Dawn News Television

شائع 20 ستمبر 2014 12:42pm

ڈرامہ ریویو: چپ رہو - حساس ترین موضوع پر بہترین پیشکش

لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا مسئلہ پاکستان کیا پوری دنیا میں صدیوں پرانا ہے اور اکسیویں صدی میں بھی لاکھوں واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔

مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ایسی متاثرہ لڑکیوں کو جس مسئلے کا سامنا ہوتا ہے وہ یہ کہ انہیں اس ظلم سے گزرنے کے بعد آواز تک بلند نہیں کرنے دی جاتی، جس سے وہ ذہنی طور پر گھٹ کر رہ جاتی ہیں اور خاص طور پر اس وقت جب ان کی عزت تار تار کر دینے والا فرد کوئی قریبی رشتے دار ہی ہو تو یہ خاموشی ان کی ذات پر قیامت ڈھا دیتی ہے۔

ہمارے معاشرے کے اسی حساس ترین موضوع کو پیش کیا جا رہا ہے اے آر وائی کی ڈرامہ سیریل 'چپ رہو' میں جو اب تک کافی زبردست جا رہا ہے۔

ڈرامے کا بنیادی خیال ہے کہ برائی ہر شخص میں ہوتی ہے مگر ہمارے اندر کی اچھائی اسے دبا کر رکھتی ہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شیطان جس پر ہم اعتماد اور اس کا احترام کرتے ہیں، ہمیں نشانہ بناتا ہے تو شخصیت کیسے بکھر کر رہ جاتی ہے۔

چپ رہو ایک لڑکی رامین (سجل علی) کی کہانی ہے جو اپنے بہنوئی نومیر (جبران) کی ہوس کا شکار ہو جاتی ہے اور اسے اپنے خاندان سے کوئی مدد بھی نہیں ملتی بلکہ اس کی ماں اس کی زبان بند کروا دیتی ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھا کر اپنی بہن کی زندگی خراب نہ کرے۔

یہ کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب رامین راولپنڈی سے کراچی اپنے بہن منال (ارجمند رحیم) کے گھر آتی ہے تاکہ اپنے بہنوئی کے کزن آذر (فیروز خان) کے ساتھ منگنی کرسکے۔

منال کی نومیر کے ساتھ زندگی خوش باش گزر رہی ہوتی ہے اور اسے اپنے شوہر پر اندھا اعتماد ہوتا ہے مگر جب رامین اس کے گھر آتی ہے تو اسے اس میں کششش محسوس ہوتی ہے اور وہ اپنی توجہ کا رخ موڑنے میں کامیاب نہیں ہوپاتا۔

درحقیقت نومیر کی شخصیت کے اس تاریک پہلو سے کوئی واقف نہیں ہوتا کہ وہ لڑکیوں کو اس طرح کے ظلم کا نشانہ بناتا رہا ہے اور رامین کو اس کا نیا ہدف ہوتی ہے جبکہ پورا خاندان اسے بہت شریف اور اچھا شخص سمجھتا اور مانتا ہے۔

اپنے مقصد کے لیے نومیر رامین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارتا ہے اور رامین کی ڈھولکی پر جب آذر اسے ٹیرس پر تنہا بلاتا ہے تو نومیر غصے میں آگ بگولا ہوکر ان پر چیختا چلاتا ہے یہاں تک کہ وہ تو اپنے بہنوئی کو کسی بزرگ کی طرح معتبر ماننے لگتی ہے۔

اسی طرح ایک دن وہ رامین کو بیوٹی پارلر لے جانے کے بہانے اپنے دوست شیراز (یاسر نواز) کے فلیٹ میں لے جاتا ہے اور زیادتی کا نشانہ بنا دیتا ہے جس کے بعد اصل کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب رامین کی ماں اس سب سے واقف ہونے کے باوجود بیٹی کی زبان چپ کرادیتی ہے۔

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آذر ایک روایتی سوچ رکھنے والا نوجوان ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ شادی سے پہلے لڑکی کنواری ہو اور وہ شادی سے پہلے یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کا نہیں سوچ سکتا جو کسی سے تعلق میں رہ چکی ہو اور اس وجہ سے بھی رامین کی ماں اس واقعے کو چھپانے پر مجبور کر دیتی ہے جبکہ رامین روز بروز ذہنی طور پر خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتی ہے۔

ڈرامے کی تھیم ہی یہ ہے کہ زیادتی کا نشانہ بن جانا رامین کی غلطی نہیں بلکہ اس پر خاموشی ضرور گناہ ہے، اپنی بہن کی زندگی بچانے کے لیے وہ خود کو داﺅ پر لگا دیتی ہے۔

کہانی آگے بڑھتی ہے تو رامین آذر سے شادی کرنے کے خیال سے ہی خوفزدہ ہوجاتی ہے کیونکہ اس صورت میں اسے ہر وقت نومیر کی شکل دیکھنا پڑے گی اور اس پر ذہنی دورے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔

تاہم کسی نہ کسی طرح رامین کی ماں یہ شادی کرا دیتی ہے تو شادی کی پہلی رات آذر کی جانب سے اپنی بہن کے گھر لے جائے جانے پر رامین کو دورہ پڑ جاتا ہے اور پورا خاندان پریشان ہو جاتا ہے۔

درحقیقت اس ڈرامے میں لڑکے اور لڑکیوں کے لیے زندگی کے بارے میں کافی سبق موجود ہے اور انہیں سمجھایا جا رہا ہے کہ کسی زیادتی پر آواز بلند کرنے کی بجائے چپ رہنا کس حد تک ان کی زندگی کو جہنم بنا سکتا ہے۔

خاص طور پر ہمارے معاشرے میں جہاں زیادتی اور اس طرح کے حملے ہر وقت خبروں میں رہتے ہیں اس حوالے سے یہ ڈرامہ شعور اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

یاسر نواز بہترین ڈائریکٹر ہیں اور انہوں نے اس ڈرامے کی ہدایات دی ہیں جبکہ سمیرا فضل بھی بہترین ڈرامہ رائٹرز میں سے ایک ہیں۔


ڈرامے میں سجل علی، فیروز خان، ارجمند رحیم، جبران سید اور یاسر نواز مرکزی کاسٹ میں شامل ہیں جبکہ یہ ڈرامہ منگل کی شب رات آٹھ بجے اے آر وائی پر نشر کیا جاتا ہے اور اب تک اس کی پانچ اقساط نشر ہوچکی ہیں۔

Read Comments