لائف اسٹائل

پکوان کہانی: شاہی ٹکڑے

بادشاہوں کا پسندیدہ میٹھا پکوان، جس کی تاریخ مغل عہد میں بھی ڈھونڈی جا سکتی ہے۔

میرے میاں دو چیزوں کے بے انتہا شوقین ہیں اور ان میں سے ایک میٹھا ہے اور یہیں سے شروع ہوتی ہے ان کے پسندیدہ میٹھے، شاہی ٹکڑے کے لئے میری تلاش کی کہانی-

شاہی ٹکڑے میں ایسا کیا ہے کہ یہ ہمیں بے انتہا مرغوب ہے، بریانی کی طرح اس کا تعلق بھی مغلئی باورچی خانے سے ہے- بہرحال یہ ایک راز ہے کہ بریڈ پڈنگ کا یہ منفرد انداز جنوبی ایشیاء تک کیسے پنہچا-

کیا سولہویں صدی میں بابر اسے اپنے ساتھ انڈیا لائے یا اسے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی بریڈ پڈنگ کے طور پر کھاتی تھی جو کہ آگے جا کر شاہی ٹکڑے میں تبدیل ہوگئی، ایک ایسا مغلئی میٹھا جس میں الائچی اور زعفران کی اشتہا انگیز خوشبو، شکر اور میوہ جات کی چاشنی اور دودھ و بالائی کا لطیف امتزاج سمو دیا گیا ہے، بلاشبہ یہ پکوان خاص بادشاہوں کے لئے بادشاہوں نے تخلیق کیا ہے-

ایک بالکل پرفیکٹ شاہی ٹکڑے کی تلاش میں مجھے ماضی میں تھوڑا دور تک سفر کرنا پڑا، یہ جاننے کے لئے کہ نمکین بریڈ کس طرح میٹھی ڈش میں تبدیل ہوگی اور سونے پہ سہاگہ پوری دنیا کے دیسیوں کا پسندیدہ پکوان بھی بن گئی-

بریڈ صدیوں سے انسانی خوراک کا حصّہ رہی ہے، کہا جاتا ہے کہ گئے وقتوں کے شیفس، آج کے زمانے کے برخلاف بچی ہوئی بریڈ تلف کرنا ناپسند کرتے تھے، چناچہ انہوں نے باسی بریڈ کے لئے ایک منفرد ریسیپی تیار کی جو بیک وقت میٹھی بھی تھی اور نمکین بھی-

اس کے علاوہ بچی ہوئی بریڈ شوربہ گاڑھا کرنے، میٹھی پڈنگ، سوپ کے لئے کروٹون (تلی ہوئی بریڈ)، اِسٹفنگ اور کوٹنگ کے لئے بریڈ کرمبز، باسی بریڈ کو ناصرف پکایا اور تلا جا سکتا ہے بلکہ بریڈ باؤل بھی بنایا جا سکتا ہے- قرونِ وسطیٰ میں بریڈ باؤل، ایک کھوکھلی بریڈ کو کہتے تھے جسے گرم یا ٹھنڈا میٹھا دودھ پینے، یخنی، پڈنگ یا انڈا وغیرہ کے لئے استعمال کیا جاتا تھا اور اسی طرح ایک دیہقانی برتن انڈے، دودھ اور بریڈ کے ملاپ کے بعد مزیدار بریڈ پڈنگ بن گیا-

بہت سوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ شاہی ٹکڑے ایک قدیم مصری بریڈ پڈنگ، اُمِ علی کی نئی شکل ہے- کہتے ہیں کہ سلطان اپنے شکاری گروہ کے ہمراہ دریائے نیل کے کنارے شکار میں مشغول تھے جب وہ ایک گاؤں میں کھانے پینے کے لئے رکے- گاؤں والوں نے اپنے مقامی باورچی اُمِ علی کو مہمانوں کی تواضع کے لئے بلایا- باورچی نے باسی بریڈ، میووں، شکر اور دودھ کو مکس کر کے اوون میں پکایا اور یوں لذیذ اُمِ علی وجود میں آیا- ایک اور روایت کے مطابق اُمِ علی، فاتح بادشاہ اپنی فتح کی خوشی میں بنوایا کرتے تھے-

اُمِ علی کی طرح مڈل ایسٹ میں بھی بریڈ پڈنگ بنائی جاتی ہے جسے 'عیش اس سرنی' کہا جاتا ہے- یہ میٹھا بنانے کے لئے پہلے بریڈ کے ٹکڑے کو سکھایا جاتا ہے پھر اس کے سلائس کر کے بڑی احتیاط کے ساتھ شہد اور شیرے میں پکایا جاتا ہے اوپر سے عرقِ گلاب اور سنہرے کیریمل سے سجایا جاتا ہے، یہ شاہی بریڈ سننے میں بالکل بادشاہی لگتی ہے- دنیا کے نقشے پر تھوڑا مزید مشرق کی طرف جائیں تو آپ کو مشرق کی شان، شاہی ٹکڑے ملیں گے-

شاہی ٹکڑے کا نام، دو الگ الگ زبانوں سے مل کر بنا ہے، 'شاہی' فارسی کا لفظ ہے جبکہ ' ٹکڑے' ہندی/اردو کا- اب سوال یہ ہے کہ آخر مغلئی خانساماؤں نے شاہی ٹکڑوں میں سے انڈے کو کیوں نکال باہر کیا؟

ہوسکتا ہے وہ اس میٹھے میں انڈوں کی نرمی کی بجائے ایک خستگی چاہتے ہوں، چناچہ انہوں نے پہلے بریڈ کو بغیر کناریاں کاٹے گھی یا مکھن میں تلا، پھر اسے میٹھے بالائی دار دودھ میں پکایا اوپر سے زعفران، الائچی اور عرقِ گلاب کا فلیور دے کر اس پر بادام، پستہ اور کشمش سے گارنش کر کے سونے کے ورق سے سجایا جاتا تھا- بعض یہ روایت کرتے ہیں کہ شاہی ٹکڑے کی تیاری میں کھویا (جسے آج کل کنڈنسڈ ملک بھی کہتے ہیں) استعمال کیا جاتا تھا-

یہ بھی مشہور ہے کہ مغل بادشاہ ماہِ رمضان میں روزہ اسی میٹھے سے افطار کیا کرتے تھے، آج بھی افطار کے وقت یہ میٹھا مرغوب ترین ڈش ہے، اس کے علاوہ عید الفطر اور عید الاضحٰی کے تہواروں پر بھی میٹھے میں شاہی ٹکڑے بنائے جاتے ہیں-

تاریخ بتاتی ہے کہ مغل شہنشاہ کھانے پینے کا خاص شوق رکھتے تھے- انہوں نے برصغیر کے کھانوں میں مشرق وسطیٰ اور مغربی مصالحوں کے ساتھ مقامی اجزاء ملا کر انہیں ایک نئی جدّت بخشنے میں اہم کردار ادا کیا اور اس طرح اس خطّے کو شاندار مغل پکوان ملے-

یہ بھی مانا جاتا ہے کہ مغل سلطنت کے باورچی خانوں میں ایسے خانسامہ موجود تھے جو دنیا بھر کے پکوان بنانے میں ماہر تھے اور انہوں نے ایسے پکوان بنائے جو ایرانی، ترکی اور وسطی ایشیائی انداز کے ساتھ ساتھ شمالی ہندوستان خصوصاً اترپردیش، بنگلہ دیش، دہلی، لاہور اور ہندوستانی ریاست حیدرآباد کے ذائقے بھی رکھتے تھے-

ڈبل کا میٹھا، ایک خاص حیدرآبادی میٹھا ہے- یہ ایک ذرا موٹی بریڈ ہوتی ہے جسے پہلے فرائی یا روسٹ کیا جاتا ہے پھر عرقِ گلاب میں بھگو کر زعفران اور الائچی کے ِقوام میں ڈبویا جاتا ہے- مکھن، شکر اور دودھ میوہ جات کے ساتھ ملا کر عرق سے تَر بریڈ میں شامل کی جاتی ہے، ساتھ میں پھلوں کی ساس یا بالائی کی ٹاپنگ کی جاتی ہے- یہ میٹھا شاہی ٹکڑے کی حیدرآبادی شکل ہے اور مختلف رسمی و غیر رسمی مواقعوں پر پیش کی جاتی ہے-

حیدرآبادی ڈبل کا میٹھا اور مغلئی شاہی ٹکڑے تقریباً ایک جیسے ہی ہیں کم از کم رنگ روپ اور ذائقے میں، لیکن ان میں استعمال ہونے والی بریڈ کی موٹائی مختلف ہوتی ہے- بریڈ کو اردو اور ہندی میں 'ڈبل روٹی' کہا جاتا ہے اور پکنے کے بعد یہ مزید پھول جاتی ہے، اس میٹھے کے حیدرآبادی نام کی یہی وجہ ہے-

مجھے لذیذ شاہی ٹکڑے کی یہ ترکیب اپنی دوست مسز عفت انوار سے ملی جو بہترین شاہی ٹکڑے بناتی ہیں- وہ اکثر ڈنر پارٹیز کے لئے یہ میٹھا بناتی ہیں اور چند سال بیشتر ان کے گھر کے ڈرائنگ روم میں عمران خان بھی اس لذیذ میٹھے سے لطف اندوز ہوتے دکھائی دیے- میں نے یہ شاہی ٹکڑے، ایک سالگرہ کی دعوت پر بطور میٹھا پیش کیے جو بہت پسند کیا گیا، اس دعوت کی مرکزی ڈش ہرا مصالحہ بریانی تھی، تو پیش خدمت ہے میرے کچن سے آپ کے لئے۔

شاہی ٹکڑے


اجزاء : چھ سے آٹھ افراد کے لئے


سفید بریڈ - بارہ عدد 'بنا کناری کاٹے'

کنولا تیل- ایک چوتھائی کپ

دودھ - تیئس اونس

شکر- چھ اونس

کھانے کا رنگ (پیلا) - ایک سے دو چائے کا چمچ

الائچی دانہ- آدھا چائے کا چمچ

کنڈنسڈ ملک- چار اونس

بادام (چھلے ہوئے) - دس سے بارہ عدد باریک کٹے ہوئے

چاندی کے ورق- اگر دستیاب ہوں

ترکیب

تیل کو گرم کر کے اس میں بریڈ ڈیپ فرائی کر لیں اور ایک چھلنی میں رکھ کے تیل نچوڑ لیں- تیل کو واپس کڑاہی میں ڈال دیں- ایک بیکنگ ڈش میں بریڈ کی دو تہہ بچھائیں- ایک الگ برتن میں ٹھنڈا دودھ، شکر اور کھانے کا رنگ (اپنی مرضی کے مطابق) ملائیں-

بریڈ پر الائچی کے دانے ڈال کر اوپر سے دودھ اور شکر کا مکسچر ڈال دیں اور پہلے سے گرم شدہ اوون میں چار سو ڈگری ٹمپریچر پر بیس سے پچیس منٹ بیک کریں، اوون سے نکال کر کترے ہوئے بادام ڈالیں اوپر سے کنڈنسڈ ملک ڈال کر مزید آٹھ سے دس منٹ اوون میں بیک کریں-

نکال کر ٹھنڈا ہونے دیں، اسے نیم گرم یا ٹھنڈا دونوں شکل میں پیش کیا جا سکتا ہے-

ترجمہ : ناہید اسرار

انگلش میں پڑھیں

بسمہ ترمزی

لکھاری ڈان کی سابق اسٹاف ممبر ہیں اور اب ایک فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کررہی ہیں۔

انہیں کھانوں، موسیقی اور زندگی کی عام خوشیوں سے دلچسپی ہے۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس food_stories@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔