Dawn News Television

شائع 17 جولائ 2014 10:30am

مسلم امّہ، آلو کے پکوڑے اور منہ کے فائر

بات کچھ عجیب ہے یا پھر شائید غریب، جو بھی ہے اِس غریب کی سمجھدانی میں گھُس نہیں پارہی۔۔ وقت اور حالات دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ شائید بہتر ہی ہے کہ میں ناسمجھ اور غریب ہوں ورنہ بیچارے سمجھدار لوگ جس اِسپیڈ سے کُفر کے فتووں کی طرف بڑھ رہے ہیں…. بھیا "دِلی دُور نہیں"!

غریب اِس لئے ٹھیک ہوں کہ غریب کی سنتا ہی کون ہے جو جی میں آئے بولے جاؤ جب کوئی تمہاری کُچھ سنے گا تو سمجھے گا نا۔۔ جب تک کوئی نہیں سُنتا تب تک "گا میرے منوا گاتا جا رے ... "۔۔

خیر جناب رمضان شریف کا بابرکت مہینە اپنی تمام تر رحمتوں اور رعنائیوں کے ساتھ رواں دواں ہے، ٹی وی چینلز سے بچ جانے والی تھوڑی بہت رونقیں مسجد کے صحنوں اور صفوں میں بھی محسوس کی جا سکتی ہیں.

80 اور 90 کی دہائی تک جس ٹی وی کو دیکھنا نہائیت حرام اور غیر شرعی ہوا کرتا تھا آج ہمارے محترم ترین عُلمائے دین اور مزہبی اسکالرز یہودی کیمروں، کافر لائیٹوں، عیسائی مائیکوں اور لادینی کیبلوں کی مدد سے اسی ٹی وی کی غیر شرعی اسکرین پر جس طرح سجے دھجے بیٹھے دین کو ہمارے گھروں تک پہنچارہے ہیں اُس پر ہم اُنہیں خراجِ تحسین کے علاوە کچھ اور پیش کر بھی تو نہیں سکتے۔۔

یہ الگ بات کہ اِن رمضان ٹرانسمیشنز کی میزبانی کرنے والے کُچھ جوکرز تمام ٹی وی چینلز پر بیٹھے کُل ملا کر کوئی سو، سوا سو عُلماٴ حضرات کو اپنے اپنے حساب سے جس طرح ہانک رہے ہوتے ہیں وە مجھ جیسے کم عقل، نا سمجھ، جاہل اور غریب کے لئے تو شدید تکلیف دە عمل ہوتا ہے مگر فیصلے بہرحال آپ جیسے سمجھدار اور بڑے لوگوں کے ہی سنے جاتے ہیں اِس لئے سانُو کی۔۔

خیر جو بھی کہئیے سحری اور اِفطاری کے جو دسترخوان سجتے ہیں اُنہیں دیکھ کر بچپن کے دن اور کچھ لوگوں کو اُن پر ٹُوٹا دیکھ کر اپنے کچھ شدید مفتے دوستوں کی یاد تازە ہو جاتی ہے۔۔

خیر صاحب مسلم امّہ کے سب سے مضبوط قلعے کے باشندے ہونے کہ ناطے آلو، گوبھی اور پالک کے پکوڑوں کے ساتھ ساتھ اگر دہی پھُلکیاں، چنا چاٹ، سموسوں، چکن رول اور لال شربت روزە کھولتے وقت ہماری نظروں کے سامنے موجود نہ ہوں تو ہمیں اپنے روزے کی قبولیت کچھ مشکوک لگنے لگتی ہے.

اِسی لئے دسترخوان پر موجود اِن تمام اشیاٴ کے ساتھ انصاف کرنے بعد جب قوم کھٹی ڈکاریں لیتی اپنا آدھا دن ٹی وی والے مولوی صاحب کے ساتھ عبادت میں صرف کرنے کے بعد رمضانُ المبارک کی با برکت راتیں ٹوئیٹر اور فیس بُک پر نمازیں اور وظائف پڑھ کر گُزارنے کی نیت سے آن لائین آتی ہے تو اُن کا جزبہِ ایمانی ناقابلِ فراموش ہوا کرتا ہے۔۔

تازہ ترین مثال لے لیجئیے، کمبخت اِسرائیل اپنی عادت سے مجبور اُسی بے غیرتی اور ڈِھٹائی کے ساتھ ایک بار پھر بیچارے نہتے معصوم فلسطینوں پر چڑھ دوڑا اور تمام بین الاقوامی جنگی قوانین سے لے کر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کرتے ہوئے غزا کی پٹی پر اندوہناک بمباری کر کے سینکڑوں معصوم بچوں، بیگناە عورتوں سمیت بزرگوں اور نوجوانوں کو موت کی نیند سُلا دیا اور یہ سلسلہ بہت جلد رکتا ہوا نظر بھی نہیں آتا۔

بہرحال کچھ اور ہو نہ ہو مجھ سمیت سوشل میڈیا کے قریباً ہر پاکستانی مُجاہد نے منہ کے فائر کرتے ہوئے اپنے اپنے طور پر اسرائیلی جارحیت کی نا صرف شدید مزمت کی بلکہ اِس کے خلاف حسبِ توفیق جتنی آواز اُٹھا سکتے تھے اتنی اُٹھانے کی کوشش بھی کی.

بس زیادتی ہوئی تو اتنی کہ جس طرح ہم بلوچستان میں اُٹھنے والی قوم پرست آوازوں کو ریاست سے غداری تصور کرتے ہوئے ریاست کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی بات کرتے ہیں، کیا ہمیں وہاں ایک دوسری ریاست کے خلاف کھڑے ہونے والے اُن کے اپنے ملک کے باشندوں کی حمایت میں گو کہ وە ہمارے اپنے مسلمان بھائی ہی کیوں نہ ہوں کھڑا ہونا چاہیئے یا نہیں؟؟؟

جب اپنے مسلمان فلسطینی بھائیوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف کھڑے ہونا جائز اور شرعی ہے تو پھر اپنے بلوچ بھائیوں پر اپنی ہی ریاست کے ہاتھوں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اُٹھانا غداری کیسے؟؟؟

مظلوموں کا قتال یقیناً بہت بڑا جُرم ہے، اُس کی مزمت کرنا اور اُس کے خلاف آواز نہ اُٹھانے والا میری نظر میں قتل کرنے والے سے زیادە بڑا مُجرم ہے تو پھر فلسطینیوں کو 1967 کے بعد سے آج تک اِس حال کو پہنچانے والی کرپٹ فلسطینی لیڈرشپ اور آج خاموش تماشائی بنے بیٹھے او آئی سی، سعودی عرب اور باقی اسلامی دنیا پر انگلی اٹھانے میں ہمیں شرم کیوں آتی ہے؟؟؟

میں تو ایک ناسمجھ جاہل سا بندە ہوں مگر آپ پڑھے لکھے بھلے مانس معلوم ہوتے ہیں، زرا تھوڑا وقت نکال کر سوچئے گا کہ یہ اتنی منافقت کیوں۔ جواب مل جائے تو مجھے لکھئیے گا ضرور شائید آپ کے عقل لڑانے سے مجھ غریب کا کچھ بھلا ہو جائے۔۔

Read Comments