نقطہ نظر

اقتدار کی منتقلی اور خامیاں

ایک کامیاب سیاسی منتقلی نا صرف افغانستان کے استحکام کے لیے ضروری ہے، بلکہ علاقائی سیکیورٹی کے لیے بھی ضروری ہے۔

بالکل آخری منٹ پر شراکت اقتدار کا ایک ایسا فارمولا طے پایا ہے، جس نے بھلے ہی کچھ وقت کے لیے، لیکن ایک ایسے بحران کو ٹال دیا ہے، جس نے افغانستان میں امریکہ کی 13 سال طویل جنگ کے بعد اقتدار کی منتقلی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ واشنگٹن کی ثالثی سے طے پانے والے معاہدے کے تحت اشرف غنی ملک کے نئے صدر ہوں گے، جبکہ ان کے مخالف عبداللہ عبداللہ چیف ایگزیکٹو کے نئے عہدے کو سنبھالیں گے۔

بھلے ہی یہ معاہدہ جمہوریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتا، لیکن اس ارینجمنٹ نے اس ڈیڈلاک کو ضرور ختم کیا ہے، جو اقتدار کی منتقلی میں پچھلے کئی ماہ سے رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ لیکن یہ بات اب بھی یقینی طور پر نہیں کہی جاسکتی، کہ آیا جنگ سے تباہ ہوچکے اس ملک میں جس سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، یہ ایگریمنٹ وہ استحکام لانے میں کامیاب ہوسکے گا یا نہیں۔ چیف ایگزیکٹو کا کیا کردار ہوگا، اس حوالے سے بھی بے یقینی پائی جاتی ہے، کیونکہ افغان آئین میں چیف ایگزیکٹو کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

اقتدار کی شراکت کا یہ فارمولا کتنا عرصہ قائم رہے گا؟ معاہدے پر دستخط کے بعد دونوں لیڈر جس بے دلی سے گلے ملے، اس کو دیکھ کر اس بارے میں کوئی حوصلہ افزا امید نہیں ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان رسمی سلام دعا بھی نہیں ہوئی، ماحول میں ٹینشن واضح تھا، جبکہ دونوں رہنما اتوار کے روز ہونے والی جوائنٹ پریس کانفرنس میں بھی نہیں آئے۔

دلچسپ بات یہ ہے، کہ الیکشن کے 100 دن بعد تک بھی نتائج کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے صرف اگلے صدر اور چیف ایگزیکٹو کا نام جاری کیا۔ عبداللہ عبداللہ، جو واضح طور پر دوڑ میں پیچھے تھے، کو ٹھنڈا کرنے کے لیے امیدواروں کو حاصل ہونے والے ووٹس کی تعداد بھی ظاہر نہیں کی گئی۔

عبداللہ عبداللہ نے وسیع پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کیا، جس کے نتیجے میں ووٹوں کا مکمل آڈٹ کیا گیا۔ لیکن اس سے بھی ڈیڈلاک ختم ہونے میں مدد نہیں ملی۔ اس کے بعد اوبامہ انتظامیہ کی جانب سے امداد روکنے کی دھمکی کے ساتھ زبردستی ایک ایڈجسٹمنٹ کرائی گئی۔

ظاہر ہے، دونوں رہنماؤں کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ تنازعے کو مزید جاری رکھنے کا مطلب خانہ جنگی کو جنم دینا تھا۔ بھلے ہی یہ معاہدہ متنازعہ ہے، لیکن اس معاہدے کی وجہ سے ہی ملک کی تاریخ میں پہلی بار جمہوری طریقے سے اقتدار کی منتقلی ہوپائی ہے۔

طاقت کے اس نئے نظام کی وجہ سے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ آئین میں ترمیم کی جائے، لیکن چیف ایگزیکٹو کو اختیارات دینے کا اختیار صدر کو دے دیا ہے، جو ایسا ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے کریں گے۔ چیزوں کی یہ ترتیب دو سالوں کے لیے کارآمد ہے۔

صدر مکمل طور پر بااختیار ہوں گے، اور حکومت کے اسٹریٹیجک فیصلے لیں گے، تو دوسری طرف چیف ایگزیکٹو بالکل وزیر اعظم کی طرح وزرا کی نئی کونسل کی سربراہی کریں گے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایک دوسرے کی مخالفت والے اس ماحول میں یہ سیٹ اپ کتنا عرصہ قائم رہتا ہے۔

طاقت کی جمہوری منتقلی سیکیورٹی و معاشی امور کی منتقلی سے زیادہ اہم ہے، اور باقی دو چیزوں کی منتقلی بھی اس سال کے اختتام تک امریکی سربراہی میں لڑنے والی کی فوجوں کی واپسی سے پہلے ہونی ہے۔

صرف امید ہی کی جاسکتی ہے کہ دونوں لیڈر اس انتہائی اہم منتقلی کو خوش اسلوبی سے مکمل کرنے کے لیے سمجھداری اور نرمی کا مظاہرہ کریں گے، کیونکہ بہرحال دونوں لیڈر اپنے تمام اختلافات کے باوجود ایک مشترکہ مقصد رکھتے ہیں، اور وہ ہے متحدہ افغانستان۔

انتخابات پر اس طویل تنازعے نے اقتصادی و معاشی امور کی نئی افغان انتظامیہ کو منتقلی کا مرحلہ دھیما، جبکہ افغان طالبان کو مضبوط کیا ہے۔ انتخابات کی معطلی میں کامیاب نا ہونے کے بعد جنگجو گروپ نے اتحادی افواج پر حملے تیز کردیے ہیں، جس کے نتیجے میں حالیہ گرمیوں میں درجنوں غیر ملکی اور افغان فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ حقیقت میں امریکہ کی ویتنام میں جنگ کے بعد پہلی بار ایسا ہوا، کہ کوئی امریکی فوجی جنرل ملک سے دور کسی حملے میں جاں بحق ہوا ہو۔

طالبان کی جانب سے بڑھتے ہوئے حملے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں، اتحادی فوجوں کی ملک سے روانگی کے بعد نئی انتظامیہ کو کتنے سیکیورٹی خطرات لاحق ہوں گے۔ اس سے بھی زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے، کہ جنگجوؤں نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ کار ان علاقوں تک بھی بڑھا دیا ہے، جہاں سیکیورٹی معاملات کی منتقلی مکمل ہوچکی ہے، اور اب افغان سپاہی ان کا نشانہ بن رہے ہیں۔

اقتدار کی منتقلی سے اب ایک دوطرفہ سیکیورٹی معاہدے کے لیے راہ ہموار ہوگئی ہے، جس کے تحت امریکہ اپنی کچھ فورسز کو افغانستان میں باقی رکھ سکے گا۔ جنگ کی مکمل ذمہ داری سنبھالنے والی افغان فورسز کا مورال بلند کرنے کے لیے بہت تھوڑی تعداد میں بھی غیر ملکی فوجیوں کا ہونا کافی ہے، کیونکہ افغان ملٹری میں مٹھی بھر سپاہی ہی ایسے ہیں، جو جنگجوؤں سے خود لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

نئی افغان انتظامیہ کے لیے ایک اور چیلنج اقتصادی منتقلی ہے، جس کا دارومدار مکمل طور پر سیاسی استحکام سے ہے۔ افغانستان کی لڑکھڑاتی معیشت اس طویل انتخابی تنازعے کی وجہ سے کافی نقصان جھیل چکی ہے۔ سیاسی غیریقینی نے کاروبار کے لیے ضروری اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے، اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

افغانستان کو فوری طور پر مغربی ممالک سے ایمرجنسی فنڈز کی ضرورت ہے۔ امریکہ اور مغربی اتحادیوں نے فوجی اور معاشی میدان میں اربوں ڈالر امداد دینے کا وعدہ کیا ہے، لیکن سیاسی رسہ کشی جاری رہی، تو ان وعدوں کا وفا ہونا مشکل ہوجائے گا۔

اقتدار کی نئی انتظامیہ کو منتقلی سے صدر حامد کرزئی کے 13 سالہ دورِ حکومت کا بھی خاتمہ ہوا ہے۔ ان کے جانے سے واشنگٹن نے سکھ کا سانس لیا ہے، کیونکہ متنازعہ افغان صدر اب بوجھ اور ذمہ داری بن چکے تھے۔ واشنگٹن اور کابل کے درمیان تعلقات کو مزید دھچکا تب پہنچا تھا، جب حامد کرزئی نے دو طرفہ سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کیا۔

افغان سیاست میں حامد کرزئی کا مستقبل ابھی مشکوک ہے۔ ان کی پوزیشن مزید متنازعہ تب ہوئی، جب عبداللہ عبداللہ نے ان پر الیکشن میں براہ راست مداخلت کا الزام عائد کیا۔ لیکن اس کے باوجود سیاست میں ان کے اثر کو کم نہیں سمجھا جاسکتا۔

ایک کامیاب سیاسی منتقلی نا صرف مستقبل میں افغانستان کے استحکام کے لیے ضروری ہے، بلکہ علاقائی سیکیورٹی کے لیے بھی ضروری ہے۔ افغانستان کی قومی متحد حکومت اگر ناکام ہوتی ہے، تو پورے ریجن میں تباہی آئے گی۔ افغانستان میں ہونے والے کسی بھی واقعے، تنازعے، یا ترقی کا اثر براہ راست پاکستان پر پڑے گا۔

امید ہے کہ افغانستان کی نئی انتظامیہ پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے گی۔ ان دونوں ملکی کی سیکیورٹی کبھی بھی ایک دوسرے پر اتنی منحصر نہیں تھی، جتنی کہ اتحادی افواج کے جانے سے ہورہی ہے۔ سرحد پار عدم استحکام کے پاکستان کی داخلی سیکیورٹی پر براہ راست اور انتہائی خطرناک اثرات ہوں گے، جس سے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کے اخراجات میں اضافہ ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں۔


زاہد حسین ایک لکھاری اور جرنلسٹ ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر hidhussain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

zhussain100@yahoo.com

یہ مضمون ڈان اخبار میں 24 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

زاہد حسین

لکھاری صحافی اور مصنف ہیں. ان کا ای میل ایڈریس zhussain100@yahoo.com ہے.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔