پکوان کہانی: مٹن ونڈالو (آلو گوشت)
میرے والد ہمیشہ ہی زبردست کہانیاں سناتے تھے اور نیچے دیا گیا واقعہ بھی ان میں سے ایک ہے جو میں نے متعدد مواقعوں پر سنا ہے۔
یہ ساٹھ کی دہائی کا ذکر ہے۔ اس وقت کراچی کو مشرق کا پیرس سمجھا جاتا ہے اور آئی بی اے سے تازہ تازہ گریجویشن کرنے کے بعد میرے والد ایک دوست سے ملنے کے لیے میٹروپول ہوٹل گئے۔ وہاں مینیو میں ایک پکوان کا نام 'مٹن ونڈالو' درج تھا، میرے والد کا خیال تھا کہ یہ کوئی غیرملکی ڈش ہے، چنانچہ انہوں نے اس کا آرڈر دے دیا۔
مگر کچن سے جو چیز ان کی میز پر آئی وہ آلو گوشت تھا، چنانچہ اس روز سے ہمارے گھر میں آلو گوشت کا نام مٹن ونڈالو پڑگیا۔
درحقیقت ونڈالو کا بنگالی مصالحے دار ورژن 'ٹنڈالو' بھی موجود ہے، اور بہت مصالحے دار ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے بیشتر ریسٹورنٹس اسے اپنے مینیو کا حصہ نہیں بناتے۔
لِزی کولنگھم اپنی کتاب Curry: A Tale of Cooks and Conquerors میں لکھتی ہیں۔
'ونڈالو کو عام طور پر برصغیر کا سالن سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ پرتگالی پکوان 'کارنے ڈی وینہا ڈالہوز' کی گوا میں اپنائی گئی شکل ہے, جس میں گوشت کو سرکے، شراب، اور ادرک میں پکایا جاتا تھا، جبکہ اس کا نام ونڈالو یقیناً وینہا ڈالہوز کی بگڑی ہوئی شکل کا نتیجہ ہے۔
جب پرتگالی برصغیر میں آئے تو انہوں نے دیکھا کہ یہاں کے لوگ سرکہ نہیں بناتے۔ سینٹ فرانسس سے تعلق رکھنے والے پادریوں نے ناریل کی تاڑی سے سرکہ تیار کرکے یہ مسئلہ حل کردیا۔ باورچیوں نے اس کے بعد گرم مصالحے، املی، کالی مرچ، کافی مقدار میں لہسن، املی، دارچینی، لونگ اور دیگر مصالحوں کے ساتھ تیار کیا، جن کی تلاش میں واسکو ڈا گاما نے مالابار کے ساحل پر قدم رکھا تھا۔
مگر ونڈالو کے دانے دار شوربے کو ذائقہ دینے والی سب سے اہم چیز لال مرچ ہے۔ جنوبی امریکا کے اپنے ہسپانوی ساتھیوں کی طرح ہندوستان کے پرتگالیوں کو بھی لال مرچ کا آگ بھڑکا دینے والے ذائقہ کافی بھایا، اور یہی وجہ ہے کہ وہ ونڈالو میں اس کا بہت زیادہ استعمال کرتے تھے۔