مردوں کے خلاف صنفی امتیاز بند کرو
حقوق نسواں کا نظریہ جھوٹ ہے، اگر جھوٹ نہیں تو پھر آئین پاکستان میں اس کا تذکرہ کیوں موجود نہیں؟
آئین یا دستور وہ دستاویز ہے جس میں ہر چیز یعنی بنیادی حقوق سے لے کر غیر ضروری معاملات جیسے نئے سال کے لیے بامقصد عہد کا ذکر موجود ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح طرز حکمرانی کا نظام تشکیل دیا جانا چاہیے اور کس طرح اسے تحلیل کرکے مارشل لاء نافذ کرنا چاہیے۔
اس میں سب کچھ ہے یہاں تک کہ اس میں ایک حصہ قوم کے پسندیدہ مشغلے یعنی رقم ادھار لینے کے بارے میں بھی ہے۔
یہ مکمل ضابطہ حیات ہے مگر اس میں حقوق نسواں کا نام و نشان نہیں، اس میں کی جانے والی بیس ترامیم میں بھی حقوق نسواں کا ذکر نہیں کیا گیا جیسا کہا جاتا ہے کہ اگر کچھ ٹوٹتا نہیں تو اس کی مرمت بھی مت کرو۔
یہ تصوراتی نظریہ پاکستان میں ہمارے طرز زندگی کے خلاف مغربی پروپگینڈہ کے ذریعے امپورٹ ہوا۔ یہ ہمارے معاشرے کی ساخت پر ہیری پوٹر کی طرح کا ایک اور حملہ تھا۔ میرے لیے اس سیریز کا سب سے ناقابل یقین حصہ مخلوط تعلیم کے اسکول کی موجودگی تھی۔
یہ ہماری ثقافتی اقدار جیسے غیرت کے نام پر قتل اور خواتین کی نسل کشی وغیرہ کی ضد ہے۔ اگر آپ اپنی مرضی سے جب چاہے کسی کو قتل نہیں کرسکتے، تو پھر پاکستان میں رہنے کا فائدہ کیا ہے؟ یہ ملک اس وقت تشکیل دیا گیا جب مغربی طاقتیں خطرات سے کھیلنے سے بیزار ہوکر کاؤنٹر اسٹرائیک کھیلنا چاہتی تھیں، جی ہاں واقعی۔۔۔۔
درحقیقت فلائٹ سمولیٹر امریکا کا سب سے مقبول گیم ہے، اور پاکستان میں اسے ڈرون حملوں کی مقبول اصطلاح کے ساتھ جانا جاتا ہے۔
حقوق نسواں کا تعلق پاکستان سے نہیں ہے۔ قائداعظم نے اپنی تقاریر میں ایک بار بھی اس کا ذکر نہیں کیا، انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا "آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، آپ اپنی مساجد میں جانے کے لیے آزاد ہیں اور آپ اپنے لبرل آرٹس کالجوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں"۔
اگر قائداعظم حقوق نسواں کے حامی ہوتے تو اس بات کو یقینی بناتے کہ ان کی بہن بھی تحریک آزادی کے دوران ایک طاقتور رہنما کی شکل میں ابھرسکیں۔ لوگ انہیں 'قوم کی ماں' حیثیت سے یاد رکھتے اور ان کی تصویر پاکستانی رہنماﺅں کے اسٹیکر کلیکشن میں رکھنے پر مجبور ہوتے۔
میں بس یہ کہنے کی کوشش کررہا ہوں کہ حقوق نسواں پاکستانی نظریہ نہیں۔ یہ تو بس لبرل آرٹس کالجوں کے کچھ طالبعلموں کے ذہنوں میں بسا خیال ہے جو یہ کہہ کر اچھا نظر آنا چاہتے ہیں کہ "مجھے حقوق نسواں کی ضرورت ہے کیونکہ ڈیبیٹ سوسائٹیز کی ممبرشپس مکمل ہوچکی ہیں"، وہ یہ سب اپنے حقوق کے لیے نہیں کررہی ہوتیں اگر وہ پاکستان میں حقیقی معنوں میں اپنے حقوق چاہتی ہیں، تو آخر وہ مرد کے طور پر کیوں پیدا نہیں ہوئیں؟
آخر انہیں اپنے حقوق کی کیا ضرورت ہے؟ انہیں تو پہلے ہی گھروں کے اندر مکمل آزادی حاصل ہے۔
اگر پاکستان میں خواتین آزاد ہوں گی تو ذرا گھر کے معاشی بوجھ کا تصور کریں۔ جب خواتین پورا دن گھر پر ہوں تو آپ کو چوکیدار کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ اگر آپ کے بچے ہوں تو ذرا سوچیں خواتین کو گھر میں رکھ کر آپ بچوں کی آیا پر ہونے والا کتنا بڑا خرچہ بچا سکتے ہیں۔ اور اگر وہ خواتین کھانا پکا سکیں تو آپ کسی بھی وقت اس سے کہہ سکتے ہیں کہ میرے لیے سینڈوچ بنادو۔
اگر خواتین کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے گا تو پھر ہم مرد گھریلو کاموں سے بچنے کے مزے سے کیسے لطف اندوز ہوسکیں گے اور کس طرح کفیل کے طور پر گھر میں پتلونیں پہننے کا مزہ لے سکیں گے؟ کیا آپ ایسی دنیا میں رہنا پسند کریں گے جہاں مرد پتلون بھی نہ پہن سکیں؟
مساوات کی اس جنگ کا کیا نتیجہ سامنے آئے گا؟ ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم انہیں مساوی حقوق اور وسائل دیں، تو ہی وہ پاکستان کے لیے نوبل، آسکر، اور ایمی ایوارڈ جیت سکیں۔
ہمیں پاکستان میں حقوق نسواں کے پھیلاﺅ کو روکنے کی ضرورت ہے اور اسے حقوقِ مرداں سے تبدیل کردینا چاہیے، تاکہ مردوں کے خلاف صنفی امتیاز کو روکا جاسکے۔ اگر پاکستان میں خواتین مردوں کے برابر آگئیں تو ہمیں ان کے سامنے جانوروں جیسی حرکتیں بند کرنا ہوں گی، اور ہم واقعی جانوروں جیسی حرکتیں کرنا پسند کرتے ہیں۔ ہم کروکوڈائل ہنٹر دیکھتے ہوئے پلتے بڑھتے ہیں۔ ویسے بھی آپ کو ہم سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ ہم کوئی خوبصورت چیز دیکھیں گے اور اس پر چھلانگ نہیں لگائیں گے۔
آخر ہمیشہ مردوں کو ہی قصوروار کیوں قرار دیا جاتا ہے؟ مغربی میڈیا معاشرے میں تشدد کے لیے فلموں اور ویڈیو گیمز کو بھی الزام دیتا ہے، تاہم پاکستان میں ایک مقبول ٹیلیویژن شو میں دکھائی جانے والی اس حقیقت کہ ایک برقعے میں ملبوس خاتون کس طرح ایک گاﺅں کو دہشت زدہ کردیتی ہے، معصوم لوگوں کو کتابوں اور قلم سے نشانہ بناتی ہے، کے برعکس ہم تشدد کا الزام مردوں پر لگادیتے ہیں۔
خواتین کو ہر چیز سے مسئلہ ہوتا ہے، اگلی چیز جو انہیں نہیں اچھالنی چاہیے وہ دفاتر میں جنسی طور پر ہراساں کرنا ہے۔ اگر میں اپنے ورکرز کو جنسی ہراساں نہیں کرنا چاہتا تو میں صرف مردوں کو ہی نہ بھرتی کر لیتا؟
اس سے بھی بڑھ کر ان کی سب سے بڑی جسارت یہ، کہ جب میں اپنے گھر سے ایکس ڈیوڈرنٹ لگا کر نکلتا ہوں، تو وہ مجھ پر نہیں گرتیں۔ مجھے اس کین پر خرچ کیے جانے والے اپنے ڈیڑھ سو روپے واپس چاہیئں۔
ایسا بالکل نہیں کہ پاکستان میں تمام طاقت مردوں نے سنبھال رکھی ہے۔ مرد پاکستان میں سماجی تعلقات کی املا نہیں لکھواتے مثال کے طور پر شادی کو ہی لے لیں، اگر آپ ہم سے اتنی ہی نفرت کرتی ہیں تو ہم سے شادیاں کیوں کرتی ہیں؟
یہ بات ہمارے منہ پر نہ دہرائیے گا۔ ہمارے پاس اس کے لیے ایک اچھا جواز موجود ہے یعنی ہم یہ تو کہہ ہی سکتے ہیں کہ ہم جہیز کے لیے شادی کرتے ہیں، آپ کا جواز کیا ہے؟ ایسا بالکل نہیں کہ معاشرہ خواتین پر شادی کرنے کے لیے دباﺅ ڈالتا ہے۔ پاکستان میں لڑکیوں کے پاس متعدد آپشنز ہیں۔ وہ ہر اس شخص سے شادی کرسکتی ہیں جس سے ان کے والدین شادی کرانا چاہیں، یا بیرون ملک جا کر اپنے والدین کے لیے ہمیشہ کے لیے مرسکتی ہیں۔
اوپر لکھا گیا مضمون ایک طنزیہ تحریر ہے۔
شہزاد غیاث پاکستانی کامیڈین اور تھیٹر ایکٹر ہیں، اور نیویارک میں کامیڈی شوز کرتے ہیں۔ وہ فلبرائٹ اسکالرشپ پر تھیٹرز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرShehzad89@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
