مولانا حسرت موہانی کی برسی
تحریکِ پاکستان کے نامور رہنما اور شہنشاہِ غزل سید فضل الحسن المعروف مولانا حسرت موہانی1875 کو ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے معروف علاقے موہان میں پیدا ہوئے۔
آپ کے والد کا نام سید اظہر حسین تھا اور انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔
سنہ 1903 میں علی گڑھ سے بی اے کیا اور اسی برس علی گڑھ سے ایک رسالہ اردوئے معلّیٰ جاری کیا۔
حسرت موہانی صرف شاعر نہیں تھے بلکہ نڈر، بے باک اور جری صحافی، ناقد، صوفی اور مجاہد آزادی بھی تھے۔
انہوں نے محض لاٹھیاں اور گولیاں نہیں کھائی تھیں بلکہ قید و بند کی صعوبتیں اٹھائی تھیں۔
وہ خود ہی کہتے ہیں:۔
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
وہ پہلے کانگریس میں شامل رہے، تاہم ہندو رہنماؤں کی دو عملی دیکھ کر وہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔
سنہ 1907 میں ایک مضمون شائع ہونے پر وہ پہلی بار جیل گئے، جس کے بعد 1947 تک کئی بار قید اور رہا ہوئے۔
پاکستان کے قیام کے بعد انھوں نے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کیلئے ہندوستان میں رہنا پسند کیا اور وہاں کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، جہاں انھوں نے مسلمانوں اور غریب طبقات کے حقوق کیلئے نمایاں کردار ادا کیا۔
ان کی حق گوئی کے باعث ہندوستان بھر کے سیاسی قائدین بشمول قائداعظم محمد علی جناح آپ کی بڑی تکریم و تعظیم کرتے تھے۔
مولانا حسرت موہانی عظیم شاعر تھے اور اپنی طرز کی انفرادیت کا بھی استحقاق رکھتے تھے۔
اور مقامِ عشق پر کہتے ہیں:۔
شعر دراصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
ان کی شاعری کا مجموعہ کلیات حسرت موہانی اب تک بہت مقبول ہے اور ان کی دیگر مشہور کتابوں میں شارح کلامِ غالب اور نکاتِ سخن شامل ہیں۔
اردو شاعری، اردو صحافت اور سیاست کا یہ مست قلندر 13 مئی 1951کو لکھنؤ میں جہان فانی سے کوچ کرگیا۔