ہمارا حال عراق جیسا نہیں ہوگا، کرزئی
کابل : افغان صدر حامد کرزئی نے ان خدشات کو مسترد کردیا ہے کہ امریکی و اتحادی افواج کے انخلاءاور سیکیورٹی کی ذمہ داری پولیس اور فوج کو دینے سے افغانستان میں بھی عراق جیسے حالات پیدا ہوجائیں گے۔
یہ دونوں ممالک امریکی جنگوں کا مرکز رہے ہیں اور یہاں عسکریت پسند امریکہ کی تربیت یافتہ مقامی سیکیورٹی فورسز سے لڑ رہے ہیں۔
عراقی حکومت سے متعدد اہم شہروں کا کنٹرول چھین کر عسکریت پسندوں نے سب کو حیران کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کیلئے خطرے کی گھنٹی بھی بجادی ہے، جس کے بعد یہ خدشات سامنے آئے ہیں ایک دن افغانستان کو بھی انہی حالات کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تاہم برطانوی ٹی وی بی بی سی کی جانب سے افغان صدر سے پوچھا گیا کہ کیا عراق جیسے حالات افغانستان میں پیدا ہوسکتے ہیں؟ جس پر انھوں نے کہا کہ ایسا بالکل نہیں ہوسکتا۔
بدھ کو نشر ہونے والے اس انٹرویو میں حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ القاعدہ کے عسکریت پسند گروپس اب افغانستان میں موجود نہیں۔
کرزئی کا دور اقتدار بہت جلد ختم ہونے والا ہے جس کے بعد نئے صدر افغانستان کے امور کو سنبھالیں گے، جبکہ نیٹو کا افغان سرزمین پر طالبان کیخلاف جاری جنگی مشن بھی تیرہ سال بعد دسمبر میں اختتام پذیر ہوجائے گا۔
نئے افغان صدر پر ملک میں امن لانے کیلئے بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے کیلئے دباﺅ ہوگا اور حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ انکا طالبان سے روزانہ رابطہ ہوتا ہے۔
ان کے بقول اب تک خطوط، ملاقاتوں اور امن کی خواہش کا تبادلہ بھی ہوچکا ہے۔
حامد کرزئی کی جگہ افغان صدارت سنبھالنے کیلئے دو امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے اور وہ اس معاہدے پر دستخط کرنے کا عزم ظاہر کرچکے ہیں جس سے رواں برس کے اختتام کے بعد بھی کچھ تعداد میں امریکی فوجیوں کو افغان سرزمین میں رہنے کی اجازت مل جائے گی۔
ایسا ہی معاہدہ امریکہ نے عراق سے انخلاء سے قبل وہاں کی حکومت کیساتھ بھی کیا تھا، تاہم واشنگٹن نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ صرف دس ہزار فوجی ہی آئندہ برس افغانستان میں موجود رہیں گے جبکہ 2016ءکے اختتام تک تمام فوجیوں کو واپس بلالیا جائے گا۔