نقطہ نظر

میں 'جیو' ہوں

خُدا کے واسطے حساس ادارے یہ تو بتا دیں کہ وہ درندے کون ہیں جنہوں نے کراچی میں حامد میر پر بزدلانہ حملہ کیا تھا؟

کردیا نا میرا لائسنس معطل۔ پڑ گئی ٹھنڈ سینے میں۔ چین آگیا ہڈیوں کو۔ منالو تم اب عید۔ پندرہ دنوں میں تم نے جو پہاڑ سر کرنا ہے کرلو۔ بعد میں تم پھر لالچ بھری نظروں سے دیکھو گے مجھے۔ یاد رکھنا میں جیو ہوں۔ کوئی للّو پنجُو نہیں۔ جس کو لوگ صرف پندرہ دنوں میں ہی بھول جائیں۔

ویسے تو اس ملک میں ہر وہ کام جس کے لئے لائسنس درکار ہوتا ہے، بغیر لائسنس کے ہی کیا جاتا ہے اور اس کی مثال سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے ڈرائیورز ہیں۔ جن میں سے ایک بہت بڑی تعداد کے پاس لائسنس نہیں ہوتا اور اس کے باوجود وہ دھڑلے سے کار یا موٹر سائیکل چلا رہے ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ اب تو کالا کوٹ پہننے والے بھی لائسنس کے بغیر ہی اپنی پریکٹس جاری رکھتے ہیں۔ دوکانوں پر دوائیاں بیچنے والے بیشتر دوکاندار بھی بغیر لائسنس کے ہی جان بچاؤ دوائیں فروخت کر لیتے ہیں۔

لائسنس کے بغیر ہی یہ سب کچھ اس لئے ہو جاتا ہے کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ اگر کبھی کوئی غلطی سے ان سے لائسنس مانگ بھی لیگا تو وہ اس کی جیب گرم کریں گے اور بغیر کسی ڈر خوف کے دوبارہ سے وہی کام شروع کردینگے۔

مگر میں ایسا نہیں کرسکتا اور اس کی وجہ یہ کہ میں قانون کو ماننے والا ہوں۔ میں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ میں قانون کی خلاف ورزی کروں۔ پاکستان کا سب سے بڑا چینل ہونے کی وجہ سے مجھ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کے میں قانون کی حاکمیت کو مانوں تاکہ مجھے دیکھنے والے بھی قانون کی حاکمیت کو سمجھیں۔

ویسے پیمرا کی جانب سے اِس معطلی اور جرمانے پر میں کیا بولوں۔ پہلے ہی پچھلے ڈیڑھ مہینے سے لوگ مجھے دیکھنے سے قاصر ہیں اور اگر کسی کے گھر میں آبھی رہا تھا تو وہ بھی ان نمبروں پر جہاں پہنچتے پہنچتے ریموٹ والے کی انگلیاں تھک جاتی تھیں۔ مگر میں شکر گزار ہوں ان لوگوں کا جنہوں نے اپنی انگلیوں کو اتنا نچوایا اور مجھے دیکھنے کے لئے اتنی محنت کی۔

ویسے کیسی اتفاق کی بات ہے، جس دن جنگ اور جیو کا آئی ایس آئی، وزارت دفاع اور پیمرا کو 50 ارب ہرجانے کا نوٹس دیا گیا اور 14 روز کے اندر عام معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی دن پیمرا کے قائم مقام چیئرمین تعینات ہونے والے پرویز راٹھور نے میرا لائسنس 14 دنوں کے لئے معطل کردیا اور ساتھ ایک کروڑ جرمانہ بھی۔ کیا پھرتیاں ہیں بھائی قائم مقام چیئرمین کی جنہوں نے چودہ دنوں پر خوب توجہ دی۔

اب جب کہ میں مزید 14 دنوں کے لئے لوگوں کی دسترس سے دور رہوں گا تو میرے حریف چینلز ان چودہ دنوں میں جتنے لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ پہنچ جائیں۔ کیونکہ اس مختصر وقفے کے بعد جب میں واپس آؤں گا تو پھر ہوگا دما دم مست قلندر!

میرے لائق بیٹوں میں سے ایک یعنی حامد میر پر حملے کے بعد ہونے والے مظاہروں میں زیادہ تر اجتجاج کالعدم جماعتوں کی جانب سے کیا گیا۔ ذرا سوچئے کہ وہ کس کے اشارے پر سڑکوں پر آئے؟

سب سے کلیدی کردار تو باقی نیوز چینلز نے نبھایا جنہوں نے ایک پر ایک مزاکرہ میرے پر پابندی کے موضوع پر کیا۔ جن میں ایسے ایسے مہمانوں کو بلایا گیا جو کبھی میرے ہاں آنے کے لئے دعوت نامے کا انتظار کرتے رہتے تھے اور جب کبھی ماضی میں میرے ہاں سے ان کو دعوت نامہ ملتا تو باقی ساری مصروفیات چھوڑ کر مونچھ داڑھی بنا کر میرے ہاں آتے اور جاتے جاتے یہ بھی پوچھتے کے اس پروگرام کا نشر مکرر کب ہوگا۔

اور تو اور یہ وہ نیوز چینلز ہیں جنہوں نے مجھے دیکھ کر چلنا اور پھر بھاگنا سیکھا۔ میں نے ان کو بتایا کہ کب لوگوں کو خبریں دکھانی ہیں اور کب مباحثے۔ کب اور کیسے لوگوں کو ہنسانا ہے اور کیسے نازک مزہبی معاملات پر بحث کرنی ہے۔ کیسے انتخابات کے نتائج دکھانے ہیں اور کس طرح کسی خبر کی تفتیش کرنی ہے۔ مگر یہ سب چینلز اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی بڑا سمجھ بیٹھیں ہیں۔ کسی نے بالکل صحیح ہی کہا ہے کہ شرم تم کو مگر نہیں آتی!

آپس کی بات ہے، مجھے تو یہ سب کچھ دیکھ کر بڑا مزا آرہا تھا کیونکہ میری تصویر تقریبا ہر چینل پر دکھائی دیتی تھی۔ اسی بہانے میں بھی اپنی تصویر دیکھ لیتا تھا۔ اتنی کوریج تو شاید اگر قطرینہ کیف پاکستان آجائے تو اس کو بھی نہیں ملے گی جتنی کوریج مجھے ہر چینل پر مل رہی تھی۔

اب جبکہ مجھ پر پابندی لگ چکی ہے تو میں اپنی تصویر کیسے دوسرے چینلوں پر دیکھ سکوں گا۔ کیونکہ ان چینلوں میں اتنا ظرف تو ہے نہیں کے وہ یہ خبر چلائیں کے پیمرا کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے جیو نیوز انتظامیہ نے مجھے دو ہفتوں کے لئے بند کردیا ہے۔

خان صاحب اور ان کی پارٹی کو تو بھول ہی گیا۔ انہوں نے اور ان کے عظیم عہدیداروں نے بھی اپنا فرض خوب نبھایا۔ میرے ایک رپورٹر کی ٹویٹ کو خان صاحب نے اتنا سنجیدگی سے لیا کے بنا کچھ سوچے سمجھے مجھ پر الزام لگا دیا کے میں نے انتخابات میں مسلم لیگ نواز کا ساتھ دیا تھا اور جب میرے ایک اور لائق برخوردار افتخار احمد کی جانب سے خان صاحب کو اپنی ٹیم کے ساتھ مزاکرے کی دعوت دی گئی تو خان صاحب نے اپنی مدد کے لئے پاکستان کے سب سے صادق اور امین میزبان کو ساتھ ملا لیا۔ سلام ہے خان صاحب کی ٹیم سلیکشن پر۔

ویسے خان صاحب یہ تو بتائیں، انہیں یہ الزام لگاتے ہوئے کسی نے بھی نہیں سمجھایا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک چینل کی مدد سے خان صاحب کی جماعت انتخابات میں ہار جائے اور اُن انتخابات میں جن کی 272 سیٹوں کے لئے خان صاحب کی جماعت نے صرف 156 امیدوار کھڑے کئے تھے۔

ویسے میرے ہونہار رپورٹر کی وہ ٹویٹ تھی کیا۔ وہ رہنے ہی دیں۔

اب جب کہ میرا لائسنس دو ہفتوں کے لئے سسپنڈ کردیا گیا ہے تو میں بھی کچھ آرام کروں گا۔ پہلے تو آرام جنرل مشرف کے دور میں ملا تھا۔ مگر تب اتنا افسوس نہیں ہوا تھا جتنا اب ہوا ہے کیونکہ وہ تو ایک ڈکٹیٹر تھا۔ دکھ تو اس بات کا ہے کے مجھے اس دورِ جمہوریت میں بند کیا جارہا ہے جس کے لئے میں نے کتنی محنت کی تھی۔

خیر، اللہ جو کرتا ہے، بہتری کے لئے کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مجھ پر پابندی لگنے سے میرے حریف چینلز کچھ کمائی کرلیں۔ جس کے لئے انہوں نے مجھے بند کرنے کے مطالبے کئے تھے۔

بس میری ان سے اتنی درخواست ہے کے اس کمائی میں سے کچھ کمائی اپنے ملازمین میں بھی تنخواہ کی صورت میں بانٹ دیں۔ میں سمجھوں گا کہ میرے بند ہونے کا کچھ تو فائدہ ہوا۔

آخر میں میری قانون نافذ کرنے والوں سے یہ التماس ہے کہ مجھے یہ تو بتا دیں کے میرے لائق ہونہار بیٹے پر حملہ کیا کس نے تھا؟ کون تھا جس کو وہ چبھ رہا تھا؟ ٹھیک ہے میں نے جذباتی ہوکر ملک کی سب سے اہم حساس ایجنسی پر الزام لگا دیا جس کی میں نے معافی بھی مانگ لی۔ اب جب پیمرا نے مجھے سزا دے ہی دی ہے تو خُدا کے واسطے حساس ادارے یہ تو بتا دیں کہ وہ درندے کون ہیں جنہوں نے کراچی میں حامد میر پر بزدلانہ حملہ کیا تھا؟

اچھا دوستو، اپنا خیال رکھنا اور جمہوریت کا سفر جاری رکھنا کیونکہ اسی میں پاکستان کی بہتری ہے۔ کیا ہوا جو مجھے کچھ وقت کے لئے بند کردیا گیا۔ میں پھر آؤں گا لوٹ کر آپ کو لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھنے کے لئے۔

جیو اور جینے دو!

نوید نسیم

بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے، مگر وہ اخراجِ جذبات، خیالات و تجزیات کے لیے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : navid_nasim@

nasim.naveed@gmail.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔