نقطہ نظر

کوئی ہے سننے والا؟

جس ملک کے حکمران طالبان کی منت سماجت میں مصروف ہوں وہ بلوچوں سے کیسے اظہار یک جہتی کر سکتے ہیں۔

پانچ مارچ کے اخبارات میں کچھ مسنگ پرسنز کی عدالت میں پیش ہونے کی تصاویر شائع ہوئی ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جنہیں وزارت دفاع سپریم کورٹ کے الٹی میٹم پر عدالت میں پیش کرنے پر مجبور ہوئی۔

چند ماہ پہلے بھی سپریم کورٹ کے الٹی میٹم پر وزارت دفاع نے کوئی نو افراد کو پیش کیا تھا اور انہیں ججز کے چیمبر میں لواحقین سے ملوا کر واپس نامعلوم مقام پر لے گئے تھے۔ یہ وہ "خوش قسمت" لاپتہ افراد ہیں جن کا تعلق کسی جہادی تنظیم، طالبان یا القاعدہ سے ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ افراد ایجنسیوں کی قید میں ہونے کے باوجود اتنے بااثر ہیں کہ ایجنسیاں انہیں عدالت میں پیش کرنے پر مجبور ہو گئیں۔

جبکہ دوسری طرف وہ بے بس بلوچ ہیں جنہیں ایجنسیوں نے چیف جسٹس کے بار بار کے حکم کے باوجود پیش کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ایک ملک کے منتخب وزیر اعظم کو تو سزادے دی مگر آئی جی ایف سی نے ان کے احکامات کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا اور عدالت میں پیش ہونے سے انکار کر دیا۔

کوئٹہ پولیس نے سپریم کورٹ میں ایک سی سی ٹی وی کی فوٹیج پیش کی جس میں دکھایا گیا تھا کہ کیسے ایف سی کے اہلکار بلوچ نوجوانوں کو بھرے بازار سے اٹھا رہے ہیں مگر ڈھٹائی کی انتہا تھی کہ ایف سی نے ماننے سے انکار کر دیا۔

چیف جسٹس نے آئی جی کی برطرفی کے احکامات جاری کرنے کی بجائے عاجز آکر یہ ریمارکس دیئے تھے کہ بلوچوں کے اغوا میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور ایف سی ملوث ہیں اور یہی وہ ریمارکس ہیں جو ماما قدیر بلوچ نے بطور ثبوت اقوام متحدہ کے نمائندے کو دیئے ہیں۔

سات اکتوبر2013 کوئٹہ سے شروع ہونے والا لانگ مارچ 106 دن کے کھٹن اور تکلیف دہ سفر کے بعد 2 مارچ 2014 کو اپنی منزل پر پہنچا۔ اس لانگ مارچ کا مقصد تمام لاپتہ بلوچوں کی بازیابی، بلوچستان کے مظلوم لوگوں کی آواز بن کر اْسے ہر اْس انسان تک پہنچانا ہے جو بلوچستان میں ہونے والے ظلم و زیادتی کے بارے میں نہیں جانتا۔

لیکن بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین جبکئی ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر کے اسلام آباد پہنچے تو سپریم کورٹ، جسے پاکستان میں انصاف کا سب سے اعلیٰ ادارہ کہا جاتا ہے، سمیت کسی ریاستی ادارے کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد پہنچنے پر وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے قافلے کے سربراہ ماما قدیر بلوچ نے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ وہ بلوچستان میں نیٹو فورسز کو اتارے تاکہ وہ ان کے پیاروں کی تلاش کرسکیں اور پتہ چل سکے کہ کتنے زندہ ہیں اور کتنوں کو ماردیا گیا ہے۔

ماما قدیر کے اس مطالبے پر ہمارے مطالعہ پاکستان قسم کے دانشوروں اور صحافیوں کو کافی تکلیف پہنچی ہے اورماما قدیر انہیں کوئی بین الاقومی طاقت کاایجنٹ نظر آنا شروع ہو گیا ہے, کچھ اسی قسم کا سلوک ہم نے ملالہ کے ساتھ بھی روا رکھا ہوا ہے۔

ماما قدیر نے میڈیا کو بتایا کہ بلوچستان سے 18000 افراد کو غائب کر دیا گیا ہے اور تقریباً دو ہزار افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں اور وہ ہلاک اور غائب ہونے والے بلوچ افراد کی فہرستیں اقوام متحدہ کے ذمہ داران تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

بوڑھے بلوچ نے کہا کہ میں نے اپنے جوان بیٹے کی لاش اپنے ہاتھوں سے وصول کی۔ میرا سات سالہ پوتا میرے ساتھ ہے جو اب یتیم ہو چکا ہے غمزدہ شخص کے ساتھ ایک گیارہ سالہ بچہ اور اسی عمر کی کچھ بچیاں بھی ہیں جنہوں نے برفانی ہواؤں اور سرد ترین موسم کی پروا نہ کرتے ہوئے پیدل سفر کیا اور دنیا کے سامنے اپنی فریاد پیش کر رہی ہیں۔

آخر بلوچ عوام کا جرم کیا ہے؟

اگر واقعی وہ ریاست کے خلاف کسی غداری کے مرتکب ہوئے ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کرنا چاہیے تاکہ پتہ چل سکے کون غدار ہے اور کون محب وطن؟

فرزانہ مجید بلوچ کا کہنا ہے کہ اگر میرے بھائی، ذاکر مجید بلوچ جو کہ پانچ سالوں سے ایجنسیوں کے قبضے میں ہے، نے ریاست کے خلاف کوئی تقریر کی ہے تو اس کا مقدمہ عدالت میں چلا یا جائے۔

یعنی بلوچوں پر تو یہ الزام ہے کہ وہ ریاست کی رٹ کو نہیں مانتے اور اس کے خلاف تقریریں کرتے ہیں لیکن لال مسجد کا مولوی عبدالعزیز ہاتھ لہرا لہرا کر آئین کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور ہمارے میڈیا نے اسے ریاستی اداروں کی مدد سے ہیرو بنایا ہوا ہے۔

ہماری ایجنسیوں کو لشکر جھنگوی سمیت تمام دہشت گرد تنظیموں کے سلیپر سیل نظر نہیں آتے جو کھلے عام ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں اور قتل و غارت کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں لیکن بلوچ عوام کو صرف اپنا حق مانگنے کی پاداش میں ان کی مسخ شدہ لاشیں دی جاتی ہیں۔

بلوچ عوام کا استحصال کوئی چند سالوں کی بات نہیں۔ ریاستی اداروں کی طرف سے پچھلی کئی دہائیوں سے ان کو صرف اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ وہ اپنے حقوق مانگتے ہیں ہمارے ریاستی ادارے کشمیری عوام کے حق خود اختیاری کی بات تو کرتے ہیں مگر اپنے ہی ملک کے عوام کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں۔

ماما قدیر اور ان کے ساتھی جب دو دسمبر 2013 کو کوئٹہ سے کراچی پیدل سفر کرتے ہوئے پہنچے تھے تو کراچی میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ماما قدیر اور اپنے پیاروں کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھانے والے بوڑھوں اور بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے صرف دو ہفتے دے دیں میں آپ کو آپ کے پیاروں کی خبر لا کر دوں گا اور آپ کو انصاف دلاؤں گا مگر تین ماہ گذر چکے ہیں اْن کا کوئی پرسان حال نہیں۔

چاہیے تو یہ تھا کہ وزیر اعظم اسلام آباد میں ان بلوچوں سے ملتے انہیں حوصلہ دلاتے جس سے بالا دست ریاستی اداروں کو ایک سخت پیغام ملتا مگر افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ جس ملک کے حکمران طالبان کی منت سماجت میں مصروف ہوں وہ بلوچوں سے کیسے اظہار یک جہتی کر سکتے ہیں۔

جس ملک کا وزیرا عظم، وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور چیف جسٹس اتنے بے اختیار اور اتنے بے بس ہوں کہ اْن کے پاس بچوں کے معصوم سوالوں تک کا کوئی جواب نہ ہو تو پھر ایسی ریاست کو بکھرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

ماما قدیر اور ان کے ساتھیوں کی ہمت و بہادری نے تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ اس لانگ مارچ نے لوگوں کو ظلم کے خلاف آواز اْٹھانے کا شعور دیا جس پر تمام پاکستانیوں کو فخر ہونا چاہیے.


محمد شعیب عادل لاہور سے شائع ہونے والے ماہنامہ نیا زمانہ کے ایڈیٹر ہیں

شعیب عادل
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔