انڈیا کی اگلی کابینہ میں مجرموں کی بھرمار
نئی دہلی: اتوار کے روز ریسرچ اور تجزیئے کے بعد علم ہوا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ( بے جے پی) کے اہم لیڈر نریندرا مودی کی جانب سے انتخابات میں کئے گئے شفافیت اور کرپشن سے پاک کرنے کے وعدوں کے باوجود انڈیا کی اگلی کابینہ میں اس بار اراکین کی ریکارڈ تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہوگی جن پر سنگین جرائم کے الزامات ہیں۔
مودی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک شفاف اور مؤثر حکومت قائم کرکے سست معیشت کو بہتر کریں گے۔ انہوں نے جمعے کو اکثریت حاصل کرلی ہے اور اب وہ جلد اپنی حکومت بنائیں گے۔
لیکن انتخابات جیتنے کے بعد ہندو قوم پرست بی جے پی پارٹی کی نئی کابینہ کے لوگوں پر کئی اہم جرائم کے الزامات ہیں جن میں قتل، اغوا، رہزنی اور فرقہ وارانہ یا نسلی فسادات پھیلانے کا جرائم شامل ہیں۔
یہ تحقیق ایسو سی ایشن فار ڈیمو کریٹک ریفارمز نے کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک سو اٹھاون افراد پر مشتمل پچھلی کابینہ کے مقابلے میں ایوانِ زیریں کے 34 فیصد اراکین پر جرم کے الزامات ہیں ۔
یہ تنظیم گڈ گورننس اور صاف حکومت کی وکالت کرتی ہے اور اسی کیلئے تحقیقی کرتی ہے۔ اس کی رپورٹ کےمطابق 543 اراکین پر مشتمل کابینہ کے کئی اراکین پر سنگین جرائم کے الزامات ہیں۔
بی جے پی کے نو میں سے چار اراکین پر قتل کے مقدمات ہیں، جبکہ سترہ میں سے دس پارلیمانی اراکین پر اقدامِ قتل کے الزامات ہیں۔
تنظیم کی یہ تحقیق ان حلف ناموں پر مشتمل ہے جو انتخابی عمل سے قبل الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جاتے ہیں۔
تنظیم سے وابستہ جگدیپ چوکر نے کہا کہ اعداد بتاتے ہیں کہ امیدواروں کو اس لئے منتخب نہیں کیا گیا کہ وہ الیکشن کے بعد حکومت بہتر انداز میں چلائیں گے بلکہ ان کے ' جیتنے' کے امکانات کے لحاظ سے ان کا انتخاب کیا گیا۔
' عوام یہ توقع نہیں رکھ سکتی کہ وہ ( منتخب اراکین) بہتر طرزِ حکومت قائم کریں گے۔ اور یہی ایک غلط عمل ہے،' چھوکر نے اے ایف پی کو بتایا ۔
' اگر یہی شرح جاری رہی تو آپ ایسے قانون سازوں کی اکثریت دیکھیں گے جو مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوں گے۔ یہ حماقت آمیز لگتا ہے لیکن ہے یہ درست،' انہوں نے کہا ۔ انڈیا میں یہ طویل تاریخ رہی ہے کہ وہاں منتخب کئے جانے والے کئی اراکین سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں۔ اسی لئے ایک صاف و شفاف حکومت کا قیام بہت بڑا چیلنج ہوگا۔
واضح رہے کہ دس سال تک حکومت میں رہنے کے بعد کانگریس پر بھی کرپشن کے سنگین الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق روایتی طور پر ووٹروں کو مجرمانہ سرگرمیوں والے اراکین سے کوئی خاص مطلب نہیں دوسری جانب ملک میں کروڑوں افراد نے مذہبی اور ذات پات کی بنیاد پر ووٹ ڈالے ہیں۔