بھی وصول کرتے ہیں۔

دائیں بازو کے "روشن خیال" صحافی مجیب الرحمن شامی کا کہنا ہے کہ کسی کو مرضی کی شریعت مسلط کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن شامی صاحب نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کسی کی مرضی کے بغیر والی شریعت کونسی ہوتی ہے؟

اس سلسلے میں اگر منیر انکوائری رپورٹ 1953 کا مطالعہ کیا جائے تو بہت سے حقائق واضح ہو تے ہیں۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ؛

"تمام علماء کی بیان کردہ تعاریف کا جائزہ لیا جائے تو عدالت یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہے کہ اتنے بنیادی سوال تک پر کسی دو علماء میں اتفاق نہیں، ہر عالم دین کی بیان کردہ تعریف دوسروں سے مختلف ہے۔ اگر ایک عالم دین کی بیان کردہ تعریف کو عدالت تسلیم کرلے تو دوسرے مکتبہ فکر کے تمام مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں، اگر ایک مکتبہ فکر کے عالم کی تعریف کے مطابق ہم مسلمان ہیں تو دوسرے تمام علمائے دین کی تعریف کے مطابق ہم میں سے ہر ایک کافر ہے"

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب منیر انکوائری کمیشن نے علماء سے درخواست کی کہ وہ مسلمان کی کوئی مشترکہ تعریف بتائیں تو انہوں نے عدالت سے کچھ دن یا ہفتوں کی مہلت مانگی جس پر ایک فاضل جج نے ریمارکس دیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چودہ سو سال تو دے دیئے ہیں اب کچھ ہفتوں کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن مہلت ملنے کے باوجود 'علماء' کوئی متفقہ تعریف نہ کر سکے۔

پچاس سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلا، آج تک اس ایک بنیادی سوال پر بھی کوئی اتفاق راۓ نہیں اور آج بھی کٹر ذہنیت والے ہمیشہ کی طرح دوسرے تمام فرقوں (اور مذاہب کی تو بات ہے چھوڑیں) کے خون کے پیاسے ہیں.

سب تیرے سوا کافر، آخر اس کا مطلب کیا؟

سر پھرا دے انساں کا، ایسا خبط مذہب کیا!

-- یگانہ چنگیزی


محمد شعیب عادل لاہور سے شائع ہونے والے میگزین نیا زمانہ کے ایڈیٹر ہیں۔

Read Comments