Dawn News Television

شائع 30 اکتوبر 2014 04:16pm

ایک خطرناک تقسیم

یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ آخر کیوں ایم کیو ایم کو اکثر پاکستانی سیاست میں زحمت یا خجالت کا سبب قرار دیا جاتا ہے، اس جماعت نے ایک بار پھر لسانی سیاست کے بھڑوں کے چھتے کو یہ مطالبہ کرتے ہوئے چھیڑا ہے کہ سندھ کو تقسیم کرکے نیا 'مہاجر' صوبہ تشکیل دیا جائے۔

اپنی کثیر النسلی شناخت کو قائم کرنے کے ناکام تجربے کے بعد ایم کیو ایم اب اپنی اصل سیاست کی جانب واپس لوٹ گئی ہے۔

ایم کیو ایم ایک بار پھر مہاجر کارڈ دوبارہ کھیلنے کی طرف جارہی ہے جو کہ اس کی جانب سے اپنے سپورٹ بیس میں دوبارہ جان ڈالنے کی جان توڑ کوشش ہے جسے ابھرتی سیاسی طاقتوں سے چیلنج کا سامنا ہے، یہ محدود سیاسی سوچ خطرناک گیم ہے جس سے صوبے میں متعدد لسانی گروپس میں موجود تقسیم میں وسیع ہوسکتی ہے۔

ایم کیو ایم کی جانب سے پی پی پی رہنما خورشید شاہ کی جانب سے 'مہاجر' اصطلاح استعمال کرنے پر خلاف توہین مذہب کے قانون کے استعمال کا مطالبہ شاکنگ تھا، اس کو زیادہ حیرت انگیز امر یہ چیز بناتی ہے کہ اس میں مذہب کو سیاست میں شامل کردیا گیا ہے، حالانکہ ایم کیو ایم پاکستان ان محدود سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے جو حقیقی طور پر سیکیولر ازم کی حمایتی ہے۔

اس ناقابل فہم مہم خود ایم کیو ایم کے لیے ہی نقصان دہ ثابت ہوگی اور یہ کراچی کے عوام میں پیدا ہونے والی بے اطمینانی سے جڑے دیگر متعلقہ مسائل سے توجہ ہٹانے کا سبب بنے گی جنھیں فوری طور پر حل کیے جانے کی ضرورت ہے۔

غصے کے اظہار اور اتحادی حکومت سے علیحدگی اور پھر اپنا فیصلہ واپس لینے کی پرانی عادت پارٹی کے لیے مضحکہ اڑانے کا سبب بنتی ہے مگر اس بار علیحدگی زیادہ سنجیدہ نظر آتی ہے، اگرچہ کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا ہے کہ پی پی پی کی سیاسی حامی یہ جماعت دوبارہ پرانے راستے پر نہیں لوٹے گی۔

صوبے کی دو طاقتور ترین سیاسی طاقتوں کے درمیان روٹھنے اور منانے کا یہ تعلق کراچی میں جاری بدامنی کی واحد وجہ نہیں، لسانی نعروں کو بلند کرکے ایم کیو ایم قیادت صرف شہری حکومت کے نظام کی دوبارہ بحالی کے مسئلے کو متاثر کررہی ہے جس پر اسے سب سے زیادہ توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔

درحقیقت لسانی سیاست پی پی پی کے لیے بھی فائدہ مند ہے، اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ اس کی جانب سے دیہی علاقوں کو کنٹرول برقرار رکھنے کی کوشش پر سندھی قوم پرستوں کے جذبات زیادہ بھڑک اٹھے ہیں، اس سے اس وجہ کی بھی وضاحت ہوتی ہے آخر کیوں بلاول بھٹو کی جانب سے ایم کیو ایم کو ہدف بنایا گیا اور یہ نعرہ لگایا 'مرسوں مرسوں، پر سندھ نا دیسوں'، تاہم ابھی اس بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس تنازعے سے دیہی علاقوں میں پی پی پی زوال پذیر سیاست میں بہتری آتی ہے یا نہیں۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ لسانی بلکہ انتظامی بنیادوں پر سندھ کی تقسیم ناقابل برداشت ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت منتخب شہری حکومتی نظام کی بحالی میں ناکام ہوگئی ہے جس نے ایم کیو ایم کی لسانی بنیاد پر کی جانے والی سیاست کو قوت فراہم کی ہے، سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو چھ سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے اور مقامی حکومت کی بحالی کی توقع بھی اس وقت پیدا ہوئی جب سپریم کورٹ نے مداخلت کی۔

گزشتہ ہفتے سندھ اسمبلی نے آخرکاری سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے ترمیمی بل کی منظوری دے دی اور الیکشن کیشن آف پاکستان کو بلدیاتی انتخابات سے قبل حلقہ بندی کے اختیارات سونپ دیئے گئے۔

دو ہزار ایک کے قانون کے مقابلے میں اس نئے بل میں شہری حکومت کے اختیارات میں ظالمانہ حد تک کمی کی گئی ہے اور اس کے افعال بنیادی بلدیاتی خدمات تک ہی محدود کردی گئی ہے۔

صوبائی حکومت نے بیشتر اہم شعبے اپنے پاس ہی رکھے ہیں جیسے سیکیورٹی اور لینڈ منیجمنٹ وغیرہ، اسی طرح میٹروپولیٹن کارپوریشن کے مالیاتی اختیارات بھی محدود کیے گئے ہیں۔

صوبائی حکومت کے مضبوط کنٹرول پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان تنازع کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

ایسا نظر آتا ہے کہ صوبائی حکومت مقامی سطح پر اپنے اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں خاص طور پر کراچی کے معاملے میں تو یہ بالکل درست لگتا ہے جس کی وجہ اس کا مخصوص لسانی توازن اور صوبائی دارالحکومت کی حیثیت ہے، اختیارات کو منتقل نہ کرنے کی اہم ترین وجہ شہر کے وسیع ذرائع خاص طور پر زمینوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی خواہش ہے۔

زیادہ انتظامی خودمختاری کسی بڑے شہر جیسے کراچی جس کی آبادی ایک کروڑ اسی لاکھ سے دو کروڑ کے درمیان ہے، کو موثر طریقے سے چلانے کے لیے مثالی ہے ، تاہم پھر بھی منتخب مقامی حکومتی نظام کی بحالی چاہے محدود بلدیاتی اختیارات سے ہی کیوں نہ ہو، ممکنہ طور ہر کراچی اور صوبے کے دیگر اہم شہروں کو درپیش مسائل میں کمی لانے کا باعث بنے گی۔

مگر یہاں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہونے سے پہلے دیگر متعدد رکاوٹیں بھی موجود ہیں، جس میں سب سے متنازع حصہ حلقہ بندی ہے جو اب ای سی پی کی ذمہ داری ہے، اس کے علاوہ یہاں انتخابی عمل کی شفافیت کا مسئلہ بھی ہے، یعنی ایسے شہر میں جہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اس پر جرائم پیشہ مافیاز کا غلبہ ہے جن کی سرپرستی مختلف سیاسی جماعتیں کررہی ہیں، ان حالات میں آزاد و شفاف بلدیاتی انتخابات آسان ثابت نہیں ہوں گے۔

ایم کیو ایم کی علیحدہ صوبے کی مہم اور بڑھتی لسانی تقسیم نے صورتحال کو مزید تشویشناک بنادیا ہے۔

تیزی سے تبدیل ہوتے آبادی کے توازن کے باعث کراچی کے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ یہاں منتخب مقامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے، کچھ رپورٹس کے مطابق شہر کی آبادی 1998 کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوچکی ہے اور یہ بے تحاشا اضافہ ملک کے دیگر حصوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے نتیجے میں ہوا ہے۔

آبادی کی بدلتی صورتحال نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے سیاسی منظرنامے کو بھی تبدیل کردیا ہے، یہ مختلف نسلی و لسانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد کی حقیقی پناہ گاہ بن چکا ہے ، اس کے علاوہ ہم یہاں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے افراد کی تیسری نسل کو بڑا ہوتا دیکھ رہے ہیں جنھیں کوئی بمشکل ہی مہاجر کہہ سکتا ہے، ان حالات میں اس کثیرالنسلی شہر میں امتیازی سیاست تباہ کن جوا ہی ثابت ہوسکتی ہے۔

یہ وہ غلطی ہے جو ایم کیو ایم نسلی سیاست کی جانب واپس جانے کی کوشش یا مذہب کو سیاسی عمل میں شامل کرکے کررہی ہے، ایم کیو ایم ہوسکتا ہے کہ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں اپنی بالادستی برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہو مگر اب اسے اپنی سیاسی بقا کے سنگین ترین چیلنج کا سامنا ہے جس کے دیکھتے ہوئے ایم کیو ایم کو اپنی نسلی سیاست پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

انگریزی میں پڑھیں۔


لکھاری ایک مصنف اور صحافی ہیں۔

Read Comments